"MABC" (space) message & send to 7575

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

بلوچ لبریشن آرمی نے تربت کے ضلع کیچ کے نواح بلیدہ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے15 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے بڑے فخریہ انداز میں اعلان کیا ہے کہ '' یہ ہماری کارروائی‘‘ ہے۔ بلوچستان کی آزادی کیلئے کام کرنے والی براہمداغ بگٹی کی زیر کما ن کام کرنے والی بلوچ لبریشن آرمی نے ان پندرہ پنجابیوں کو قطار وںمیں کھڑا کر کے کلاشنکوفوںکے برسٹ برسا کر شہیدکیا ۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ یہ حیران کن ہو کہ جس دن بھارتی کمانڈوز پر مشتمل نام نہاد لبریشن آرمی ان بے گناہ پندرہ پاکستانیوں کا قتل عام کر رہی تھی تو اسی وقت لندن میں چلنے والی ڈبل ڈیکر پبلک ٹرانسپورٹ پر فری بلوچستان کے نعرے اور پیغامات تحریر کئے جا رہے تھے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کسی کی اجا زت اور نگرانی میں کیا جا رہا تھا ۔9 نومبر2017 کو جمعرات کی صبح کوئٹہ پولیس کے ڈی آئی جی شکیل سمیت دو پولیس اہلکاروں کو بم دھماکے میں شہید کیا گیا ۔۔۔ ان کے قتل کے چند لمحوں بعد اسی بلوچ لبریشن آرمی نے ذمہ داری قبول کی جس کے بینرز اور بورڈز لندن کی پبلک ٹرانسپورٹ پر سجائے گئے۔ ابھی دو دن ہوئے بلوچستان پولیس کے ایس پی محمد الیاس جو کار میں سوار اپنی فیملی کے ہمراہ نواں کلی سے کوئٹہ آرہے تھے کہ راستے میں دہشت گردوں نے ان پر فائرنگ شروع کر دی جس سے ایس پی محمد الیاس ،ان کی بیوی اور چھ سالہ پوتا شہید ہو گئے جبکہ ان کی ایک چار سالہ پوتی ان دہشت گردوں کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو گئی۔ان تینوں کے قتل کی ذمہ داری بھی اسی بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر براہمداغ بگٹی نے قبول کر لی ہے جو برطانیہ ،امریکہ اور سوئٹزر لینڈ سمیت دوسرے یورپی ممالک کا مہمان خاص بن کرپاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے؟۔۔۔ اور جو لندن میں چلنے والی بسوں اور پبلک ٹرانسپورٹ پر آزاد بلوچستان کی مہم کا سرخیل ہے۔ 
کچھ عرصہ قبل لندن کے میئر کیلئے جب انتخابی مہم چلائی جا رہی تھی تو اس وقت عمران خان ایک ایسے برطانوی کو سپورٹ کر رہے تھے جو عراق پر ٹونی بلیئر اور امریکی صدر بش کی مشترکہ فوجوں کی چڑھائی کے خلاف لندن کی سڑکوں پر دس لاکھ سے زائد لوگوں کو لے کر باہر نکلاتھا۔ جس نے اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے گھر اور دفتر کے باہر لاکھوں لوگوں کو اکٹھا کرتے ہوئے برطانوی حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ عراق سے برطانوی فوجیوں کو واپس بلائے۔۔۔ یہی برطانوی شخصیت جب میئر لندن کی انتخابی مہم چلا رہی تھی تو اس دوران پرویز رشید اس پاک وطن کے وزیر اطلاعات کے فرائض انجام دے رہے تھے اور وہ اپنے سرکاری گروپ کے ہمراہ بڑے فخر سے میئر لندن کیلئے جمائما خان کے بھائی کے مقابلے میں صادق خان کی حمایت میں پاکستان کے سرکاری وسائل استعمال کر تے ہوئے عمران خان پر یہ کہتے ہوئے الزامات کی بھر مار کئے جا رہے تھے کہ وہ ایک پاکستانی نژاد صادق خان کے مقابلہ میں جمائما کے بھائی کی کیوں حمایت کر رہا ہے؟۔ اور عمران خان کے خلاف یہ بھرپور پروپیگنڈا پاکستان کے نجی اور سرکاری ٹی وی چینلز پر اس شدت سے شروع کرایا گیاکہ لگتا تھا کہ اگر صادق خان میئر لندن کا انتخاب نہ جیت سکا تو پاکستان کے لئے حالات تباہ کن ہو جائیں گے؟۔۔۔۔لیکن اپنی کامیابی کے بعد افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ صادق خان پاکستان کے خلاف بھارت کی مدد سے چلائی جانے والی علیحدگی کی گھنائونی مہم کو نہ روک سکے؟۔
لندن میں سڑکوں پر رواں دواں موٹر کیب تو کبھی ڈبل ڈیکر پبلک ٹرانسپورٹ پر فری بلوچستان کے بینرز اور پوسٹرز مزین کروانے والوں کے سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ کون نہیں جانتا کہ لندن میں پبلک ٹرانسپورٹ کا سارا نظام کس کے زیر انتظام ہوتا ہے۔۔۔ یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ میئر لندن اور خود ساختہ بلوچ لبریشن آرمی کا کمانڈر براہمداغ بگٹی کا آپس میں کسی قسم کا تعلق ہو لیکن ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہمارا یہ پوچھنے کا حق بنتا ہے کہ اگر لندن جیسے جدید شہر میں سینکڑوں کمرشل گاڑیوں کے پیچھے کئی روز اگر پاکستان مخالف نعرے لکھے گئے اور یہ گاڑیاں پورے لندن میں آزادی کے ساتھ گھوم کر پاکستان مخالف مہم کو ہوا دیتی رہیں تو آپ اس سے بے خبر کیوں رہے؟۔ یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ لندن کا میئر آفس آپ کو اس سے بے خبر رکھ رہا ہو؟۔جو کچھ بھی ہے آپ کی اہم ترین ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اپنے زیرانتظام علاقے اور نظام کو ہر قسم کی منفی سرگرمی سے پاک رکھیں اور کسی بھی ملک کے خلاف چلائی جانے والی مہم کو فوری طور پر روکیں۔
سب جانتے ہیں کہ یہ پاکستان مخالف مہم ہے اور جھوٹ کا پروپیگنڈا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جس دن لندن کی پبلک بسوں پر'' آزاد بلوچستان‘‘ کے یہ نعرے اور پوسٹرز لکھوائے جا رہے تھے اسی دن تربت میں مزدوری کیلئے جانے والے پندرہ غریب اور معصوم پاکستانیوں کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا اور ان چودہ افراد کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ وہی لوگ ہیں جو لندن کی سڑکوں پر رواں دواں رہنے والی ٹرانسپورٹ پر فری بلوچستان کے نعرے لکھ کر آزادی سے گھومتے رہے۔
حکومت پاکستان کو وہ کونسا امر مانع کر رہا ہے کہ جب براہمداغ بگٹی جو بلوچ لبریشن آرمی کی قیا دت کا دعویٰ کر نے کے بعد آئے دن بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کے قتل عام کی ذمہ داری قبول کر رہا ہے تو اسے انٹرپول کے ذریعے پاکستان واپس کیوں نہیں لایا جاتا؟۔اگر امریکہ ایمل کانسی اور رمزی یوسف کو سی آئی اے اور پولیس کے سات افراد کے قتل پر پاکستان کی حراست سے امریکہ لے کر جا سکتا ہے تو اب تک دو ہزا ر سے زائد سکیورٹی اہل کاروں کے قتل پر براہمداغ بگٹی کو کیوں نہیں لایا جا سکتا؟ نواز حکومت بھارت کے سٹیل ٹائیکون سجن جندال کو کابل سے جاتی امراء لاہور بلا کر کلبھوشن یادیو کی ICJ کے ذریعے پھانسی رکوانے کا گر بتا سکتی ہے۔۔۔تو براہمداغ بگٹی کو کیوں نہیں لا سکتی؟
اگر میاں نواز شریف کے دل سے کلبھوشن یادیو کیلئے پیار محبت کے دریا بہائے جا سکتے ہیں تو پھر اس وطن عزیز پاکستان کیلئے کیوں نہیں؟۔ پنجاب کے ڈسکہ اور سیالکوٹ سمیت گوجرانوالہ کے ان پندرہ نوجوانوں کیلئے کیوں نہیں جن کے ووٹوں سے ان کا خاندان اس ملک اور پنجاب پر حکومت کرتا چلا آ رہا ہے؟۔
اگر اپنے ہم وطنوں کو یہ بتایا جائے کہ امریکہ، برطانیہ، افغانستان، بھارت اور اسرائیل سمیت یورپی ممالک کا گروپ جو بلوچستان میں گزشتہ دس برسوں سے علیحدگی کی خونیںتحریک چلا رہے ہیں جو آئے روز بم دھماکے اور گوریلا حملے کر رہے ہیں ان کی تحقیقات کیلئے بلوچستان پولیس کے پاس فرانزک رپورٹ حاصل کرنے کی کوئی سہولت ہی نہیں ہے تو ان کا کیا ردعمل ہو گا۔عوام سے ٹیکس لینے والے عوام کا خون چوستے ہیں لیکن پیسہ نہ جانے کہاں چلا جاتا ہے اور آج حال یہ ہے کہ پولیس کے پاس کوئی قابل قدر سہولیات ہی موجود نہیں۔۔۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نواں کلی کے قریب ایس پی محمد الیاس اور ان کی بیوی اور پوتے کی شہادت پر تحقیقات کیلئے لاہور سے فرانزک ٹیم وہاں پہنچے گی۔۔۔کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔۔!!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں