جنیوا کی چند بڑی سڑکوں اور پبلک ٹرانسپورٹ بسوںپر'' فری بلوچستان‘‘ کے بل بورڈ اور اشتہارات لگوا کر بھارتی وزارت خارجہ اور راء سمجھ بیٹھی تھی کہ اس نے پاکستان کے کے خلاف کوئی بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہے ... ان بل بورڈز کو نصب ہوئے ابھی چوبیس گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اگلی صبح اہل جنیوا جب اپنے گھروں سے باہر نکلے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جنیوا کی دیواریں ایک سرے سے دوسرے سرے تک'' فری تری پورہ...فری جموں کشمیر...۔فری ناگا لینڈ...فری منی پور...فری گورکھا لینڈ... فری خالصتان کی ‘‘ پینٹنگز سے اٹی پڑی تھیں... مجھے سوئٹزر لینڈ جنیوا سے ایک دوست نے وہاں کی سڑکوں پر رواں دواں بسوں اور ٹراموں پر ان ریاستوں کی آزادی اور وہاں پر انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف اقوام متحدہ کی 35 ویں کانفرنس کے باہر ان ریا ستوں کے عوام کی بھارت سے آزادی مانگنے کے پلے کاڈ اٹھائے ہوئے جو تصاویر بھیجی ہیں ان میں جنیوا کی ان سڑکوں سے گزرنے والے ٹورسٹ اور مقامی لوگوں کو دھرا دھڑ ویڈیو بناتے دکھایا گیا ہے...جیسے ہی یہ خبر بھارتی سفارت خانے میں پہنچی تو کہرام مچ گیا کہ یہ کیا ہو گیا ؟...بھارت سمجھ بیٹھا تھا کہ پاکستان کی سیا سی حکومت ہمیشہ کی طرح اس پر بھی خاموش رہے گی لیکن وہ یہ بھول گیا کہ '' وہ جو مریم صفدر صاحبہ کی نظروں میں کسی کو دکھائی نہیں دیتے‘‘ جاگ رہے تھے اور ان سب پاکستانیوں نے باہم مل کر جنیوا کے در و دیوار پر بھارت کو وہ زناٹے دار تھپڑ رسید کئے کہ وہ ابھی تک تلملا رہا ہے۔ بھارت نے کروڑوں روپے خرچ کرتے ہوئے نورالدین مینگل اور مہران مری کے ذریعے جو ڈرامہ جنیوا میں کرایا تھا پاکستان کے غیور نے ناکام بنا دیا۔جنیوا کی سڑکوں پر لگائے گئے اشتہارات اور تصاویر کوئی خیالی نہیں بلکہ بھارت کی مختلف
ریاستوں میں اٹھنے والی آزادی اور علیحدگی کی تیز تر ہونے والی تحریکوں کے لوگوں کی ہیں جنہوں نے بھارتی استبداد کے خلاف میدان عمل میں آ کر مودی سرکار کو الجھا کر رکھ دیا ہے... اٹھائیس اگست کی شام دارجلنگ پولیس نے تین نوجوانوں کو ان کے گھروں سے یہ کہتے ہوئے اٹھا لیا کہ ان کا تعلق گورکھا لینڈ موومنٹ کے حامی گروپ سے ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس سال جون میں دراجلنگ کی پہاڑیوں میں پر تشدد کارروائیوں کے دوران مختلف سرکاری املاک کو نذر آتش کیا تھا...یہ تینوں نوجوان جنہیں پولیس نے گرفتار کیا انہیںدارجلنگ کے سماجی اور سیا سی حلقوں میں انتہائی مقبولیت اور شہرت حاصل ہے اور ان کے بارے میں کوئی بھی یہ گواہی دینے کو تیار نہیں کہ ان کا تعلق کسی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث گروہ یا تنظیم سے ہو سکتا ہے کیونکہ یہ نوجوان ہمیشہ اپنے ارد گرد کی سوسائٹی کے درمیان ہی نظر آتے رہے ہیں۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص ہر وقت لوگوں کے درمیان موجود رہتا ہو اور وہ کئی کئی گھنٹوں یا دس پندرہ دنوں کیلئے گورکھا لینڈ والوں کے ساتھ پہاڑوں میں بھی رہے؟۔ان تین نوجوانوں کی گرفتاری نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور لوگ پہلے سے بھی زیا دہ شدت سے بھارت کی سکیورٹی فورسز اور نئی دہلی حکومت کے خلاف اس ہڑتال میں شامل ہو گئے جسے گورکھا لینڈ کی علیحدہ ریا ست کا مطالبہ کرنے والوں کی جانب سے شروع کئے74 روز ہو چکے تھے۔ نئی دہلی حکومت گورکھا لینڈ کی صورت میں علیحدہ وطن کی مانگ کرنے والوں کو کچلنے کیلئے ہر وہ حربہ استعمال کر رہی ہے جو برما میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف وہاں کی فوج اور بدھ انتہا پسندوں کی جانب سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
دارجلنگ اس وقت پولیس سٹیٹ کی شکل اختیار کر چکا ہے اور بد قسمتی دیکھئے کہ برماکی آنگ سان سوچی کی طرح یہاں بھی ممتا بینر جی نام کی عورت اقتدار اور طاقت کے نشے میں ان ہڑتالیوں اور ان کے حامیوں کے خلاف ظلم و بر بریت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ ا س وقت کشمیر اور برما کے بعد دارجلنگ میں شہری آزادیوں کی صورت حال شائد سب سے زیا دہ بد ترہو چکی ہے ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بھارتی سرکار نے ان ہڑتالی اور علیحدہ وطن کا مطا لبہ کرنے والوں کے رابطوں کو منقطع کرنے کیلئے سب سے بڑا حملہ کرتے ہوئے 18 جون سے انٹر نیٹ سروس مکمل طور پر معطل کی ہوئی ہے اور ساتھ ہی اس ہڑتال کو کچلنے کیلئے فوج ا ور پولیس کی جانب سے گھر گھر جا کر لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے ساتھ ساتھ رات گئے ان کے گھروں میں زبر دستی داخل ہو کر تلا شی کا عمل بھی جاری کیا ہواہے جس دوران کئی بے گناہ نوجوانوں کو اغوا کیا گیا اور ان اغوا کئے جانے والوں میں صرف لڑکے ہی نہیں بلکہ نوجوان لڑکیاں،خواتین اور بوڑھے مرد بھی شامل ہیں ۔غرض یہ کہ اس وقت اگر دارجلنگ کی صورت حال کا آزاد میڈیا کی زبان میں تجزیہ کیا جائے تو یہ سمجھ لیں کہ اس وقت دارجلنگ کسی فاتح فوج کی چھائونی میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے ۔
گورکھا لینڈ کا مطالبہ کرنے والوں اور ان کی اپیل پر ہڑتال میں حصہ لینے والوں کے خلاف ہر طرح کا ظلم روا رکھنے کے با وجود ابھی تک نئی دہلی سرکار یہ ہڑتال اور تحریک ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور نہ ہی ہو سکے گی۔ اس کی راء سمیت تمام خفیہ ایجنسیوں نے گورکھا لینڈ سے متعلق مختلف تنظیموں ،جن میں گورکھا لینڈ موومنٹ رابطہ کمیٹی(GMCC) گورکھا JANMUTkTI مورچہ کی لیڈر شپ ،کو اپنے مقاصد سے ہٹانے اور ان کے ساتھ رہ کر مخبری کرنے کیلئے ان کے ملنے جلنے والوں، ان کے رشتہ داروں کو انتہائی پر کشش آفرز کیں۔ اس سلسلے میں موساد اور سی آئی اے کی طرح خصوصی طور پر اپنی تربیت گاہوں میں سدھائی ہوئی خوبصورت لڑکیوں کے ذریعے حسن اور دولت کا لالچ دیتے ہوئے اس تحریک میں شامل نو جوان لڑکوں اور لڑکیوں میں پھوٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی جا رہی ہے لیکن انہیں ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ۔ نو جوان اور خوب صورت لڑکیوں کے ذیعے نوجوانوں کی برین واشنگ کا ثبوت ابھی حال ہی میں انصار الشریعہ کے داعش سے علیحدہ ہونے والے گروپ کی صورت میں سب کے سامنے آ چکا ہے ،جنہوں نے کراچی یونیورسٹی کے نوجوان طالب علموں کو ورغلانے اور ان کی برین واشنگ کیلئے نوجوان لڑکیوں کا ایک گروپ تشکیل دیا ہوا تھا جو اب سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہو چکا ہے۔
بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی نے ایک پریس کانفرنس میں صاف کہہ دیا ہے کہ اگر دارجلنگ کی پہاڑیوں کو بنگال سے کسی بھی صورت میں علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کیلئے جو خون خرابہ ہو گا اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا اور ہم ایسا کبھی بھی نہیں ہونے دیں گے...گورکھا لینڈ کیلئے جاری مسلح جد جہد کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس کیلئے کوششیں انگریز حکومت میں 1907 سے ہی شروع ہو گئی تھیں اور پھر یہ سلسلہ وقفے وقفے سے1929-41-52-84 میں بھی شدت سے سر اٹھاتا رہا اوراس کیلئے اب تک ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں...اور اس وقت گورکھا لینڈ کے حصول کیلئے شروع کی گئی تحریک میں اس لئے بھی تیزی سے شدت آتی جا رہی ہے کہ ممتا بینر جی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ دارجلنگ میں بھی سرکاری زبان بنگالی ہی نافذ کی جائے گی جس کے خلاف80 فیصد سے زائد آبادی سراپا احتجاج ہے...!!