"MABC" (space) message & send to 7575

’’میرے رہبر‘‘

نرسیما رائو اور اٹل بہاری واجپائی نے بحیثیت وزیراعظم بھارت‘ اپنے گھٹنوں کا علاج بھارتی ڈاکٹروں سے کرایا۔ پھر بحیثیت وزیراعظم من موہن سنگھ نے اپنی سرجری بھارت سے ہی کرائی۔ حالانکہ اگر وہ چاہتے تو ورلڈ بینک کے سابقہ عہدیدار ہونے کے ناتے دنیا کے بہترین ڈاکٹروں اور ہسپتالوں سے اپنا علاج مفت کروا سکتے تھے۔
بھارت جو آبادی اور وسائل کے اعتبار سے پاکستان سے کئی گنا بڑا ملک ہے‘ اس کے وزرائے اعظم اپنا علاج اپنے ہی ملک میں کرانے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن دوسری طرف ہمارے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کا خاندان اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف معمولی سے علاج کے لئے بھی ہر ماہ برطانیہ جاتے ہیں۔ کیا ان کے پاس دولت زیادہ ہے یا یہ سب اخراجات یہ غریب اور بھوک کے مارے عوام سے نکلوائے جاتے ہیں۔ بھارت کا ہر وزیراعظم اگر اپنا ہر قسم کا علاج اپنے ہی ملک میں کرا سکتا ہے تو اس کی دو وجوہ ہو سکتی ہیں‘ یا تو ان کے پاس منی لانڈرنگ کے ذریعے اکٹھا کیا گیا کالا دھن نہیں ہے یا پھر انہوں نے اپنے ملک میں صحت کے بہترین انتظامات کئے ہوئے ہیں اور ایسے ہسپتال قائم کئے ہیں جہاں بہترین علاج کی سہولتیں میسر ہیں۔
ایک مصدقہ رپورٹ کے مطا بق اس وقت پاکستان سے لانڈرنگ کی صورت میں کالا دھن لوٹ کر لے جانے والوںکی دس ارب ڈالر سے بھی زائد رقم دبئی میں موجود ہے جبکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بیس ارب ڈالر سے زائد رقم جمع کی گئی ہے۔ منی لانٖڈرنگ اور کالے دھن سے حاصل کی گئی دولت کہیں پوشیدہ تو کہیں عیاں ہے۔ منی لانڈرنگ کا وہ عفریت جو پا ناما لیکس کی صورت میں دنیا بھر کے سامنے بے نقاب ہوا ہے‘ اس نے دنیا کے نہ جانے کتنے حکمرانوں کو بے نقاب کر تے ہوئے ان کے ماتھے پر منی لانڈرنگ کی انمٹ مہریں ثبت کر دی ہیں۔
منی لانڈرنگ آج صرف پاکستان میں ہی نہیں‘ بلکہ دنیا بھر میں ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اور یہ منی لانڈرنگ حکومتی اور ریاستی فنڈز میں خورد برد کے علا وہ منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ سے حاصل کردہ دولت کی صورت میں بھی ہو رہی ہے۔ منی لانڈرنگ کے الزمات کا شور ہمارے ملک کی سیاسی فضا میں پندرہ‘ بیس سال پہلے بڑی شدت سے گونجتا رہا۔ پھر میثاق جمہوریت کے شور کی وجہ سے اس کی آواز دب گئی۔ مگر پاناما لیکس کے منظرِ عام پر آنے کے بعد عمران خان وہ واحد شخص تھے، جن کی وجہ سے یہ آواز دوبارہ ہرگھر میں سنائی دی۔ جب تک پاکستان کی سیاست ملک بھر میں پھیلے ہوئے ''بنیادی جمہوریت‘‘ کے ایک لاکھ یا اس سے زائد لوگوں تک محدود تھی‘ منی لانڈرنگ کے نام سے کوئی بھی واقف نہیں تھا لیکن جب سے بنیادی جمہوریت کی جگہ ''عوامی جمہوریت‘‘ ہماری جھولی میں پڑی ہے‘ تب سے ہر طرف کرپشن‘ لوٹ مار اور منی لانڈرنگ کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ اور ان کارناموں کا سہرا ملک کی بیوروکریسی اور ڈکٹیٹر راج کے علاوہ اس ملک کے دو سب سے مشہور سیاسی خاندانوں‘ اور ان کے قریبی ساتھیوں کے ماتھوں پر جھومر بن کر چمک رہا ہے۔ سچی بات ہے کہ اگر پاناما لیکس کے بعد عمران خان‘ ان دونوں جماعتوں اور ان کے اتحادیوں کا کچا چٹھا سامنے لے کر نہ آتے تو ہمیں علم بھی نہ ہو پاتا کہ ہمیں لوٹنے والے کون ہیں؟ ہمیں کیسے پتا چلتا کہ مہنگائی اور غربت کے گہرے اور بدبو دار پانی میں ہمیں غوطے دینا والا کوئی اور نہیں بلکہ یہی دو حکمران سیاسی خاندان ہیں۔ انہی دو شاہی خاندانوں کی ملک کی شاہراہوں سے گزرتی شاہی سواریوں کو دیکھنے کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم ان کی رعایا ہیں اور وہ ہمارے بادشاہ۔ اگر پاناما لیکس پر عمران خان شور نہ مچاتے تو کیسے پتا چلتا کہ نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے لندن، امریکہ، سپین، آئس لینڈ، فرانس، نیوزی لینڈ، مالٹا اورسوئٹزر لینڈ سمیت دوسرے ممالک میں بینک اکائونٹس ہیں جن میں اربوں ڈالر موجود ہیں۔بیش قیمت جائیدادیں ان کے علاوہ ہیں۔ 
لوگ سوچتے ہوں گے کہ یہ منی لانڈرنگ آخر کیا بلا ہے اور یہ جو لندن، سپین، دبئی، سوئٹزر لینڈ میںکروڑوں‘ اربوں ڈالر کی موجودگی کی بات کی جاتی ہے‘ اس کا طریقۂ کار کیا ہوتا ہے۔ اگر ہم نوّے کی دہائی سے شروع کریں تو گلف آئل نے کوریا اور بولیویا کے سیاست دانوں کو کمیشن اور رشوت پہنچانے کے لئے بہاماس کے ذریعے چار ملین ڈالر منتقل کئے۔ لاک ہیڈ کارپوریشن نے اٹلی کے سیاست دانوں کو نقد اور بئیرر ڈرافٹس کی صورت میں ایک ٹرسٹ کو واسطہ بنا کر 25 ملین ڈالر کا کمیشن دیا۔ لاک ہیڈ نے جاپانی سیاست دانوں کو رشوت دینے کے لئے امریکہ کے ایک مشہور فارن کرنسی ڈیلر ''ڈیک پریڈ‘‘ کو استعمال کیا۔ جس نے لاک ہیڈ کے کہنے پر 8.3 ملین ڈالرکے کالے دھن کو ایک بڑے سودے کی ڈیل کے ذریعے سفید کرنے کا چکر چلایا۔ تاکہ کمپنی اکائونٹس میں اس سفید دھن کا ہی اندراج کیا جا سکے اور کسی قسم کا خطرہ باقی نہ رہے۔ دوسری طرف یہ رقم پندرہ ایسی ادائیگیوں کی صورت میں مطلوبہ افراد کو پہنچائی گئی جن کا کھوج لگانا انتہائی مشکل تھا۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ رقم ہانگ کانگ کے ایک سپینی پادری کے فلائٹ بیگ اور سنگتروںکے کریٹوںکے ذریعے ٹوکیو میں لاک ہیڈ کے اہل کاروں کے حوالے کی گئی۔ یہ صرف اپنے من پسند سیاست دانوں، حکمرانوں اور بڑے بڑے اداروں کو خریدنے اورمحفوظ طریقے سے کمیشن پہنچانے کی چند ایک مثالیں ہیں۔ ٹیکسوں کی چوری اور ہیرا پھیری کے ذریعے حاصل کردہ کالے دھن کو سفید کرنے کا عمل صرف انفردای حیثیت میں ہی نہیں بلکہ بڑی بڑی کارپوریشنز، کمپنیاں اور بڑے بڑے کاروباری ادارے بھی ٹیکس سے بچنے، اپنے حصص یافتگان کو دھوکا دینے، کرنسی کنٹرول کے قواعد و ضوابط سے بچنے اور ان سے پہلو تہی کرنے کے لئے متعلقہ اہلکاروں کو بھاری رشوتیں اور کمیشن دینے کے لئے ان کے مقرر کردہ ایجنٹوں یا اپنے ملک اور ملک سے باہر‘ ان کے کھاتوںتک پہنچانے کے لئے یہی کالا دھن استعمال کرتے ہیں۔
منی لانڈرنگ کو تیسرے فریق کے کاروبار میں لگا کر با ضابطہ بنانے کا کام حکومتیں کیا کرتی ہیں۔ خواہ ان کا مقصد دہشت گردوں کا خاتمہ ہو یا حریت پسندوں کے نام پر نئے دہشت گرد تیار کرنا۔ جس طرح آج امریکہ اور بھارت کی طرف سے تحریک طالبان کو تیار کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے ملک کے ذریعے نکارا گوا کے باغیوں کے ساتھ سودے بازی کی اور انہیں امریکی اسلحہ کی خفیہ فروخت کی گئی، جس کی بعد میں امریکی صدر ریگن نے با قاعدہ تصدیق بھی کر دی تھی۔ اس سودے بازی کے بعض پہلوئوں پر کافی دیر پردہ پڑا رہا لیکن زیادہ دیر تک یہ راز چھپا ہوا نہ رہ سکا کہ در پردہ اس میں امریکہ نے ایک عرب ملک کی مدد سے ادائیگیوںکے عوض خلیج فارس کے ایک ملک کو اسلحہ دیا تھا اور رقم نکارا گوا کی مارکسسٹ حکومت کے خلاف لڑنے والے 'کونٹرا با غیوں‘ کو دی گئی تھی۔ یہ سب کچھ امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم کیسی کی نگرانی میں ہوتا رہا۔ جب امریکیوں کے مذکورہ ملک سے تعلقات خراب ہوئے تو اس وقت ایک عرب بزنس مین عدنان خشوگی کا نام سامنے آیا۔ یہ شخص گو کہ بہت بڑا صنعت کار یا سرمایہ دار نہیں تھا لیکن چونکہ ایک عرب ملک کے سربراہ کا پروردہ تھا‘ اس لئے سی آئی اے کو اس پر بھروسہ کرنے کا کہا گیا۔ اور پھر اسے دنیا بھر میں ایک مالدار شخص کی حیثیت سے متعارف کرانے کے لئے سی آئی اے نے ایک بھرپور مہم چلائی۔ پھر پاکستان سمیت سب نے دیکھا اور سنا کہ ہر طرف عدنان خشوگی کے نام کا ڈنکا بجنا شروع ہو گیا۔ یہ افواہ سازی سی آئی اے کی اپنی ضرورت تھی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات حیران کن لگے مگر حقیقت یہی ہے کہ امریکہ نے ایران کو جو 500 TOW ٹینک شکن میزائل فروخت کئے تھے‘ ان کی گارنٹی بھی عدنان خشوگی نے ہی دی تھی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں