"MABC" (space) message & send to 7575

’’شہرخموشاں میں اذان ‘‘

اکتوبر2013 میں نواز حکومت نے آتے ہی آئی پی پیز( IPPs) کو بغیر کسی آڈٹ کے 480 ارب روپے کے گردشی قرضوں کے نام پر جو فوری ادائیگیاں کی تھیں، ابھی ان کا حساب کتاب نہیں ہوا تھا کہ ان کمپنیوں کے 800 ارب روپے کے مزید گردشی قرضے ہم سب پر واجب الادا ہو چکے ہیں...یا تو ہم میں سے کسی کو آٹھ سو ارب روپے کے اعداد و شمار کا اندازہ نہیں یا ہم سب ان افیون کھانے والے چینیوں کی طرح اونگھنا شروع ہو گئے ہیں جنہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ نشے میں ڈوبی ہوئی قوموں کا کیا انجام ہوتا ہے؟... اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے ''شہر خموشاں‘‘ کو دیکھ کر شک ہونے لگتا ہے کہ یا تو یہ کوئی مردہ قوم ہے یا یہ انہی لوگوں کے ساتھیوں میں سے ہیں جو بچے کھچے پاکستان کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں ؟۔ کسی کو خیال ہی نہیں آ رہا کہ جس گھر کی ہر چیز گروی رکھ کر بین الاقوامی ساہو کاروں سے قرضے پر قرضہ لیا جا رہا ہے‘ وہ ان بے تحاشا قرضوں سے کن مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے؟ 
اس خبر نے تو ہوش اڑا کر کھ دیئے کہ قومی اسمبلی سے آئین میں ترمیم کی منظوری کیلئے اور ان اراکین قومی اسمبلی کو اپنے دربار سے وابستہ رکھنے کیلئے ہر ایک کو ایک ارب کے حساب سے94 ارب دیئے جا رہے ہیں؟ سٹیل مل کی نج کاری کا آغاز ہوا تو عدلیہ کی آزادی نے اسے ختم کر دیا لیکن آج سب کی آنکھوں کے سامنے اپنے تاج و تخت کو برقرار رکھنے کیلئے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر ہر حلقے کے ''راجا‘‘کو ایک ایک ارب روپیہ دان کیا جا رہا ہے کہ جائو عیش کرو کوئی تمہیں پوچھنے والا نہیں‘ بس شرط یہ ہے کہ دربارِ شاہی میں جب بھی چلو سر جھکا کے چلو؟... حیران کن بات یہ ہے کہ شاہی خاندان کو کوئی پوچھنے والا نہیں‘ کوئی روکنے والا نہیں؟... 94 ارب روپے کوئی معمولی رقم نہیں ہوتی جو پنجاب کے نواز لیگی اراکین قومی اسمبلی کے حوالے کی جا رہی ہے اور یہ رقم اس سے علیحدہ ہے جو لاہور کے فی رکن اسمبلی کو60 کروڑ روپے کی شکل میں پہلے ہی دی جا چکی ہے...سوچئے جناب 800 ارب کے گردشی قرضے اور94 ارب کی یہ رشوت...لگتا نہیں کہ یہ کوئی بنانا ری پبلک ہے؟۔ سب دیکھ تو رہے ہوں گے کہ دریا بپھرا ہوا ہے اور ساحل کے قریب کھڑی کشتی کی حالت بھی پہلے جیسی نہیں‘ کئی جگہوں سے اس کے تختے یا تو اکھڑ چکے یا بالکل شکستہ ہو چکے ہیں۔ کشتی میں گنجائش پوری ہونے کے با وجود ملاح اور اس کے ساتھی اس پر اور زیا دہ بوجھ لادے جا رہے ہیں...اس کشتی میں سوار مسافروں کا فرض نہیں کہ وہ اپنی جان و مال کی حفاظت کیلئے اس پر مزید بوجھ لادنے کی بجائے پہلے سے لدے ہوئے بوجھ کو ہلکا کریں ؟۔ ملاح سے کہیں کہ سب سے پہلے اس کشتی کی اچھی طرح سے مرمت کرے؟۔ کیونکہ اگر یہ کشتی ڈوب گئی تو اس سمیت سب غرق ہو سکتے ہیں؟۔ 
میرے لئے یقین کرنا ممکن نہیں کہ پاکستان کی پڑھی لکھی کم از کم پچاس فیصد آبادی کو یہ علم نہ ہو کہ800 ارب کے گردشی قرضے اور94 ارب کے ان فنڈز کے علا وہ صرف گزشتہ چھ ماہ کے عرصہ میں بین الاقوامی عدالتوں سے پاکستان کے خلاف دائرکئے گئے مقدمات‘ جنہیں لگتا ہے کہ مال بنانے کیلئے جان بوجھ کر ہارا گیا...حکومت پاکستان کو مجموعی طور پر ایک کھرب ڈالر بطور جرمانہ ادا کرنا پڑے گا؟۔ اگر نہیں پتہ تو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرا دینا چاہئے کہ یہ ہے وہ غافل قرضوں تلے دبی اور کچلی ہوئی قوم جس کی پیٹھ پر100 ملین ڈالر کا قرضہ جرمانے کی صورت میں لاد دیا گیا ہے اور اسے خبر ہی نہیں...وہ گراں خواب چینیوں کو بھی مات دے گئی ہے!۔ پچاس فیصد با خبر اور پچاس فیصد بے خبر قوم کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہـ بلوچستان میںریکوڈک کے سونے اور کاپر کے ذخائر پر آسٹریلوی کمپنی سے کئے گئے معاہدوں میں عجیب قسم کی مشکوک شقوں کی آڑ میں کی گئی بد عنوانیوں پر آسٹریلوی کمپنی TCC کی جانب سے ورلڈ بینک کے آربٹریشن ٹربیونل نے مارچ 2017 میںپاکستان کے خلافTCC کے دائر کئے گئے دعوعے میں پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی تمام دستاویزات کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے کہ وہ 2018 تک یہ تمام ادائیگیاںTCC کو کرنے کا پابند ہو گا اور یہ جرمانہ کوئی معمولی نہیں بلکہ ہم سب پاکستانیوں پر11.56 ملین ڈالر کی شکل بطور جرمانہ عائد کیا جا چکا ہے ۔ استنبول کی ترک کمپنی KARKAEY Karadeniz Elektrik کے ساتھ مشہور زمانہ رینٹل پاور معاہدہ کیا گیا لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ سب کچھ ٹھپ کر دیا گیا جس پر ترکش کمپنی نے انٹر نیشنل سینٹر برائے سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ سے رجوع کر لیا جہاںپاکستان کو 700 ملین ڈالر(168 ارب روپے) جرمانہ عائد کیا جا چکا ہے اورصرف پانچ دن ہوئے لندن کورٹ آف آربٹریشن نے پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی9آئی پی پیز (IPPs)کمپنیوں کی جانب سے دائر کئے گئے دعوے کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اسے فوری طور پر14 ارب روپے بطور جرمانہ ادا کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے...اور یہ ان800 ارب روپے کے گردشی قرضوں کے علا وہ ہیں۔
بلوچستان ریکوڈک کے11.56 ملین ڈالرز ،رینٹل پاور کے700 ملین ڈالرز اور آئی پی پیز کے 14 ارب روپے جرمانے کی صورت میں جو ادائیگیاں پاکستان کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس سب کاذمہ دار کون ہے؟۔ کیا یہ سب ادائیگیاں اس لوٹی ہوئی دولت سے کی جائیں گی جو دوبئی‘ لندن‘ امریکہ‘ نیوزی لینڈ‘ سپین‘ فرانس‘ کینیا ‘مالٹا اور سوئٹزر لینڈ میں ہے یا اس غریب قوم کو پٹرول، ڈیزل اور ٹیکسوں کی مار دیتے ہوئے اس رقم کا بندوبست کیا جائے گا؟ ایک جانب ہمیں ترقی کی جانب لے جاتی ہوئی نواز شریف حکومت نے اپنے صرف چار سالہ اقتدار میں قوم کو مزید 73 ملین ڈالرز کا مقروض بنا دیا ہے تو دوسری جانب ان تین اداروں کے دائر کئے گئے مقدمات کے فیصلوں کی صورت میں84 ملین ڈالر ززرمبا دلہ کی شکل میں اور چودہ ارب روپے پاکستانی کرنسی میں ادا کرنے کا حکم مل چکا ہے...اور800 ارب روپے کے گردشی قرضے علیحدہ ہم سب کو خونخوار نظروں سے گھور رہے ہیں۔
پاکستان پر عائد کئے گئے ان تین جرمانوں کو جمع کیا جائے تویہ کل 100 ملین ڈالر کے قریب بنتے ہیں اور ان کی ادائیگی کسی اور نے نہیں بلکہ سود سمیت ہم سب نے مل کر کرنی ہے اس کیلئے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ غریب اورمتوسط لوگوں کے وسائل سے پورے کئے جائیں گے...اگرانہی 100 ملین ڈالر کو عوام کی فلاح پر خرچ کیا جائے تو پنجاب اور بلوچستان میں دو نئی انجینئرنگ یونیوسٹیاں، لاہور ، بہاولپور، اوکاڑہ اور مظفر گڑھ ، لاڑکانہ، نواب شاہ، کراچی، حیدر آباد، سکھر ، پشاور، ایبٹ آباد، گلگت، آزاد کشمیر اور کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دوسرے شہروں میں دل کی بیماریوں اور 500سے ایک ہزار تک بستروں کے نئے جدید ہسپتال بنائے جا سکتے ہیں...ہر گھر میں صاف پانی پہنچایا جا سکتا ہے...''شہر خموشاں‘‘ میں عجب خامشی ہے پھر بھی اذان دینا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں...!!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں