روزنامہ دنیا کے سیا سی رپورٹر کے حوالے سے اس کی 9 نومبر کی اشاعت میں سابق صدر آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں پارٹی رہنمائوں سے گفتگو میں میاں محمد نواز شریف پر ایک بار پھر سنگین الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ شریف فیملی ملک دشمنی میں کچھ عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے اور ان حالات میں نواز اور اس کی مسلم لیگ سے کسی بھی قسم کا تعاون یا ملاقات ملک دشمنی کے برا بر ہو گی۔ملک کو درپیش کچھ اسی قسم کے خدشات کا اظہار چوہدری نثار علی خان بھی تیس اکتوبر کو اسلام آباد میں سینئر صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو میں یہ کہتے ہوئے کر چکے ہیں کہ ملکی سلامتی کو آج 1970 سے بھی زیا دہ شدید خطرات لاحق ہیں اس وقت تو صرف ایک دشمن سامنے تھا لیکن آج بہت سی طاقتیں ہمارے مقابل ہیں جن میں بد قسمتی سے چند دوست ممالک بھی شامل ہیں۔ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے آٹھ نومبر کو اسلام آباد میں میاں نواز شریف پر الزام لگاتے ہوئے جو کچھ کہا ہے اس کی چونکا دینے والی تفصیلات وہ کچھ عرصہ قبل ایک نجی چینل کے اینکر کو دیئے گئے اپنے انٹر ویو دمیںیہ کہتے ہوئے بتا چکے ہیں کہ مخالف گروپ گریٹر پنجاب کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔
جب چوہدری نثار نے ملکی سلامتی کو درپیش خطرات اور سازش کی بات کی تھی تو اگلے ہی روز چیئر مین سینیٹ رضا ربانی نے انہیں سینیٹ کمیٹی میں پیش ہو کراس سازش کی تفصیلات بتانے کا نوٹس بھجوا دیا لیکن کیا وجہ ہے کہ جب اسی طرح کی بلکہ اس سے بھی خطرناک باتیں سابق صدر زرداری بار بار اپنے ٹی وی انٹر ویوز اور پارٹی رہنمائوں سے گفتگو میں کرتے ہیں ۔۔۔۔ تو چیئرمین سینیٹ رضا ربانی گریٹر پنجاب اور ملک دشمنی جیسی سازشوں کے انکشافات پر سینیٹ کی کمیٹی میں زرداری صاحب کو بلانے پر کیوں تیار نہیں ہو رہے؟۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ سابق صدر کے انٹر ویو اور اخباری بیا نات کسی ٹائم بم سے زیا دہ خطرناک ہیں ؟۔
سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی طرح سابق صدر آصف علی زرداری سے بھی پوچھا جائے کہ آپ سینیٹ میں آ کر وہ حقائق اور تفصیلات بیان کریں جن کے بارے میںنجی چینل کو انٹر ویو کے دوران اور اب کل ہی اپنے پارٹی رہنمائوں سے گفتگو میں آپ نے شریف برادران پر الزام لگایاہے کہ یہ اس قسم کے خطرناک منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔یہ الزامات کوئی مذاق نہیں کہ ہنس کر ٹال دیئے جائیں کہ یہ لوگ ملک توڑنے اور وطن عزیز سے غداری کرنے جا رہے ہیں اگر یہ سچ ہے توسابق صدر کے اس انٹر ویو پر شریف برادران کے خلاف فوجی عدالت میں غداری کا مقدمہ چلنا چاہئے ۔۔۔۔اور اگر یہ جھوٹ اور بہتان تراشی ہے تو پھر آصف علی زرداری کو کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دینی چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو اس قسم کی خرافات کہنے کی جرأت نہ ہو سکے۔
ایسا لگتا ہے کہ کچھ طاقتیں سابق صدر کے اس انٹر ویو کو گول کرنا چاہتی ہیں اس لئے کسی کو آگے بڑھ کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا تاکہ آصف علی زرداری عدالت کے روبرو اپنے اس الزام کے حق میں ثبوت دیتے ہوئے بتائیں یا ان کے خلاف شریف برادران کی شہرت اور ملک سے ان کی وفا داری کو چیلنج کرنے کے سنگین الزام پر قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔۔۔عمران خان اگر یہ کہہ دیں کہ انہیں پانامہ کیس سے دور رہنے کیلئے دس ارب کی پیش کش کی گئی تھی تو عمران خان کو میاں شہباز شریف کی جانب سے ہر جانے کا نوٹس بھیج دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی مرکزی حکومت اور پنجاب کا میڈیا عمران خان کے لتے لینا شروع ہو جاتا ہے۔۔۔لیکن آصف علی زرداری جن کے شریف برادران پر ملک توڑنے اور
غیر ملکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر ملک دشمنی جیسے سنگین الزامات ہر جگہ شائع ہو رہے ہیں ان کے خلاف نہ پنجاب حکومت اور نہ ہی میاں نواز شریف کی جانب سے قانونی کارروائی تو دور کی بات ہے کوئی تردید بھی نہیں آرہی ۔
صدر مملکت ممنون حسین سمیت سپر یم کورٹ آف پاکستان اوراس ملک کے ہر اس ادارے سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا انہوں نے سابق صدر زرداری کا یہ انٹر ویو اور 9 نومبر کے اخبارات میں شہ سرخیوں سے شائع ہونے والے اخباری بیانات نہیں دیکھے اور اگر سنے بھی ہیں اور دیکھے بھی ہیں تواب تک خاموش کیوں ہیں؟۔ انہیں کس چیز کا ڈر اور خوف ہے؟۔ کیا کوئی بے جا قسم کی قانونی رکا وٹ انہیں ملکی سالمیت کی حفاظت کرنے سے روک سکتی ہے؟۔ ان سب اداروں کے با اختیار لوگوں نے اپنے اﷲکو حاضر نا ضر جان کر یہ قسم نہیں اٹھائی کہ وہ اس ملک کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے بچائیں گے؟۔ کیا انہوں نے حلف نہیں اٹھایا کہ وہ اس ملک کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو نیست و نابود کر دیں گے؟۔
ٹی وی انٹر ویو کے مطا بق جب سابق صدر آصف علی زرداری نے شریف برادران پر گریٹر پنجاب کے منصوبے پر عمل کرنے کا الزام لگایا تو وہ یہ سنتے ہی اپنی جگہ سے اچھل پڑے کہ زرداری صاحب آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کیا کہہ دیا ہے؟۔آپ اپنی کہی ہوئی بات کو اپنے دل کے اندر دہراتے ہوئے سوچیں کہ آپ نے میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف پر کس قدر سنگین الزام لگا دیا ہے ۔ جس پر آصف علی زرداری نے اپنی آواز میں ایک سختی اور ٹھہرائو ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں انتہائی سوچ سمجھ کر کہہ رہے ہیں اور اپنے دہرائے گئے الزام کے ایک ایک لفظ پر قائم ہیںکہ شریف برادران انڈین پنجاب اور
پاکستانی پنجاب پر مشتمل ایک گریٹر پنجاب کے منصوبے پر عمل کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں کچھ لوگ مدد فراہم کر رہے ہیں؟۔۔۔کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ 9 نومبر کو اسلام آباد میں پی پی رہنمائوں سے گفتگو میں انہوں نے نواز شریف پر ملک دشمنی کا الزام لگاتے ہوئے ا سی غیر ملکی ایجنڈے کی جانب اشارہ کیا ہے؟۔ سابق صدر مملکت پاکستان آصف علی زرداری سے پوچھا جا نا چاہئے کہ وہ لوگ کون ہیں۔ ان کا یہ انٹر ویو براہ راست دیکھتے ہوئے اچانک ایک خیال سا چونکا کہ ایل ڈی اے کی حدود قصور، ننکانہ تک کیوں بڑھائی گئی ہے؟۔ کسی نے کبھی سوچا ہے کہ تمام بڑے بڑے ترقیا تی منصوبے ساہیوال اور فیصل آباد کے دائرے کے اندرہی کیوں محدود رکھے جا رہے ہیں؟۔ پورے پنجاب کا65 فیصد سے زائد ترقیا تی بجٹ صرف لاہور میں ہی کیوں صرف کیا جا رہا ہے؟۔کبھی کسی نے سوچا ہے کہ فیصل آباد سے آگے جھنگ، لیہ، بھکر، میانوالی، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یار خان کے ترقیا تی بجٹ کو کون کھا جاتا ہے؟۔ کسی نے سوچا ہے کہ راولپنڈی سے آگے ترقیا تی منصوبے سست روی کے شکار کیوں ہو جاتے ہیں؟۔ جنوبی پنجاب میں شجر کاری کیلئے مخصوص چار کروڑ بیس لاکھ روپے وزیر اعلیٰ، چیف سیکرٹری اور وی وی آئی پی کے استعمال کیلئے نئی قیمتی گاڑیاں خریدنے میں کیوں صرف کر دیئے جاتے ہیں۔۔۔ آج تک ہم میں سے کسی نے یہ بھی پوچھنے کی کوشش نہیں کی کہ محمود خان اچکزئی نے افغانیہ نام کے نئے پشتون صوبے کی سرحدوں کو میانوالی اور اٹک تک کیوں بڑھانے کا اعلان کیا ہے؟۔ ہم میں سے کسی نے یہ بھی نہیں سوچا ہو گا کہ نئے صوبے افغانیہ کا اسلام آباد میں بیٹھ کر اعلان کرنے کے با جود محمود اچکزئی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر کیسے برقرار رہے؟ !!