'' جھوٹ بولنی ایں جھوٹئے آکاش وانئے۔۔۔ کدی سچ وی تے بول اڈ پڈ جانئے‘‘ آج کی نسل یا وہ خواتین و حضرات جو جنگ ستمبر65ء کے وقت بچے تھے یا بعد میں پید اہوئے ہیں‘ ان کوآکاش وانی کا نام بہت ہی عجیب سا لگا ہو گا لیکن جن لوگوں نے اس کے زہریلے سُروں کو اپنے کانوں اور دماغ کے گوشوں پر سہا ہوا ہے وہ اس کی خصلت اور پاکستان دشمنی کو سب سے بہتر جانتے اور محسوس کر سکتے ہیں۔آج کل نہ جانے کیوں گئے وقتوں کا یہ مشہور ومعروف فقرہ یا شعر جو تلقین شاہ کی شکل میں مرحوم اشفاق احمد اور نظام دین کی شکل میں مرحوم سلطان کھوسٹ بھارتی جھوٹ اور پروپیگنڈے کا توڑ کرتے ہوئے اس طرح بولا کرتے تھے کہ یہ فقرہ زبان زد عام ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک یہ ہماری عمر کے لوگوں کے ذہنوں سے چپکا ہوا ہے۔ بھارت کے نشریاتی اداروں کے جھوٹوں کا جواب دینے کیلئے ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر ہونے والے اپنے پروگراموں میں آل انڈیا ریڈیو کی آکاش وانی کی درگت بناتے ہوئے اس کو مخاطب کرتے ہوئے یہ شعر بہت سے پروگراموں کے میزبان بھی بولا کرتے تھے۔۔۔۔اور آج ایک بار پھر اپنوں اور بیگانوں کے ہاتھوں پاکستانی فوج کو تختہ مشق بنتے دیکھ کر آکاش وانی کا لفظ پھر سے یاد آنے لگاہے۔
آج جب ہم ٹی وی سکرینوں اور اخبارات کی شہ سرخیوں میں ستمبر65ء کی طرح اداروں کے خلاف آکا ش وانی سے ملتے جلتے بیانات اور اشارے دیکھتے ہیں تو چشم تصور مجھے فوراََ52 سال پیچھے لے جاتی ہے کہ اس وقت تو جنگ کے دوران آل ریڈیو جسے بھارتی انائونسر ''آ کاش وانی‘‘ کا نام دیتے ہوئے پاکستانی فوج کے خلاف جھوٹی کہانیاں پھیلایا کرتا تھا تو آج وہ لوگ کون ہو سکتے ہیں ؟ان کا آل انڈیا ریڈیو یا آکاش وانی سے کیا تعلق ہو سکتا ہے کہ اس کی طرح ہر وقت حیلے بہانوں سے اشاروں کنایوں میں وہی قلمی اور زبانی حملے کئے جارہے ہیں۔ آج کی آکاش وانی نریندر مودی اور بپن راوت کی ہم زبان ہو کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف پاکستان کی فوج کے خلاف کن مقاصد کیلئے نفرت پھیلا رہی ہے؟ وہ نریندر مودی کی ہم زبان ہو کر فاصلے کیوں پیدا کر رہی ہے؟۔
سوشل میڈیا پر بیٹھے ہوئے آکاش وانی کے ہم زبان اور ہم خیال لوگوں کا سلسلہ نسب کیا ہے جن کے ہاتھوں اور زبان سے سپہ سالار کی تحقیر کی جا رہی ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ آکاش وانی ہر وقت پاکستان کی فوج کے خلاف زہر اگلے جاتی ہے؟۔ہماری نئی نسل اور اس وقت پچاس کے پیٹے کے لوگ جاننا چاہیں گے کہ انہیں پاکستان کی بد ترین دشمن آکاش وانی کے پس منظر سے آگاہ کیا جائے؟۔ ''جھوٹ بولنی ایں جھوٹئے آکاش وانئے‘‘ جنگ ستمبر کے دوران ریڈیو پاکستان سے دن میں کئی بار نشر ہونے والے اس مصرعے کے پس منظر کے بارے صرف وہی لوگ جان سکتے ہیں جو جنگ ستمبر1965 ء کے وقت کچھ شعور رکھتے تھے یا ان کا تعلق ریڈیو پاکستان اور صحافت کی دنیا سے رہا ہو۔جیسے ہی جنگ ستمبر شروع ہوئی تو بھارت کے ریڈیو اسٹیشن تو ایک طرف اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اور انتہائی معتمد سمجھی جانے والی اردو سروس نے لاہور پر بھارتی فوج کے قبضے کی فلمیں دکھاتے ہوئے دنیا بھر میں خبریں دینا شروع کر دیں کہ لاہور پر بھارتی فوج کا قبضہ ہو چکا ہے۔۔۔اس وقت دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں کی یہ خبر سنتے ہی جو حالت ہوئی اس کے بارے میں وہی جان سکتے ہیں‘ آج بھی اس اذیت سے گزرنے والا کوئی اوور سیز پاکستانی جب اس دن اور کیفیت کا ذکر کرتا ہے تو ایک لمحے کیلئے کانپ کر رہ جاتا ہے ۔
بات ہو رہی تھی بھارت کے نشریاتی اداروں کی جو چھ ستمبر کو پاک بھارت جنگ شروع ہوتے ہی ہر آدھے گھنٹے بعد خبریں نشر کیا کرتے تھے اور جب بھی یہ خبریں نشر کی جاتیں تو بھارت کا براڈ کاسٹر کہا کرتا تھا '' اب آپ آکاش وانی سے خبریں سنئے۔۔۔اور پھر وہ جھوٹ اور پراپیگنڈا کیا جاتا لگتا تھا کہ بھارت کی فوجیں شام تک آدھا پاکستان فتح کرنے کے بعد آگے کی جانب بڑھنا شروع ہو جائیں گی۔بھارت کی آکاش وانی نے یہ خبریں پھیلانا شروع کر دیں کہ کراچی شہر تو خالی ہو گیا ہے اور جو لوگ رہ گئے ہیں وہ بھارتی بحریہ کے جہازوں کے کراچی پہنچنے کے انتظار میں ہیں تاکہ ان کا استقبال کیا جا سکے؟۔ کبھی اسلحہ اور گولہ بارود ختم ہونے کی کہانی چلائی جاتی تو کبھی پوری کمپنی یا رجمنٹ کو بھارتی ہو ابازوں کے ہاتھوں اڑا دیئے جانے کی خبریں سنا نا شروع کر دیا۔ یہ بھارت کا ایسا زہریلا ہتھیار تھا جس نے چند دنوں تک پاکستانیوں سمیت فرنٹ پر لڑائی میں مصروف فوجیوں کے اعصاب کو بھی شل کر کے رکھ دیا۔
خود سوچئے کہ کوئی رجمنٹ یا کمپنی اگر لاہور کے محاذ پر مصروف جنگ ہے تو اسے جب سیالکوٹ یا قصور کے بارے میں یہ خبر سنائی دے کہ بھارتی فوج نے ادھر کا فلاں فلاں شہر اور قصبہ فتح کر لیا ہے اور پاکستان کے فوج کے فلاں فلاں بریگیڈ نے جس کی کمان فلاں بریگیڈیئر ، کرنل ا ور میجر کر رہے تھے انہوں نے بھارتی فوج کے فلاں افسر کے سامنے سفید جھنڈا لہراتے ہوئے ہتھیار ڈال دیئے ہیں تو فرنٹ پر مورچوں میں بیٹھے ہوئے جوانوں پر کیا گزرتی ہو گی؟۔ذہن میں رکھئے جنگ سے پہلے ا ور جنگ کے دوران دشمن کے جاسوسوں کا سب سے اہم کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ہر فرنٹ پر مصروف جنگ دشمن کی کمپنی، رجمنٹ یا بریگیڈ کے افسران کے نا موں سے مکمل با خبر ہوں، اس سے ایک تو ان کا افسران کے نا موں کے ساتھ ہتھیار ڈالنے والا یہ پراپیگنڈ مقصود ہوتا ہے تو دوسرا وہ ان افسران کے بارے میں معلومات لیتے ہیں کہ اس کا ٹمپرا منٹ کیا ہے؟جنگ میں یہ جلد باز ہے یا سوچ سمجھ کر حملہ کرتا ہے؟۔ اس کی اپنی یونٹ پر کمان کس قسم کی ہے؟ دلیر ہے یا بیوقوفی کی حد تک بہادر ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
آکاش وانی اور پاکستان کے دفاعی اداروں کا آج سے نہیں بلکہ شروع سے بیر رہا ہے۔ آکاش وانی کی ہر وقت کوشش رہی ہے کہ دنیا جہاں کا ہر الزام پاکستان کی فوج کے سر تھونپ دیا جائے، کبھی کبھی تو آکاش وانی اس حد سے بھی آگے بڑھتے ہوئے فوج کے بنیادی ڈھانچے کو کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتی ہے ۔۔۔شائد آکاش وانی کو یہ یقین واثق ہو چلا ہے کہ جب تک پاکستان کی فوج کو یا ا س کے ڈھانچے کو کمزور نہ کر دیا جائے جب تک ان میں تفرقہ پیدا نہ کیا جا سکے۔۔۔ جب تک اس کے افسران کے بارے میں قسم قسم کی کہانیاں پھیلا تے ہوئے ان کے جوانوں کے ذہنوں میں نفرت کا بیج نہ بو دیا جائے اس کے جوانوں پر نفسیاتی وار کرتے ہوئے ان کے جذبے اور اعتماد کو متزلزل نہ کر دیا جائے...یہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اس کے سامنے یک جا ہو کر کھڑے رہیں گے اور اس یکجہتی پر اس کی گھنائونی تمنائیں جرنیل اور سپاہی کے پیار اور اعتبار سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہوتی رہیں گی۔
آکاش وانی اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کے وہ خواب جو وہ نہ جانے کب سے اپنے براڈ کاسٹر ز کے ساتھ بیٹھے دیکھے جا رہی ہے‘ آئندہ بھی یونہی چکنا چور ہو تے رہیں گے!!