مجھے دنیا کے کسی چھوٹے سے چھوٹے اور غریب سے غریب ترین ملک کا نام بتا دیں جس کے وزیر اعظم، وزیر خارجہ،، سپیکر قومی اسمبلی نے کسی غیر سرکاری شخصیت کے کاروباری دفتر میں بیٹھ کر ملک کی اندرونی اور بیرونی سکیورٹی بارے میں گفتگو کی ہو۔۔۔۔دنیا بھر کا یہ اصول ہوتا ہے کہ جب بھی کسی ملک کا سربراہ ملک کے اہم ترین مسائل اور دشمن کی کسی کارروائی یا اس کے اثرات کا مقابلہ کرنے کیلئے صلاح مشورہ کرتا ہے تو ملک کی سکیورٹی ایجنسیاں اس جگہ کی مکمل طور پر حساس اور جدید آلات کے ذریعے سکریننگ کرتی ہیںتاکہ دشمن کی جانب سے بچھائے گئے کسی جال میں نہ آ سکیں اور نہ ہی دشمن ان کی باتوں کو ریکارڈ کر سکے۔۔۔ خاص طور پر جب دشمن ملک کا ایک بہت بڑا صنعتی ٹائیکون اسی دفتر میں اسی جگہ پر آپ کے وہاں آنے سے پہلے انہی نشستوں پر ایک گھنٹہ گزار کر گیا ہو تو ملک کا وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کا محتاط ہونابے حد ضروری ہوجاتا ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور لندن میں حسن نواز کے دفتر میں جہاں بھارت کے کاروباری حضرات کا آنا جا نا ہوتا ہے وہاں ڈھائی گھنٹے بیٹھ کر پاکستان کی پالیسیاں ڈسکس کرنا تو کسی طور بھی منا سب نہیں تھا؟۔ بڑے دکھ سے لکھ رہا ہوں کہ جنیوا میں اس وقت وہاں کی ہر معروف سڑک پر بڑے بڑے بل بورڈ لگے ہوئے ہیں جن پر بڑے بڑے لفظوں میں Free Balochistan لکھا ہوا ہے ۔۔۔اور وہاں کی پبلک ٹرانسپورٹ کی بسوں کے دروازوں والی سائیڈ پر بھی فری بلوچستان تحریر کیا گیا ہے۔۔۔لیکن جنیوا میں درجنوں کی تعداد میں موجود پاکستان کا سفارتی عملہ زبان سے ایک لفظ نکالنا تو دورکی بات کسی سے تحریری طور پر بھی شکایت کرتا نظر نہیں آتا ،جب محب وطن پاکستانیوں کی کثیر تعداد نے سفارت کاروں سے احتجاج کیا تو ان کا جواب تھا، ہمیں اسلام آباد سے اس کے متعلق کوئی حکم آئے گا تو
دیکھیں گے۔یہ وہ سفارت کار ہیں جن میں ماڈل ٹائون فین توقیر شاہ جیسے لوگ بھی شامل ہیں جو اس ملک کے غریب عوام کے خون پسینے سے کمائی دولت کے ٹیکسوں اور غیر ملکی قرضوں سے یہاں بیٹھ کر عیا شیاں کر رہے ہیں ان سب کو یہ بل بورڈ اور بسوں کے اشتہار دکھائی دیتے ہیں لیکن شائد ان سب کی آ نکھوں کا پانی اور ضمیر مر چکا ہے۔( یہ تمام تصاویر میرے پاس موجود ہیں) ۔ اس ملک سے کمائی ہوئی اور لوٹی ہوئی دولت سے اپنے خاندان سمیت عیش و آرام تو کئے جا رہے ہیں لیکن ملک کا کوئی نہیں سوچ رہا اور یہ سب تنخواہیں اور مراعات کما کر ملکی مفادات کوسب کے سامنے جلتا ہوا دیکھا جا رہا ہے۔مسلم لیگ نواز کا جو بھی لیڈر مائیک کے سامنے آتا ہے وہ یہی سوال کرتا ہے کہ عمران خان کے ذرائع آمد نی کیا ہیں، وہ اپنی یہ شاندار زندگی کیسے گزار رہا ہے جس پر عمران خان نے خوبصورت بات کہتے ہوئے جواب دیا کہ میں نے زندگی میں جہاں سے بھی اور جس طریقے سے بھی کمایا ہے اسے کبھی اپنے انکم ٹیکس اور اثاثوں میں چھپایا نہیں اور نہ ہی آپ کی طرح جلایا ہے جب مسلم لیگ نواز لاہور کے حلقہ این اے 120 کی انتخابی مہم میں بار بار اس کا تذکرہ کر تی دکھائی دیتی تھی تو تحریک انصاف کی جانب سے کوئی بھی ان کو جواب دینے والا نہیں تھا کہ بی بی آپ بتائیں جس طرح عمران خان قومی اسمبلی کا رکن ہے اور بقول آپ کے وہ کوئی کام بھی نہیں کرتے تو اسی طرح آپ کے میاں فقط قومی اسمبلی کے رکن ہی ہیں اور وہ بھی کوئی کام نہیں کرتے تو پھر وہ اور ان کی اولاد پاکستان اور پاکستان سے باہر اس قسم کی شاہانہ زندگی کس طرح گزار رہے ہیں؟۔ ۔۔۔ عمران خان کی زندگی کے بارے میں ۔ٹیلیفون اور ٹیلیگراف کے ایک ریٹائرڈ ملازم کی حلقہ این اے120 کا سروے کرنے والی میڈیا ٹیم سے کی جانے والی گفتگو اس وقت دنیا بھر میں وائرل ہو چکی ہے جس
میں عمران خان نے 1984میں اسے فون کرتے ہوئے کہا کہ آپ مجھے قومی ہیرو سمجھتے ہوئے پاکستان سے باہر کی جانے والی میرے گھر والوں کی امریکہ ملائی گئی کالز کا دورانیہ کم کرتے ہوئے رعائت دے رہے ہیں جو ناجائز ہے۔۔۔آپ مجھے براہ کرم قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہوئے کسی بھی قسم کی رعائت نہ دیا کریں کیونکہ یہ جرم بھی ہے اور گناہ بھی۔
سوچئے کہ یہ آج سے 33 سال پہلے کی بات ہے جب عمران خان کا سیا ست سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا وہ صرف ایک کرکٹر تھا اور لندن میں وکٹوریہ کی جانب سے کائونٹی کھیل رہا تھا۔
مقابلہ حسن کی انتظامیہ نے یہ سوچ کر کہ شائد اس نے کم معاوضہ کی وجہ سے مقابلہ حسن میں عالمی حسینہ کے چنائو کیلئے بطور جیوری کے فرائض ادا کرنے سے انکار کیا ہے ان سے دوبارہ رابطہ کرتے ہوئے پیشکش کی ۔مقابلہ حسن کی انتظامیہ آپ کی ججز پینل میں شرکت کو یقینی بنانے کیلئے آپ کی خواہش کے مطا بق معاوضہ بڑھانے کیلئے تیار ہے۔۔۔لیکن اس شخصیت نے نہایت نرمی سے ایک بار پھر انکار کرتے ہوئے انہیں کہا کہ مسئلہ کم پیسوں کا نہیں ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس قسم کے مقابلہ حسن کی کوئی گنجائش ہی نہیں اور پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اس میں بطور جج شرکت کرتے ہوئے عالمی حسینہ کا انتخاب کروں؟۔آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ شخص جسے آج سے23 برس قبل دس لاکھ روپے کی آفر کی جا رہی ہو وہ اسے اسلامی تعلیمات کی رو سے ٹھکرا دے اور ہمارے حضرات اس کو یہودی کے لقب سے پکاریں تو ایسوں کی ذہنیت کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔۔۔سوچئے کسی بھی ایسے شخص کے بارے میں جب ملک کی عدالت عالیہ یہ فیصلہ دے دے کہ وہ خائن ہے تو ایسے شخص کی اگر مذہبی لوگ بیعت کرنا شروع کر دیں تو پھر نوجوان نسل ایسے لوگوں کے وعظ پر کس طرح یقین کر ے گی ؟۔
کسی پر بھی الزام نہیں لگاتے لیکن یہ تو پوچھ سکتے ہیں کہ آخر وہ عمارت ہی آگ کیوں پکڑتی ہے جس میں ترقیاتی کاموں کے ریکارڈ رکھے جاتے ہیں؟۔اگر میٹرو بس بنائی جائے تو اس کے افتتاح کے چند دن بعد لاہور کے ایل ڈی پلازہ کے صرف اسی حصے میں آگ بھڑک اٹھتی ہے جہاں دو روز قبل میٹر وبس کا ریکارڈ لا کر رکھا گیا تھا۔۔لاہور کی ضلع کچہری میں زمینوں کے اس ریکارڈ کو ہی کیوں آگ کے حوالے کر دیا جاتا ہے جن علا قوں کی زمینیں آپ خریدنے میں اس لئے کامیاب نہیں ہو سکے کہ ان کے مالکان نے انہیں فروخت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔۔یہ کوئی طلسماتی کہانی نہیں ہے ،دن دہاڑے لاہور کے کوتوال( ایس ایس پی) کے دفتر سے ملحقہ ضلع کچہری میں آگ لگائی گئی جہاں ان زمینوں کے ریکارڈ تھے اور یہ سب راکھ ہونے پر کوئی بھی ان کا مالک نہ بن سکا سوائے اس آگ کو لگانے والوں کی مرضی کے لوگوں کے۔
اسلام آباد کا عوامی مرکز جہاں سی پیک کے ترقیاتی کاموں کے ریکارڈ رکھنے کی بات کی جا ری تھی وہ اس پارلیمنٹ کے سامنے شعلوں کی نظر کر دیا گیا جس کے بارے میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہتے ہیں کہ یہ سب سے بالا تر ادارہ ہے اگر یہ با لا تر ادارہ ہے تو کیا اس پارلیمنٹ کوئی باہر سے آ کر بتائے گا کہ پتہ کرو کہ یہ کون ہے جو ہر اس عما رت کو آگ کی نظر کر رہا ہے جس میں ملک میں کئے جانے والے اربوں روپے کے میگاپراجیکٹس کا ایک ایک کاغذ ،سی ڈیز اور فائلیں لا کر رکھ دی جاتی ہیں؟۔۔۔۔کمائو تے جلائو۔!!