"MABC" (space) message & send to 7575

اکبر بگٹی کی ہلاکت کے پس پردہ سیا ست؟

نیشنل پریس کلب واشنگٹن میں ڈیڑھ ماہ قبل 25 اگست کو احمر مستی خان کے امریکی دوستوں کے نام سے بنائی گئی تنظیم کے تحت ایک سیمینار کرایا گیا ،جس کا موضوع حیران کن طور پر'' نواب اکبر بگٹی کے قتل کی پس پردہ سیا ست‘‘ تھا ۔حسین حقانی سمیت مہران مری اور براہمداغ بگٹی کی زبانوں سے نکلنے والے الفاظ نے سننے والوں کو چونکا کر رکھ دیا۔ یہ لوگ گزشتہ دس بارہ برسوں سے امریکہ اور یورپ میں مقیم ہیں لیکن ان کی طرف سے ایسے الفاظ ادا ہونا تو دور کی بات کبھی ہلکا سا اشارہ بھی دیکھنے میں نہ آیا کہ نواب اکبر بگٹی کے قتل میں ایک پڑوسی ملک بھی لوث تھا۔ نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کو اگست میں گیارہ برس ہو چکے ہیں اور ان گیارہ برسوں میں براہمداغ بگٹی سمیت کسی بھی بلوچ علیحدگی پسند کی جانب سے اشارے کنائے میں بھی یہ بات نہ کی گئی کہ اکبر بگٹی کے قتل کے پس پردہ ایک پڑوسی ملک کی سیا ست کار فرما ہو سکتی ہے؟... ان سب کو گیارہ برسوں کے بعد اکبر بگٹی کی ہلاکت کے پیچھے اس ملک کا ہاتھ کس نے یاد دلا دیا ؟یہ کوئی ایسا سوال نہیں کہ جس کا جواب نہ مل سکے ۔یہ الزام لگوانے والے وہی ہیں جنہوں نے ان نام نہاد بلوچ رہنمائوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو ان کی دنیا بھر میں ہر فرمائش کو پلک جھپکنے میں پوری کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں ... آخر کوئی تو ہیں جو ان بلوچ سیا ستدانوں اور دہشت گردوں کے برس ہا برس سے کروڑوں ڈالر کے اخراجات پورے کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ پاکستان دشمنوں کے سواا ور کون ہو سکتے ہیں ؟۔ 
واشنگٹن میں نیشنل پریس کلب میں سیمینار کے بعد یورپ کے میڈیا اور الجزیرہ کے ایک چبھتا ہوا سوال حسین حقانی سے پوچھا کہ گیارہ برسوں میں آپ کو کب معلوم ہوا کہ بگٹی کی ہلاکت میں یہ پڑوسی ملک بھی ملوث ہو سکتا ہے؟ اس کی اطلاع آپ لوگوں کو اس طویل عرصے بعد کب اور کیسے ملی اور کس نے آپ کو بتا یا کہ جنرل مشرف اور اس پڑوسی ملک کی حکومت نے مل کر بگٹی کو ہلاک کیا ؟ ایسے سوالات کی بھر مار پر حسین حقانی بغلیں جھانکتے ہوئے جلدی سے پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ گئے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ امریکی میڈیا نے اس سیمینار کی کوریج میں کوئی خاص دلچسپی نہ دکھائی ۔مقررین میں ہر ایک سے یہی پوچھا جا رہا تھا آپ کو اکبر بگٹی کے قتل میں اس ملک کا ہاتھ کب اور کیسے نظر آرہا ہے؟۔ کیا آپ ہمیں اس کی تفصیلات بتائیں گے ؟۔ الجزیرہ کا کہنا تھا کہ جب گوادر سمیتCPEC کے منصوبے اپنی تکمیل کی جانب بڑھتے ہوئے دکھائی رہے ہیں تو آپ کی یہ نئی منطق قابل قبول نہیں ہو گی ؟۔ 
اپنے ایک گزشتہ مضمون میں‘ میں نے بتایا تھا کہ حسین حقانی اب آصف علی زرداری سے اپنا ناتہ توڑ کر بھارتی دوستوں کے کہنے پر مکمل طور پر نواز شریف کیمپ میں شامل ہو چکے ہیں اور اس کیلئے امریکہ کا ایک بہت بڑا سرمایہ دار تاجر ‘جس کا نام پاناما اور حدیبیہ میں میاں نواز شریف کے ساتھ لیا جا چکا ہے ،حسین حقانی کی مکمل مدد کر رہا ہے اور حسین حقانی امریکہ میں نواز شریف لابی کیلئے ہائر کی جانے والی ایجنسی کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ یہی حسین حقانی واشنگٹن نیشنل پریس کلب کے سامنے احمر خان مستی کی '' امریکن بلوچ فرینڈز موومنٹ‘‘ نامی تنظیم کے اس اجلاس کے روح رواں تھے ۔نیشنل پریس کلب واشنگٹن میں حسین حقانی کو بلوچستان میں دہشت گردوں کی سر پرستی کرنے والوں کے ساتھ دیکھ کر پاکستانی پہلے تو حیران ہوئے لیکن جب اس کی غلیظ زبان سے پاکستان کی سپریم کورٹ اور افواج پاکستان کے ساتھ ساتھ عوامی جمہوریہ چین کے خلاف نفرت سے لبریز الفاظ سنے گئے تو انہیں یقین ہو گیا کہ یہ ننگ وطن کھل کر پاکستان کے خلاف میدان میں اتر چکا ہے... یاد رہے کہ امریکی دورے کے دوران خیر سے ہمارے نئے وزیر خارجہ ایک اطلاع کے مطا بق اسی حسین حقانی کے ایک سر پرست سے خصوصی ملاقات بھی کر چکے ہیں ۔ حسین حقانی کے بعد براہمداغ بگٹی نے واشنگٹن کے اس سیمینار میں سکائپ کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے دہشت گردوں کو بلوچ قوم کے ہیرو قرار دیتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔اس پر بھر پور تالیاں بجانے والوں میں حسین حقانی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے معتقدین بھی پیش پیش تھے ۔
حسین حقانی کے علا وہ اس اجلاس میں مری قبیلے کے نواب مہران خان مری ،حمال حیدرجو خود کو بین الاقوامی ترجمان برائے بلوچ نیشنل موومنٹ کے نام سے متعارف کراتا ہے...بانک کریما بلوچ جس کا دعویٰ ہے کہ وہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی صدر ہے۔ ان کے علا وہ احمر مستی خان کنوینر '' امریکن فرینڈز آف بلوچستان‘‘ نے خطاب کرتے ہوئے پہلی دفعہ یہ عجیب و غریب قسم کی تھیوری پیش کرتے ہوئے امریکہ سمیت بین الاقوامی میڈیا میں یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی کہ نواب اکبر بگٹی کو اس لئے ہلاک کیا گیا کہ جنرل مشرف اور پڑوسی ملک کی حکومت آپس میں طے کر چکے تھے کہ دونوں ممالک مل کر بلوچستان کی بند رگاہ گوادر کو بین الاقوامی بندر گاہ بناتے ہوئے چین کو دنیا بھر سے منسلک کرنے کیلئے اس بندر گاہ کے راستے پاک چین اکناک راہداری کا منصوبہ مکمل کریں گے ،جس سے ایک طرف جہاں چین کو سنٹرل ایشیا سے افریقہ تک اپنی تمام تجارت اور توانائی کی سہولیات حاصل ہو جائیں گی وہیںبلوچستان میں موجود سونا، تانبا، لیتھیم اور کاپر سمیت دوسری بیش قیمت معدنیات کا کنٹرول بھی حاصل ہو جائے گا۔ 
پاکستان میں مسلم لیگ نواز حکومت دو برسوں سے ایک ہی رٹ لگائے جا رہی ہے کہ'' ہمارا مخالف عمران خان CPEC کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے ملک دشمنی کر رہا ہے، وہ نہیں چاہتا کہ ملک ترقی کرے...لیکن واشنگٹن کے بعد جرمنی کے شہرGOTTINGEN میں سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مسلم لیگ نواز کے ورکروں نے براہمداغ بگٹی کے لوگوں کے ساتھ مل کر عوامی جمہوریہ چین کے قومی دن کے موقع پر'' فیڈریشن آف بلوچ موومنٹ‘‘ کے نام سے قائم کی گئی تنظیم کے تحت یہ کہتے ہوئے احتجاج کیا کہ چین بلوچستان کے بیش قیمت معدنی ذخائر پر ، گوادر اور پاک چین اکنامک راہداری کے نام پر قابض ہوناچاہتا ہے...اور یہی کھیل برسلز میں بھی اس وقت کھیلا گیا جب اوسلو کے نوبل امن سینٹر میں آل پاکستان مسلم لیگ کے تحت چین کا قومی دن منانے کی تقریب کو بلوچستان کی مسلح تحریک چلانے والی مختلف تنظیموں کے ساتھ مل کر مسلم لیگ نواز اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد نے مداخلت کرتے ہوئے ناکام بنانے کی کوشش کی، جس پر پولیس کے مسلح دستوں نے مداخلت کرتے ہوئے حالات کو کنٹرول کیا...اور پھر یکم اکتوبر کو سب نے دیکھا کہCPEC کے نام کو بار بار استعمال کرنے والی نواز لیگ نے لندن میں برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے سامنے لندن میں بلوچستان حکومت میں شامل اچکزئی گروپ اور بلوچ تنظیموں کے شانہ بشانہ حصہ لیتے ہوئے یہ جھوٹ پھیلانے کی کوشش کی کہ بلوچ عوام کے خلافWAR CRIMESعروج پر ہیں ، برطانوی حکومت اور عالمی طاقتوں کو مداخلت کرتے ہوئے ان وار کرائمز کو روکنے کی کوشش کی کرنی چاہئے۔کیا لندن میں رہنے والے پاکستانیوں کی آنکھیں دھوکہ کھا سکتی ہیں کہ اس احتجاج میں کون کون سے لوگ شریک تھے؟۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں