"MABC" (space) message & send to 7575

ٹاسک فورس 88 اور سی پیک

محترم میاں محمد نواز شریف اور ان کی مسلم لیگ نواز سے مجموعی طور پر عرض ہے کہ سی پیک آپ کا نہیں بلکہ جنرل مشرف کا کارنامہ ہے۔ آپ کے وزیرداخلہ احسن اقبال کو بھی چیلنج ہے کہ وہ اسے جھٹلا سکتے ہیں تو جھٹلا کر دکھائیں کہ گوادر بندر گاہ کی افتتاحی تقریب مارچ 2002ء میں منعقد ہوئی تھی جس میں جنرل مشرف کے ساتھ عوامی جمہوریہ چین کے نائب وزیر اعظمWU BUGGUO شریک ہوئے تھے۔ بھارتی بحریہ کے چیف ایڈ مرل سریش مہتا نے 26جون 2006 ء کو نئی دہلی میں ایک لیکچر دیتے ہوئے ان الفاظ میں خبردار کیا تھا '' پاکستان کی گوادر پورٹ بھارت کیلئے سنجیدہ نوعیت کی سٹریٹیجک پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے اور آج سے یہ بات ہر بھارتی کو اپنے ذہن میں رکھنا ہو گی کہ گوادر بندر گاہ جو آبنائے ہرمز کی خارجی گزر گاہ سے صرف180 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہے اگر اس نے کام شروع کر دیا تو یہ ہمارے کنٹرول سے نکل جائے گی‘‘۔۔۔ ایڈ مرل سریش مہتا نے کہا کہ اس وقت جنرل مشرف گوادر کو کراچی سے ملانے کیلئے موٹر وے طرز کی سڑک تعمیر کر رہے ہیں اور بھارتی حکومت کو ملنے والی اطلاعات کے مطا بق آگے چل کر مشرف گوادر کو قراقرم ہائی وے سے ملانے کا منصوبہ تیار کر چکے ہیں‘‘۔یہ دو ثبوت اس لئے سب کے سامنے رکھے ہیں کہ سی پیک کے نام سے خود کو ہیرو ثابت کرنے والے حقائق دیکھتے ہوئے لاف زنی سے گریز کریں اور اگر ملکی افواج نے تعمیر پاکستان کے نا م سے گوادر اور سی پیک کیلئے کوششیں کی ہیں تو انہیں تسلیم کیا جائے ۔ 
عوامی جمہوریہ چین اور اس کی قوم کو اپنی کمٹمنٹ کا یقین دلانے اور سی پیک سے اپنی ان مٹ وابستگی کا ثبوت دیتے ہوئے ملکی افواج کے زیر اہتمام گلگت بلتستان سے گوادر تک کار ریلی کے شرکاء کے جگہ جگہ شاندار عوامی استقبال نے سپورٹس کے حوالے سے جہاں ایک جانب دنیا بھر کو محفوظ اور پر امن پاکستان کا پیغام دیا تو ساتھ ہی اس کار ریلی کا روٹ جو سی پیک سے منسلک تھا اس کے ہر راستے اور ہر موڑ پر سیلاب کی طرح امڈے ہوئے عوام کے جوش و خروش نے ثابت کر دیا کہ پوری قوم سی پیک کے ساتھ ہے ۔بلاشبہ وہ پیغام جو آج سے دو برس قبل سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے یوم آزادی کے موقع پر عوامی جمہوریہ چین کو یقین دہانی کی صورت میں دیتے ہوئے کہا تھا کہ '' پاکستان کی مسلح افواج سی پیک کی حفاظت اور پر امن تکمیل کی مکمل ضامن ہیں‘‘ اور جنرل راحیل شریف کی دی گئی اس گارنٹی کو ان کی جگہ آنے والے نئے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے عمل اور استقامت سے دنیا بھر کو ثابت کر کے دکھا دیا ہے۔ اسلام آبادا ور پاکستان بھر میں موجود دنیا بھر کے سفارتی عملے نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ سی پیک پر پوری قوم متحد اور ایک آواز بن چکی ہے۔ یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ بھارت اور اس کے موجو دہ سرپرستوں کو تو گوادر پورٹ ہی ایک آ نکھ نہیں بھا رہی تھی اور جب جنرل مشرف چینی قیا دت سے ہونے والی بات چیت میں سی پیک کو حتمی شکل دے رہے تھے تو امریکہ اور بھارت اسی وقت سے تلملانا شروع ہو گئے تھے ۔
بھارت نواز دہشت گردوں کے سی پیک اور گوادر کو نقصان پہنچائے جانے کے خدشات کے پیش نظر پاکستان کی بری فضائی افواج کی طرح پاک بحریہ بھی پوری طرح چوکس ہے جسے فوجی زبان میںکہاجاتا ہے: Well geared up and organised to ensure the security of maritime prong of CPEC.
پاکستان نیوی نے گوادر اور سی پیک کی حفاظت کیلئے وسیع پیمانے پر کوسٹل سکیورٹی اور ہاربر ڈیفنس آرگنائزیشن کے علا وہ ایک نئی ٹاسک فورس88 تشکیل دے دی ہے۔۔اس ٹاسک فورس کی اس طرح تربیت کی گئی ہے کہ یہ ہر سطح اور سمت کے سمندری راستوں کی Gapless Monitoring میں مہارت رکھتی ہے۔ آج جب میاں محمد نواز شریف اور ان کے وزراء ہر وقت اٹھتے بیٹھتے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ '' سی پیک‘‘ ہمارا کارنامہ ہے تو حیرانی ہوتی ہے کہ یہ لوگ ہمارے ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں جنہیں گوادر پورٹ کی فزیبیلٹی رپورٹ کا ہی علم نہیں۔۔۔ چلیں ان کی اس بات اور جھوٹے دعوئوں کا جواب ان کی زبان میں دینے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔سوچئے کہ جب آپ جاتی امراء رائے ونڈ میں اپنے محلات تعمیر کر رہے تھے تو کیا آپ نے یہ سوچے بغیر ہی وہاں اراضی خریدنا شروع کر دی تھی کہ یہاں تک ہم کیسے آیا کریں گے، اس کیلئے آپ کے ذہن میں کسی ایک سڑک کا نہیں بلکہ بہت سی سڑکوں اور ہر جانب سے جاتی امراء تک آنے والی رنگ روڈز کا تصور لازمی ہو گا۔۔۔اور آج آپ نے جاتی امرا محل تک پہنچنے کیلئے لاہور کے چاروں اطراف سے گزرنے والی سڑکوں کو جاتی امراء کی جانب آنے والی سڑک سے ملا دیا ہے بلکہ اب آپ لاہور شہر کے کسی دوسرے حصے سے گزرنے کی بجائے بنائی گئی انہی نئی سڑکوں کے ذریعے سیدھے موٹر وے تک پہنچ جاتے ہیں۔تو کیا چین اور پاکستان نے صرف یہ گوادر پورٹ ہی بنانی تھی؟۔ چین کو دنیا بھر کے ساتھ تجارت کیلئے ایک ایسے آسان زمینی اور سمندری راستے کی ضرورت نہیں تھی جسے سی پیک کا نام دیا گیا ہے؟ حضور والا جب عوامی جمہوریہ چین کے صدر اور جنرل مشرف گوادر کی افتتاحی تختی کی نقاب کشائی کر رہے تھے تو اس وقت میں بھی اس تقریب میں شریک تھا اور اس تقریب کی تقاریر کے دوران سی پیک کے نام سے رابطہ سڑکوں کا ذکر اس فزیبلٹی رپورٹ میںپہلے دن سے موجو دتھا۔۔۔۔اور حویلیاں سے سوست تک ریلوے لائن گزارنے کے منصوبے کاا علان تو جنرل مشرف نے ہی 2006 میں کیا تھا۔ اس لئے گزارش ہے کہ ووٹروں کو دھوکہ دینے کی بجائے بحیثیت وزیر اعظم آپ کو اپنی قوم کو سچائی پر مبنی حقائق بتانے چاہئیں تھے۔قوم سے جھوٹ بولنے والا اس قوم کا نہ تو ہمدرد ہو سکتا ہے اور نہ ہی خیر خواہ۔
عوامی جمہوریہ چین گوادر پورٹ بنا ہی اس لئے رہا تھا تاکہ وہ اپنا تجارتی سامان اسی سی پیک کے راستے سے گوادر اور پھر وہاں سے دنیا بھر میں پہنچا سکے اور اسی طرح دنیا کے ہر کونے سے آئے ہوئے مال کو گوادر سے اتارنے کے بعد زمینی راستوں سے چین تک پہنچا یا جائے گا۔۔ کیا دنیا بے خبر ہے کہ امریکہ نے انڈو نیشیا اور ملائشیا کے ذریعے چین کے تجارتی راستوں کے ذریعے اس کی سمندری گزر گاہ کو بند کرا دیا ہے؟۔ اور چین کیلئے اب یہ سی پیک ہی اس کی اقتصادیات کا ضامن ہے۔۔۔ ۔آپ کہہ رہے ہیں کہ سی پیک کا تحفہ ہم نے اس قوم کو دیا ہے۔۔۔حضور والا کچھ تو بولتے وقت خیال کیا کریں ۔اوپر میں نے بھارتی بحریہ کے ایڈ مرل اور بھارت کی خفیہ ایجنسی را کی رپورٹ کا حوالہ بھی دے دیا ہے جس کا ذکر ایڈمرل سریش مہتا نے نئی دہلی میں کیا تھا۔ہم آپ کی اس بات کو مانتے ہیں کہ اس قوم کا کیا ہے اسے تو ایک دو ماہ بعد کی بات یاد نہیں رہتی لیکن اگر کچھ لوگوں کو یاد رہ جاتی ہے تو وہ بتا سکتے ہیں کہ آپ نے چنیوٹ میں لوہے کا ایک لمبا ساراڈ ہوا میں بلند کرتے ہوئے عمران خان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تم دھرنا دیئے بیٹھے ہو اور شہبا زشریف نے ایک سال میں لوہے اور سونے کے ذخائر ڈھونڈ لئے ہیں۔حضور کدھر ہے چنیوٹ کا وہ لوہا اور سونا؟؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں