آج آپ سے دو بہت ہی اہم موضوعات پر کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ممکن ہے کہ یہ پہلے ہی آپ کے علم میں ہوں لیکن اگر ایک فیصد قارئین بھی اس سے لا علم ہیں تو مجھے خوشی ہو گی کہ ان تک بھی میری یہ بات پہنچ رہی ہے۔ ممکن ہے کہ ا س طرح وہ سوچنا شروع کر دیں کہ یہ ملک ہمارا ہے اور ہم نے یہاں عزت و احترام سے رہنا ہے۔ اسے ہم نے بنانا اور سنوارنا ہے۔ اس کی حفاظت کسی اور نے نہیں بلکہ ہم سب نے مل کر جدوجہد کرنی ہے۔ جو اس مٹی میں پیدا ہوئے ہیں اور اسی مٹی میں جانے والے ہیں۔ اسی مٹی نے ہمیں اس قابل بنایا کہ آج ہم اپنے کڑیل اور جوان جسموں کے ساتھ‘ اس سے پیدا ہونے والی ہر نعمت سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
اگر آپ کو یہ بتایا جائے کہ ہمارے دوست ملک عوامی جمہوریہ چین اور بھارت کے درمیان ایک ایکسپریس وے تعمیر ہونے جا رہی ہے جس نے بعد میں چین، بنگلہ دیش، بھارت، اور میانمار کے لئے اکنامک کاریڈور میں تبدیل ہوجا نا ہے تو کیا یہ ہم سب کے لئے ایک نئی خبر نہیں ہو گی؟
دوسری اہم بات افغان حکومت کی بھارت کی مدد سے تیار کی جانے والی ایران کی چا بہار بندر گاہ کے ذریعے اپنے مال کی ترسیل اور وصولی ہے۔ جس کی پہلی شپمنٹ گندم کی صورت میں بھارت سے چا بہار اور وہاں سے افغانستان پہنچ چکی ہے جس پر افغان حکومت نے بڑے دھوم دھڑکے سے اعلانات شروع کر دیئے ہیں کہ اب ہمیں کراچی سمیت پاکستان کی کسی دوسری بند رگاہ کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ایران کی چا بہار بندرگاہسے ہماری پاکستان سے وابستہ ہمیشہ کی محتاجی ختم ہو گئی ہے۔ اس موقع پر بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج اور افغانستان کے وزیر برائے خارجہ امور صلاح الدین ربانی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی۔ بھارت کی جانب سے افغان عوام کو پہلی شپمنٹ میں 1.1 ملین ٹن گندم کی صورت میں دیئے گئے تحفے پر دکن ہیرالڈ نے یہ ہیڈ لائن لگائی ''بھارت اور افغانستان کے درمیان براہ راست تجارت کی راہ میں پاکستان کی صورت میں رکاوٹ (OBSTACLE) اب ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکی ہے‘‘۔
ممکن ہے کہ یہ دونوں اطلاعات آپ تک مجھ سے پہلے ہی پہنچ چکی ہوں اور آپ انہیں سرسری نظر سے دیکھنے کے بعد اپنے معمولات زندگی میں مصروف ہو جائیں۔ آپ کے روزمرہ کے معمولات اپنی جگہ اہم مگر کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ زیا دہ نہیں تو محض چند لمحے اپنے وطن کے حالات کی طرف بھی دیکھ لیا کریں؟
ہمارے لئے یہ خبر بہت چونکا دینے والی ہے کہ ہمارا دوست ملک عوامی جمہوریہ چین بھارت کے ساتھ ایک ایکسپریس وے تعمیر کرنے جا رہا ہے جو بنگلہ دیش اور میانمار سے گزرے گی اور جس پر ان سب حکومتوں سے بات چیت مکمل ہو چکی ہے۔ اور یہ کہ یہ سلسلہ 1990ء کی دہائی کے آخر میں اس وقت ابھر کر سامنے آیا جب ''سب ریجنل کو آپریشن‘‘ کے نام پر چین اور بھارت نے باہمی طور پر سوچ بچار شروع کی کہ چین کے جنوب مغربی صوبے YUNNAN اور بھارت کی مشرقی ریاستوں کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش اور میانمار (برما) کو آپس میں تیز اور مؤثر زمینی راستوں کے ذریعے ملا دیا جائے تاکہ ان چاروں ممالک کو تجارت میں آسانی رہے۔ جب ان چاروں حکومتوں نے اس پر بات چیت کا آغاز کیا تو اسے ''The Kunming Initiative‘‘ کا نام دیا گیا اور اس سلسلے کی پہلی میٹنگ چین کے صوبے YUNNAN میں 1999ء میں ہی کی گئی جسے BCIM ( بنگلہ دیش، چائنا، انڈیا اور میانمار) کا نام دیا گیا تھا۔
شروع میں ہونے والی اس میٹنگ کے شرکا کا مجموعی مقصد یہ تھا کہ اس طرح ایک تو ان ممالک کی آپس میں معاشی اور تجارتی سہولیات میں آسانی اور باہمی تعاون ملے گا اور دوسرا ان سب ممالک کو اپنے سرحدی راستوں تک نقل و حمل میں در پیش مشکلات کو ختم کرنے میں آسانیاں ہو جائیں گی۔ چینی سکالرز کی BCIM اکنامک راہداری پر بھارت کی نیم دلانہ کوششوں پر رائے ہے کہ وہ چین سے اس لئے کچھ کھچا کھچا سا ہے کہ چینی حکومت اُن علا قوں اور حصوں سے CPEC کے روٹس پر کام کر رہی ہے جنہیں بھارت متنازع مانتا ہے۔ اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ سی پیک روٹ پر چین کی کمٹمنٹ کی صورت میںBCIM اکنامک ہائی وے پر کام کے آغاز میں دیر ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کہ امریکہ کے ساتھ بھارت کی حالیہ ''گہری دوستی‘‘ اور تعلقات اس روٹ کے آڑے آرہے ہوں۔ کچھ انتہائی باخبر عناصر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ممکن ہے کہ بھارت اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چین پر اپنا دبائو برقرار رکھتے ہوئے سی پیک کے روٹ میں تبدیلی کی شرط رکھ دے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا چین اس پر راضی ہو جائے گا؟ یہ ملین ڈالر کا وہ سوال ہے جو اس وقت اعلیٰ سفارتی اور تجارتی حلقوں میں گردش کر رہا ہے۔
اگر چین بھارت کے دبائو یا دوسرے لفظوں میں BCIM پر بلیک میلنگ میں نہیں آتا تو ایسی صورت میں چین کے پاس ایک متبادل روٹ بھی ہے۔ اسے چاہئے کہ وہ Kunming کو خلیج بنگال سے لنک کرنے کے لئے میانمار کے علاقوں Lashio اور Mandalay کو تیار کرتے ہوئے میانمار کی بندر گاہ Kyauk Phyu کو استعمال کرے۔ جو کم اخراجات کے علاوہ فاصلے اور محل وقوع کے لحاظ سے بھی بہترین ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کو بھارت کے کسی دبا ئو یا بلیک میلنگ میں آنے کی بجائے 1990ء سے اب تک میانمار حکومت کے جوش و خروش اور دلچسپی کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے۔ یہ میانمار حکومت ہی ہے جس نے سائوتھ ایسٹ ایشیا سے قریب ہونے کی بنا پر اور اپنی سٹرٹیجک لوکیشن کی وجہ سے چین کے BELT AND ROAD منصوبے میں سب سے زیا دہ دلچسپی لی تھی۔ خلیج بنگال میں چین اگر اس مجوزہ منصوبے پر عمل کرتا ہے تو اس سے خلیج بنگال کی ترقی کا بھی آغاز ہو جائے گا۔
اس کالم کی وساطت سے عوامی جمہوریہ چین کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ بنگلہ دیش، چین، انڈیا اور میانمار اکنامک کاریڈور کے لئے ان کا منصوبہ بعض وجوہات کی بنا پر کسی بھی طرح مستقبل میں کار آمد نہیں رہے گا۔ وہ وجوہات کیا ہیں، ایک نظر ان پر:
٭ یہ اکنامک کاریڈور بھارت کی شمال مشرقی ریا ستوں سے گزرے گا اور وہاں پر کئی برسوں سے برپا شورش اور علیحدگی کی تحریکوں کی وجہ سے ہر وقت اس میں رکاوٹ کا سامنا رہے گا۔
٭ میانمار کی RAKHINE رخائن سٹیٹ میں جاری گوریلا لڑائی اور روہنگیا پر ظلم وستم کی وجہ سے بنگلہ دیش اور میانمار میں اندرونی چپقلش سے اکنامک کاریڈور کا یہ زمینی روٹ مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
٭ بھارت کے خطے میں چوہدراہٹ کے جنون اور سب کو زیر نگین رکھنے کی ہٹ دھرمی سے بنگلہ دیش اور میانمار کے راستے اس کے زیر اثر رہیں گے۔ اور جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ بھارت اپنے سے قریب، چھوٹے اور کمزور ممالک کی سیاست اور معیشت کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لئے پاگل پن کی حد تک من مانیاں کرنے کے جنون میں مبتلا رہتا ہے۔ اس لئے یہ منصوبہ مستقل خطرات سے دوچار رہے گا۔
خطے کی روز بروز تبدیل ہوتی صورت حال ہمیں بہت سے پیغامات دے رہی ہے۔ اس کے لئے ہمیں دوسروں کو کوسنے دینے کی بجائے ہر وقت دیکھتی اور جاگتی آنکھوں پر بھروسہ کرنا اور ان کا ساتھ دینا ہو گا۔