خواب سنانے اور دیکھنے میں سندھ کے صوبائی وزیر منظور وسان کا مقابلہ تو کوئی نہیں کر سکتا۔ ان کے خوابوں کو نشر کرنے کے لئے میڈیا کے لوگ ہمہ وقت انتظار میں رہتے ہیں مگر خواب دیکھنے پر تو کوئی پابندی نہیں اور وہ سیاستدان ہی کیا جو خواب دیکھنے اور دکھانے کا عادی نہ ہو۔ کیونکہ یہی خواب دکھا کر تو وہ اپنی سیا ست کرتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک خواب غالباً آج سے پچیس برس قبل مجھے بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا اور یہ خواب مجھے گزشتہ منگل کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے پیش کئے گئے ترمیمی بل‘ جس کے مطابق نااہل شخص کسی بھی پارٹی کی قیا دت سنبھالنے کا بھی اہل نہیں رہتا‘ پر ووٹنگ سے قبل لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک طاقتور وفاقی وزیر کی ملک کی عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں پر اشاروں کنایوں میں دی جانے والی دھمکیاں سنتے ہوئے یاد آ یا ہے۔
غالباً پچیس برس قبل اندرون لاہور کے ایک دروازے کے تھانے کے ایس ایچ او صاحب رات د و بجے کے بعد جب کام سے فارغ ہو کر گھر پہنچے تو کوئی ساڑھے چار بجے کے قریب ان کے گھر کے فون کی گھنٹی بجنے پر ان کی آنکھ کھل گئی۔ وہ جانتے تھے کہ پولیس اور انتظامیہ کے افسران کی جانب سے کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے انہیں کبھی بھی کال کی جا سکتی ہے۔ اس لئے انہیں یہ فون سننا ہی پڑا۔ فون پر‘ دوسری طرف تھانے کے ڈیوٹی افسر گھبرائے ہوئے لہجے میں بتا رہے تھے کہ ہمارے تھانے سے ملحقہ خالی پلاٹ پر مشہور حکومتی طالب علم لیڈر کی جانب سے قبضہ کیا جا رہا ہے۔ اندرون لاہور کے اس تھانے کے ایس ایچ او فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچے تو دیواریں تعمیر کرانے والوں کی نگرانی کرنے والے شخص نے ایس ایچ او کو بتایا کہ یہ پلاٹ مشہور طالب علم لیڈر کا ہے۔ ان کے حکم پر ہی ہم دیواریں کھڑی کر رہے ہیں۔ (اس پلاٹ کو اگر آج کی مارکیٹ قیمت کے مطا بق بیچا جائے تو اس کی کم از کم قیمت بھی ایک ارب روپے سے زیا دہ ہو گی)
ایس ایچ او نے اس طالب علم لیڈر کے فرنٹ مین سے کہا کہ آپ اس کے ملکیتی کاغذات مجھے دکھا دیں۔ جب تک آپ یہ کاغذات مجھے نہیں دکھائیں گے، آپ کو دیوار تعمیر کرنے کی اجا زت نہیں دی جا سکتی۔ اگر کاغذات نہ دکھائے گئے تو آپ کو تھانے سے ملحقہ اِس جگہ پر ناجائز قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس وقت چونکہ موبائل فون اس قدر عام نہیں ہوتے تھے، اس لئے اندرون شہر سے تعلق رکھنے والے‘ اس وقت کی حکمران سیا سی جماعت کے فعال طالب علم رہنما کے وہ فرنٹ مین بڑبڑاتے ہوئے موٹر سائیکل پر بیٹھے اور چلے گئے۔ اس دوران ایس ایچ او نے‘ جو اپنی ایمانداری اور دلیرانہ شہرت کی وجہ سے پورے شہر لاہور اور پورے محکمۂ پولیس میں جانے جاتے تھے‘ دیواریں تعمیر کرنے والے مزدوروں کو حکم دیا کہ فوری طرح پر یہ دیواریں گرا دو۔ مزدوروں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جلدی جلدی ان دیواروں کو گرادیا۔
کوئی آدھ گھنٹے بعد اس طالب علم لیڈر کے بھائی‘ جو آج ایک اہم سیا سی عہدے پر فائز ہیں۔ اس فرنٹ مین کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے اور ایس ایچ او سے کہا کہ یہ ہماری جگہ ہے۔ آپ ہمیں دیوار تعمیر کرنے سے نہیں روک سکتے اور آپ نے ہماری تعمیر کردہ دیواریں گرا کر اچھا نہیں کیا۔ ایس ایچ او نے اسے بھی وہی بات کہی جو ان کے فرنٹ مین کو کہہ چکے تھے کہ آپ اس پلاٹ کی ملکیت کے اصلی کاغذات دکھانے کے بعد‘ جب چاہیں دیوار تعمیر کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس کاغذات ہوتے تو دکھاتے۔ جس پر منہ بناتے ہوئے وہ واپس چلے گئے لیکن کوئی ایک گھنٹے بعد وہ طالبعلم رہنما بنفس نفیس خود وہاں پہنچ گئے اور ایس ایچ او کے ساتھ بڑی رعونت سے بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اس پلاٹ کے گرد میری بنائی گئی دیوار‘ جسے آپ نے گرایا ہے، آج ہی آپ خود تعمیر کریں گے۔ لیکن وہ شاید اس ایس ایچ او کو نہیں جانتے تھے۔ وہ آج بھی حق گوئی اور سچائی بیان کرنے اور لکھنے سے نہیں گھبراتا۔ اس ایس ایچ او نے حکمران جماعت کے تگڑے طالب علم لیڈر کو کہا کہ اگر پانچ منٹ کے اندر تم اورتمہارے آدمی اپنا سامان یہاں سے اٹھا کر نہ لے گئے تو تم سب کو گرفتار کر لوں گا۔ جس پر وہ لیڈر دم دباتے ہوئے بھاگ گئے۔
لیکن یہ معاملہ ختم نہیں بلکہ ابھی تو شروع ہوا تھا۔ صبح ایس ایچ او صاحب تھانے میں بیٹھے تھے کہ فون کی گھنٹی بجنا شروع ہو گئی۔ محرر نے فون اٹھایا تو دوسری جانب ایس پی سٹی بات کر رہے تھے۔ ایس ایچ اوسمجھ گئے کہ ایس پی صاحب تک پلاٹ کے قبضے کی بات پہنچ گئی ہو گی اور وہ صورت حال کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہوں گے۔ ایس ایچ او نے بڑے جوش سے فون پر اپنی کارکردگی بتانا شروع کر دی کہ جناب میں نے اس پلاٹ پر ناجائز قبضے کو ختم کرا دیا ہے۔ لیکن آگے سے ایس پی جو کہہ رہے تھے اسے سنتے ہوئے ایس ایچ او سوچنے لگا کہ اس قسم کی گفتگو کرنے والا ایس پی سٹی ہے یا کسی قبضہ گروپ کا ملازم؟
ایس پی سٹی فون پر ایس ایچ او کو کہہ رہے تھے کہ اس طالب علم لیڈرکو اس پلاٹ پر قبضہ کرنے دیں، اسے مت روکیں کیونکہ اس کے متعلق اوپر سے حکم ہے۔ جس پر ایس ایچ او نے کہا جناب اوپر سے آپ کا مطلب یہ ہے کہ اس پلاٹ پر قبضہ کا حکم ایس ایس پی یا ڈی آئی جی صاحب نے دیا ہے؟ جس پر ایس پی نے کہا نہیں‘ یہ اوپر سے آیا ہے۔ ایس ایچ او نے سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی کہا کہ سر! اگر یہ حکم آئی جی صاحب کی جانب سے آیا ہے تو انہیں بھی کہہ دیں کہ ایس ایچ او کہہ رہا ہے کہ میرا فرض مجھے کہتا ہے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے‘ پولیس تھانے کی دیوار کے بالکل ساتھ‘ کسی ایسے غیر قانونی کام کی اجا زت نہ دوجو ہر وقت تمھارے ضمیر کو کچوکے لگاتا رہے۔
ایس پی سٹی نے ایس ایچ او کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ہم سب کی نوکریوں کو خطرہ ہے کیونکہ ماڈل ٹائون دربار سے آپ کی اس حرکت پر مجھے سخت ڈانٹ پڑی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی اور اسی وقت اس طالب علم لیڈر اور اس کے بھائی کو اس متعلقہ پلاٹ پر دیواریں تعمیر کرا کے قبضہ دلوائیں۔ اکبری تھانے کے اس ایس ایچ او نے ایس پی سٹی کا یہ حکم سننے کے بعد کہا: جناب! آپ نے مجھے حکم دے دیا ہے لیکن بحیثیت ایس ایچ او‘میں اپنے تھانے کی حدود میں حکومتِ پاکستان یا کسی بھی غریب اور حق دار کی جان و مال کی حفاظت کا ضامن ہوں۔ اس لئے وزیراعلیٰ کو کہہ دیں کہ ایس ایچ او اس پلاٹ پر زبردستی قبضہ کرنے کی اجا زت نہیں دے رہا اور نہ ہی دے گا۔ اب ایس پی کی مجبوری یہ تھی کہ ایس ایچ او چونکہ انسپکٹر کے رینک پر فائز تھا، اسے معطل کرنے کا اختیار ایس پی عہدے کے افسر کو حاصل نہیں تھا اور نہ ہی وہ خود اسے تبدیل کر سکتے تھے۔ اس لئے اسی وقت ایس ایس پی لاہور کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ جو اس وقت ماڈل ٹائون دربار میں ہی موجود تھے۔ ان کے حکم پر اس ایس ایچ او کو فوری طور پر لائن حاضر کر دیا گیا۔ اور لائن حاضر ہونے کا حکم ملتے ہی میری آنکھ کھل گئی۔