انگریزی کا ایک بہت ہی مشہور محاورہ ہےIgnorance is the Mother of All Evils۔ آج اگر اپنے چاروں جانب نظر دوڑا ئیں تو مسلمان ممالک اس معیار پر سب سے زیا دہ پورا اتر تے ہیں۔ اگرچہ یہ کلی طور پر بے خبر نہیں ہیں مگر ایک تجاہل عارفانہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اپنی سستی اور کم ہمتی کی وجہ سے ہی آج یہ پوری دنیا کے نشانے پر ہیں کیونکہ ایک کاہل اور جاہل فرد جسمانی طور پر چلتا پھرتا دکھائی تو دیتا ہے لیکن وہ کبھی ایک آزاد اور خود مختار انسان کے طور پر خود کو نہیں منوا سکتا۔ یہی حال مجموعی طور پر تمام مسلم دنیا کامحسوس ہوتا ہے یا بظاہر نظر آتا ہے۔
رسول کریم محمد مصطفیﷺ کی آمد کے بعد وہ عرب‘ جو دنیا بھر میں اپنی تہذیب اور کردار کی وجہ سے سب سے با وقار قوم بن کر ابھرے‘ وہی جوحضوراکرم ؐ کی آمد سے قبل اپنی جاہلیت کی وجہ سے ایک کونے میں دبکے ہوئے تھے‘ دیکھتے ہی دیکھتے چار سو چھا گئے۔ لیکن جب ملوکیت غالب آئی تو خزانوں میں دولت کے انبار ہونے کے با وجود سب کچھ بدل کر رہ گیا۔ آج بھی کھربوں ڈالر کی تیل اور گیس کی دولت کے باوجود،ہزاروں کی تعداد میں سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہونے کے باوجوداس خطے میں وہ بہتری دیکھنے میں نہیں آتی جو آنی چاہئے تھی۔بھارت‘ جہاں ایک سو پچاس سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں‘ ایک ارب بیس کروڑ سے زائد آبادی والا ملک‘ جہاں گائے، بندر، سانپ، ہاتھی اور قسم قسم کے بتوں کی پوجا کی جاتی ہے‘ ایک ریا ست کی شکل میں‘ عالمی قوت بننے کے لئے متواتر ایک سمت میں سفرکئے جا رہا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین، جاپان اور جنوبی کوریا بھی آج جگمگاتے ہیرے بنے ہوئے ہیں لیکن اسی کرہ ٔارض پر مشرقِ وسطیٰ کے بعض ممالک آپس میں ایک دوسرے سے‘ یہ جانتے ہوئے بھی بر سر پیکار ہیںکہ کل کا لارنس آف عریبیہ آج ایک نئے بہروپ میں انہیں باہم الجھا رہا ہے۔قدیم عصبیت، جاہلانہ اور متعصب روایات پر کاربند رہنے کی وجہ سے آج کا ہر گزرتا ہوا دن مسلم دنیا کو تقسیم در تقسیم کرتے ہوئے تباہی اوربربادی کے اندھیروں میں پھینک رہا ہے۔ اگر صرف مشرقِ وسطیٰ کو دیکھا جائے تو ا ﷲ نے عرب سر زمین کو ٹرلین ڈالرز کے بیش بہا خزانوں سے نواز رکھا ہے لیکن اپنے گرد و پیش سے بے خبر اپنے دامن کی رونق بڑھانے کے جنون میں مبتلا بیشتر مسلم حکمران اگر کھلی آنکھوں سے دیکھیں تو افغانستان، عراق، شام، یمن، لیبیا، مالی، صومالیہ اور سوڈان کی صورت میں انہیں انجام بھی صاف نظر آ جائے گا۔ امریکی سی آئی اے کی وہ رپورٹ آج اپنی سچائی کی جانب بڑھتی جا رہی ہے جس میں 2025ء تک آدھی دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے کے اشارے دیئے گئے تھے مگر نجانے یہ بات ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی۔
مشرق وسطیٰ کے بعد جنوبی ایشیاء میں وقوع پذیر ہونے والے پے در پے واقعات خالی از علت نہیں ہیںبلکہ اگر سوچ بچار کیا جائے تو یہ واقعات انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے جا رہے ہیں ۔ ان کو لیبیا، شام ، یمن، عراق، سوڈان، مصر اور تیونس میں رچائے گئے وحشت اور بر بریت پر مبنی ڈرامے کے تنا ظر میں دیکھنا ہو گا۔ اوباما کے بعد ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ اب اپنے ''نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے دوسرے مرحلے کی جانب تیزی سے قدم بڑھا رہا ہے۔ کیا ہمیں محسوس نہیں ہو رہا کہ کرۂ ارض پر قدرتی دولت کے انبار رکھنے والے ایک ارب سے زائد مسلمان ''امریکہ کے باجگزار‘‘ بن چکے ہیں۔ جیسے ہی ان کی جانب سے تیل کی ادائیگی میںکچھ دیر ہونے لگتی ہے یا یہ امریکہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق مقدار بڑھانے میں پس و پیش کرنے لگتے ہیں تو امریکہ اپنے خوفناک جبڑے کھولے وحشت ناک ہو کر ان پرغرانا شروع کر دیتا ہے۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ شام، عراق، لیبیا، یمن اور صومالیہ کی جانب دیکھتے ہوئے ان حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگتا ہے اور وہ کبوتر کی طرح بلی کو اپنی جانب جھپٹتا دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے۔اس میں تو کوئی شک رہا ہی نہیں کہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیم امریکہ کی نان سٹیٹ ایکٹر کی صورت میں ایک ایک کرتے ہوئے مسلم ممالک کا تیا پانچہ کر تی جا رہی ہے۔ داعش کے ذریعے امریکہ نے تمام مسلم ممالک کو اپنے پنجوں میں اس طرح دبوچ رکھا ہے کہ ان کا اپنا کچھ بھی نہیں رہا۔ مشرق وسطیٰ کو اپاہج کرانے کے بعد اب امریکی شیطانیت کی تخلیق داعش نے اپنے قدم افغانستان، پاکستان اور ایران میں مضبوط کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ ایک جانب امریکہ کے کہنے پر چار عرب ممالک قطر سے ہر قسم کے تعلقات کو تہہ تیغ کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور ابھی اس اعلان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوتی کہ وہی امریکہ دہشت گرد قرار دی جانے والی اسی قطری حکومت کو بارہ ارب ڈالر کا فوجی اسلحہ مہیا کرنے کا باقاعدہ معاہدہ کر لیتا ہے۔ بارہ ارب ڈالر کے اس فوجی معاہدے کی خبر جیسے ہی سامنے آئی، پورا مغرب مسلم حکمرانوںکی بے بسی اور بے حسی پر دل کھول کر قہقہے لگانا شروع ہو گیا۔ مسلم قوم نظریں جھکائے اپنی ہزیمت پر آنسو تو بہا رہی ہے لیکن ان کے ضمیروں کی پشیمانی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ اپنے کئے پر پریشان ہونے کی بجائے اگر یہ پشیمان ہو نے لگیں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کچھ نہیں بگڑے گا۔ صرف عیش و عشرت اور آرام طلبی کو چھوڑکر اپنے پورے قد پر کھڑے ہو کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ لیکن اس کیلئے ایمان، ہمت اور جرأت کی ضرورت ہے ۔
داعش کی جانب سے پاک افغان سرحدوں سے متصل‘ تورا بورا کے پہاڑی علاقوں میں فوجی سٹرٹیجک اہمیت کی پیچ در پیچ غاروں پر قبضے کی کوشش اور پھر امریکہ کی جانب سے قطر کو فوجی اسلحہ کی فراہمی کا اچانک اعلان‘ مشترکہ علامیہ کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے کر دینا بہت معنی خیز ہے۔ حالانکہ اس سے دو روز قبل اسی امریکہ نے قطر کی حکومت پر دہشت گردوں کو پناہ اور مالی مدد دینے کے الزامات عائد کئے تھے۔ ایک جانب امریکہ چار عرب ممالک سے کہتا ہے کہ قطر دہشت گردی کرواتا ہے، اس سے تعلقات ختم کرو تو دوسری جانب اسی قطر سے امریکی جہازوں کی سپلائی کے نام پر بارہ ارب ڈالر کی خطیر رقم ہتھیا لیتا ہے۔ ان قطری پائلٹوں اور ٹیکنیشنز کو تربیت دینے کیلئے امریکی ایئر فورس کے لوگ قطر آئیں گے اور ان کی تنخواہوں اور مراعات کے نام پر بھی لاکھوں ڈالر الگ سے وصول کئے جائیں گے۔یہ ''ڈیوائیڈ اینڈ رُول‘‘ کا نیا عالمی کھیل جو مسلم ممالک کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے مگر مجموعی طور پر مسلم دنیا غفلت کا شکار نظر آتی ہے۔