"MABC" (space) message & send to 7575

امریکہ کا فشار خون اور پاکستان

دن بدن ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے بھارت کے ساتھ والہانہ عشق پرمتعجب ہونے کی بجائے نومبر2010 میں امریکی صدر اوباما کے دورئہ بھارت کے دوران کہے گئے یہ الفاظ سامنے رکھئے:India should not only Look East but also engage East نشتر کی طرح بدن میں چبھتے ہوئے یہ الفاظ امریکی صدر اوباما نے پاکستان کی دہلیز سے کچھ دور کھڑے ہو کر کہے۔جبکہ امریکہ کے سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر نے کہا تھا ''امریکہ سے دشمنی لینا خطرناک ہو سکتا ہے لیکن امریکہ سے دوستی اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے‘‘۔ جس کا ویسے تو پاکستان کو امریکہ سے اپنی دوستی کے چند سال بعد ہی تجربہ ہونے لگا تھا لیکن حال ہی میںامریکی کینیڈین جوڑے کی اس کے تین بچوں سمیت محفوظ رہائی کی صورت میں دنیا بھر کے سامنے ہے جنہیں خطرناک اور مشکل ترین آپریشن کرتے ہوئے افغان طالبان سے رہا کراتے ہوئے پاکستانی فوج کا ایک جوان شہید اور تین زخمی ہو گئے جبکہ تین اغوا کارہلاک اور دو گرفتار کر لئے گئے ۔ امریکی حکام سمیت دنیا کی باخبر خفیہ ایجنسیاں اچھی طرح جانتی ہیں کہ طالبان نے ان کے بدلے پندرہ لاکھ امریکی ڈالر اور دس طالبان قیدیوں کی رہائی کی شرائط رکھی ہوئی تھیں جنہیں پاکستان نے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اوریہ جانتے ہوئے بھی ان افغان اغوا کاروں کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا کہ اس میں بھاری جانی نقصان ہونے کے امکانات واضح تھے۔ اس آپریشن کے دوران اور بعد میں ان طالبان کے ساتھیوں کی جانب سے کئے گئے بارودی سرنگوں کے یکے بعد دیگرے تین ھماکوں میں کیپٹن حسنین نواز اور اس کے جوانوں کی ہونے والی شہا دتیں پاکستان کے اس عزم و یقین کی گواہی دیتی ہیں کہ وار آن ٹیرر کے خلاف سب سے مضبوط کمٹمنٹ پاکستان کے علا وہ اور کسی کی بھی نہیں۔ 
چار سال سے زائد عرصہ تک امریکی کینیڈین جوڑا اپنے بچوں سمیت افغانستان میں اغوا کاروں کی قید میں رہتا ہے جہاں امریکہ، نیٹو، ایساف، افغانستان ، بھارت کی فوجیں اور ان کی خفیہ ایجنسیاں اپنی حساس ترین سیٹیلائٹ سہولتوں سے لیس جگہ جگہ مکھیوں کی طرح بھنبھناتی رہتی ہیں اور کسی کو ان کی کانوں کان خبر تک نہیں ہوپاتی لیکن جیسے ہی وہ افغانستان سے پاکستانی حدود کے اندر داخل ہوتے ہیں تو ساتھ ہی امریکہ کو ان کے بارے میں خبر ہو جاتی ہے ۔۔۔۔کہیں یہ سب پاکستان کیلئے تیار کردہ سی آئی اے کا نیا جال تو نہیں؟ اس خدشے کو اس پیرائے میں دیکھئے کہ اشرف غنی، بھارت، امریکہ کے صدور اور ان کا میڈیا یہ کہتے ہوئے بے چین ہوئے جا رہے تھے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کی مدد کر رہا ہے ان کی پاکستان کے اندرمحفوظ پناہ گاہیں ہیں جنہیں آئی ایس آئی سپورٹ کر رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ افغانستان سے پاکستان کے اندر لاکر ان کو کچھ عرصہ رکھنے کے بعد ان کے خلاف ایبٹ آباد طرز کا آپریشن کرتے ہوئے دنیا بھر کو بتا دیا جاتا کہ دیکھو اب تو واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان ہی حقانی نیٹ ورک کے دہشت گردوں کو اپنی حدود میں پناہ دیتا ہے اور کہا جاتا ثابت ہو گیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے یہاں محفوظ ٹھکانے ہیں! 
پاکستان جیسا ملک جو دہشت گردی کے خلاف مسلسل جنگ کے نتیجے میں اپنی معیشت کی زبوں حالی میں گھرا ہو‘ اسے اپنی مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے مزید 56 ارب روپے کا بوجھ صرف اس لئے برداشت کرنا پڑ رہا ہے تاکہ اس کی سرحد محفوظ ہو جائے تو کیا امریکہ کا یہ فرض نہیں کہ وہ بھی ''اپنی افغان سرحدوں‘‘ کے ساتھ ساتھ باڑ لگائے تاکہ کسی جانب سے بھی ایک دوسرے کی حدود میں کوئی غیر قانونی طریقے سے داخل نہ ہو سکے؟ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا صرف پاکستان ہی حصہ نہیں ہے بلکہ اقوام عالم اس میں برا بر کی شریک ہے تو کیا ان سب پر واجب نہیں کہ وہ پاکستان کی بھر پور اخلاقی اور مالی مدد کریں؟ وہ امریکہ پر دبائو کیوں نہیں بڑھاتیں کہ افغانستان کی سرحدوں کو بھی آہنی باڑوں سے SEAL کر دیا جائے؟۔ داعش کی صورت میں ابھرنے والے دنیا کیلئے سب سے بڑے خطرے کو اگر ابھی سے نہ رو کا گیا تو پھر یورپ سمیت امریکہ کی کوئی ریا ست اور اس کے حلیف اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے کیونکہ دیکھتے ہی دیکھتے داعش ایک فیشن اور عالمی مجرموں کی پناہ گاہ میں تبدیل ہو تا جا رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ دہشت گردی کے خلاف کھڑی آخری دیوار پاکستان کو گرانے کی کوشش میں القاعدہ کے بعد طالبان کو ختم کرتے کرتے داعش کے چنگل میں دنیا بھرکی قوموں کو پھنسا دیا جائے؟ اقوام متحدہ یا با شعور اقوام عالم اگر دنیا سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ چاہتی ہیں تو وہ صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہیں کہ پاکستان کی جانب اسی طرح کا تعاون اور مدد کا ہاتھ بڑھائیں جس طرح سے افغانستان میں روسی تسلط کو ختم کرنے کیلئے بڑھایا تھا۔ امریکی فیصلہ ساز اور ان کی رہنمائی کرنے والے تمام تھنک ٹینکس کو چاہئے کہ '' بھارت کو ایشیا کے گاڈ فادر کی طرز پر تخلیق کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ پاکستان کو اس کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر‘ نظر انداز کرنے یا نقصان پہنچانے کا سوچتے وقت مت بھولیں کہ امریکہ کے گاہے گاہے بڑھنے والے فشار خون کاآخری علاج کسی اور کے نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان کے پاس موجود رہتا ہے اور جس سے امریکی متعدد بار فیض یاب ہو چکے ہیں ۔ پاکستان کے بارے میں امریکہ کی گرگ آشنائی اور دوغلا پن کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس کے با وجود کہ ہر مصیبت اور نازک صورت حال میں امریکہ نے پاکستان کو عین وقت پر دھوکہ دیا لیکن امریکہ سے چوٹ کھانے کے با وجود پاکستان کی ہر حکومت نے اس کا ساتھ نبھایا۔ دنیا کی واحد سپر پاور اور ایشیائی ریاستوں کی روس سے علیحدگی کے نتیجے میں امریکہ کی راہ کا سب سے بڑا پتھر ہٹانے کا مرکزی کردار پاکستان نے ہی ادا کیا۔۔۔۔لیکن امریکہ دوستی اور وفا داری کے فرق کو نہ سمجھ سکا اور اس نے پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ریا ست کی بجائے ''ٹشو پیپر‘‘ سمجھنا شروع کر دیا۔
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے اسلام آباد روانگی سے پہلے کابل میں پاکستان کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ ایک آزاد ریا ست پر براہ راست حملے کے برابر ہے۔۔۔۔ٹیلرسن کو افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کے یکے بعد دیگرے واقعات تو یاد آ گئے لیکن انہی دس دنوں میں بلوچستان میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہونے والی دہشت گردی نہ جانے کیوں یاد نہیں آ سکی؟۔جو کچھ کابل میں ریکس ٹیلرسن نے کہا وہی زبان ایک روزہ دورہ پر افغانستان پہنچنے والا نریندر مودی اس وقت اشرف غنی کے ہمراہ بیٹھا بول رہا تھا کہ '' سرحد پار دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کرنا لازمی ہے‘‘ یہی بات تو پاکستان نہ جانے کب سے کہے جا رہا ہے کہ سرحد پار دہشت گردوں اور ان کے گاڈفادرز کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا لازمی ہے لیکن افغانستان میں بیٹھی ہوئی امریکی اور نیٹو افواج اس پر دھیان ہی نہیں دے رہیں۔شائد ان میں سے کوئی بھی افغانستان میں امن لانے کیلئے مخلص نہیں۔تحریک طالبان پاکستان جو ایک اطلاع کے مطا بق داعش کی جانب قدم بڑھا رہی ہے اس کےBREAD AND BUTTER کے اخراجات برداشت کرنے والوں کی جانب کوئی دھیان ہی نہیں دیتا ۔۔۔ اب تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ بھارت شائد امریکہ کی52 ویں ریاست کا درجہ اختیار کر چکا ہے اور امریکی سینیٹر اور اراکین کانگریس جتھوں کی صورت میں اس طرح بھارتی مفادات کا خیال رکھنے لگے ہیں جیسے کبھی اسرائیل کا رکھا کرتے تھے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں