بھارت کی خفیہ ایجنسیوں اور اس کے ذیلی اداروں میں کام کرنے والے نچلے درجے کے ملازمین میں گزشتہ ایک بر س سے عجیب قسم کی بے چینی پھیل رہی ہے اور ان ملازمین کی آپس میں ہونے والی گپ شپ کو '' احتجاجی سوچ‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ سوال شدت پوری شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ بھارتی نیوی کے کمانڈرکل بھوشن یادیو سے پہلے ہمارے اداروں میں کام کرنے والے بھارت کے جتنے جاسوس بھی پاکستان نے گرفتار کئے اور ان میں سے جن جاسوسوں کو پاکستان نے پھانسیوں کی سزا د ی بھارتی حکومت اور وزیر اعظم ایسے کسی ایک جاسوس کا مقدمہ بھی انٹر نیشنل کورٹ میں لے کرکیوں نہیں گئے؟۔کل بھوشن یادیو کا مقدمہ براہمن حکومت اس لئے انٹرنیشنل کورٹ میں لے کر گئی ہے کہ وہ ایک افسر تھا ،ایک اعلیٰ ذات کا ہندو تھا...بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے نچلے درجے اور نچلی ذات کے ملازمین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کل بھوشن یادیو تو برہمن ہے ،اونچی ذات کا اور ہم ان کی نظروں میں شائد انسا ن بھی نہیں ہیں؟ کیا ہمارے جیسے گرفتار کئے گئے جاسوسوں کے ماتا پتا اور بیوی بچے نہیں ہوتے؟۔ کیا ہم انسان نہیں؟۔ یہ خاموش احتجاجی سوچ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے نچلے اور درمیانے درجے کے اہل کاروں میں شدت سے سرا ٹھا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دور نہ جائیں راء کے انسپکٹر سربجیت سنگھ کی مثال سب کے سامنے ہے جسے جاسوسی ا ور دہشت گردی کے الزام میں 1990 میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن اس کی گرفتاری سے لے کر موت تک برہمن سرکار کے کسی رکن کو انٹرنیشنل کورٹ کا نام اس لئے یاد نہ آسکا کہ وہ ایک ماتحت انسپکٹر تھا، وہ کوئی کمیشنڈ افسر نہیں تھا، وہ کسی اونچی ذات سے تعلق رکھنے والا نہیں تھا یا شائد وہ محض ایک سکھ تھا؟ جیسے ہی پاکستان نے انسانی ہمدردی کے ناطے کل بھوشن یادیو کی اہلیہ کو اس سے ملاقات کیلئے پاکستانی ویزہ اور سہولت دینے کا اعلان کیا ہے ،بجائے اس کے کہ بھارتی حکومت اور اس کا وزیراعظم پاکستان کا شکریہ ادا کرتے انہوں نے الٹا یہ کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان کو یہ سب کچھ مجبوراََ کرنا پڑ رہا ہے؟۔
3 مارچ 2016 کو حسین مبارک پٹیل کے جعلی نام سے بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک چلانے والے بھارت کے نیول کمانڈر کل بھوشن یادیو کو غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا گیا تو دوران تفتیش اس نے اپنے بارے میں ایک ایک سچ بتایا اور اقرار کیا کہ وہ RAW کے کمانڈر کے طور پر پاکستان میں دہشت گردوں کو آپریٹ کرتا رہا ہے۔اس کے جرائم اس قدر گھنائونے ہیں کہ اس کی کم از کم سزا ،سزائے موت ہے،جو اسے ملنی ہی چاہیے ؟۔
آٹھ نومبر سے اب تک بھارتی میڈیا طوفان مچائے ہوئے ہے کہ پاکستان میں قید بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کی اس کی پتنی سے ملاقات کی اجا زت پاکستان نے خوشی سے نہیں بلکہ ہمارے کہنے پر ICJ کے سخت دبائو پر دی گئی ہے... چانکیہ کے چیلوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی مکاری اور احسان فراموشی کا اس سے بڑا اظہار اور کیا ہو سکتا ہے جو پاکستان کی انسانی ہمدردی پر بھی بہتان تراشی سے باز نہیں آ رہی ۔ بھارت کا عام اور نچلی ذات کا ہندو درست ہی کہتا ہے کہ برہمن کے ساتھ جتنے بھی احسانات کر لو، اس کی خوشی کی خاطر بڑے سے بڑا کام بھی کر لو ،حتیٰ کہ اس کے لیے جان بھی دے دو ، وہ احسان مند ہونے کی بجائے الٹا یہی کہے گا کہ یہ نچلی ذات کا ہندو چونکہ میرے قدموں کی دھول سے پیدا ہوا ہے اس لئے میری خدمت
کرنا میرے لیے ہر قسم کی قربانی دینا اس کا فرض ہے اور دھرم بھی۔جب بھارتی میڈیا نے نا ن سٹاپ کہنا شروع کیا کہ پاکستان انٹرنیشنل کورٹ کا دبائو برداشت نہیں کر سکا تو اس کی وضاحت اور تصدیق کیلئے جب میڈیا نے ICJ سے رابطہ کیا تو وہ پاکستان کو لکھے جانے والے کسی بھی خط یا میمو رنڈم سے قطعی لا علم نکلے۔جب انہیں بھارتی میڈیا پر نشر ہونے والی رپورٹس کے کلپ اور خبروں کا حوالہ دیا گیا...توICJ نے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہماری طرف سے پاکستان پر اس سلسلے میں کسی قسم کا دبائو تو بہت دور کی بات ہے ان سے رسمی طور پر بھی کوئی درخواست تک نہیں کی گئی اور بھارتی حکومت اور اس کا میڈیا جس قسم کی خبریں نشر کر رہا ہے اس میں رتی برا بربھی صداقت نہیں بلکہ اس طرح وہICJ کی شہرت کو نقصان پہنچا رہا ہے، جس پر ہم بھارت سے احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری جانب سے دبائو کی باتیں کرنا سب جھوٹ ہے بلکہ اگر پاکستان نے اس قسم کی کوئی اجا زت دی بھی ہے تو ICJ انسانی ہمدردی کی بنا پر پاکستان کے اس اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور پاکستانی حکومت کا یہ اقدام انتہائی قابل ستائش ہے جس کی تقلید دوسری حکومتوں کو بھی کرنی چاہئے ۔ہمیں بھارت کا پراپیگنڈا سن کر دلی افسوس ہوا ہے جبکہ بھارتی حکومت کو چاہئے تھا کہ اپنی سیا سی دکانداری چمکانے کی بجا ئے پاکستان کی با قاعدہ سر کاری طور پر احسان مند ہوتی ۔
اس سلسلے میں جب پاکستان کی وزارت خارجہ سمیت کچھ دوسرے ذمہ داران سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھارت کی مضحکہ خیز خبروں اور رپورٹس کے جواب میں صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا...کہ ہم پر دبائو کی بات کرنے والے مکاریہ کہتے ہوئے کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک سال تک ان کے مسلسل اصرار کے با وجود ہم نے کل بھوشن یادیو کو بھارتی حکومت کی بار بار کی درخواستوں کے با وجود'' کونسلر‘‘ تک رسائی دینے کی بھی اجا زت نہیں دی؟۔
Pakistan allows death row spy meeting with his wife کے عنوان سے پاکستان کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے عرب نیوز نے لکھا ہے کہ پاکستان کی یہ پیشکش سوائے انسانی ہمدردی کی بہترین مثال کے اور کچھ نہیں ہے... خلیج ٹائمز اور عرب نیوز نے بھارت کے تمام جھوٹ اور پراپیگنڈے کا بیچ چوراہے بھانڈہ پھوڑتے ہوئے لکھا ہے '' دس نومبر کو پاکستان کی یہ پیشکش بھارت کی ایک ماہ پیشتر پاکستان سے کی جانے والی مسز کل بھوشن کی ملاقات کرانے کی درخواست پر کئے جانے والے ہمدردانہ غور کے نتیجے میں سامنے آئی ہے‘‘۔
THE WIRE نے پاکستان کی اس پیشکش پر اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ ''ہماری اطلاعات کے مطابق کل بھوشن کی پتنی کی ملاقات اس بات چیت کا نتیجہ ہے جو کچھ عرصہ قبل بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج اور بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود کے درمیان نئی دہلی میں ہوئی...بلکہ پاکستان نے تو بھارتی حکومت کو کھلے دل سے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر کل بھوشن یادیو کی والدہ بھی ان سے ملاقات کی خواہش رکھتی ہیں تو اس کیلئے بھی اجا زت دینے کو تیار ہیں۔۔۔کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی اس پیشکش پر بھارتی حکومت کل بھوشن کی والدہANATIKA کے ویزے کیلئے بھی پاکستانی ہائی کمیشن سے رابطہ کر رہی ہے۔ ۔۔۔!!