مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی سکیورٹی فورسز نے ظلم و بر بریت اور سفاکی کے وہی مذموم ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں جو اسرائیلی فوج عرصۂ دراز سے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف غزہ میں استعمال کرتی چلی آ رہی ہے۔ جب اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کے کیمپوں اور گھروں پر فاسفورس بم پھینکنے شروع کئے تو دنیا بھر کا ضمیر یہودیوں کے اثر و رسوخ کے سامنے اس طرح کانپتا رہا جیسے ایک ہرن شیر کے سامنے کانپتا ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف فاسفورس بموں کے استعمال پر اسرائیلی فوج کو دہشت گردی کا مجرم قرار دینے کی بجائے تہذیب و اخلاق اور انسانی حقوق کا درس دینے والے اس کی چاپلوسی میں مصروف ہو گئے۔ آج کی مہذب دنیا میں اسرائیل اور بھارت‘ دو ایسے ممالک ہیں جو ناجائز قبضے اور دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں عسکری مداخلت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اسی اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف بھارتی فوج نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا لیکن جب اسے ہر طرح سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو اس نے ان کے خلاف ظلم و بربریت کی ہر حد پار کرتے ہوئے چار جولائی 2017ء کو پلوامہ کے دو دیہات باہ مانو اور کاکپورہ میں پانچ گھروں کو سفید فاسفورس بموں سے تباہ کر دیا۔ پلوامہ کے ان دیہاتوں میں تباہ شدہ گھروں کے بچے کھچے ملبے سے ناقابل شناخت حالت میں ملنے والی تین کشمیریوں کی نعشوں کو جب ہسپتال لایا گیا تو پتا چلا کہ ان پر سفید فاسفورس بموں کا استعمال کیا گیا ہے اور اس ضمن میں طریقۂ واردات بالکل وہی اختیار کیا گیا ہے جو صہیونی فوجی غزہ میں نہتے فلسطینیوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ اور اس کے سیکرٹری جنرل پر لازم ہے کہ وہ دیکھیں کہ بھارت کو یہ فاسفورس بم کس نے اور کیوں فراہم کئے؟کیا امریکہ سمیت جاپان اور یورپی دنیا اس بات کی اجا زت دے گی کہ خطے کے دوسرے ممالک بھی ان فاسفورس بموں کا استعمال شروع کر دیں؟ سوچئے! یہی فاسفورس بم جو اس وقت بھارت کی کچھ فوجی یونٹوں کے اسلحہ خانوں میں موجود ہیں‘ اگر کسی بھی طرح کشمیری مجاہدین کے ہاتھ لگ جاتے ہیں تو انہیں یہ فاسفورس بم بھارتی فورسز کے خلاف استعمال کرنے سے کون روک سکے گا؟
مظلوم اور محکوم کشمیریوں پر ان سفید فاسفورس بموں کے حالیہ استعمال کے بعد بھارت کے ہی چند تجزیہ کاروں کے وہ خدشات ابھر کر سامنے آ رہے ہیں کہ مودی کشمیریوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی عسکری جدوجہد سے نمٹنے کے لئے اسرائیل سے ٹیکنیکل مدد حاصل کرنے والے ہیں اور یہ خدشات اب پلوامہ میں استعمال کئے گئے سفید فاسفورس بموں سے ثابت ہو چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت نے یہ فاسفورس بم اسرائیل سے ہی حاصل کئے ہیں اور یہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ اسرائیل کے بعد ملنے والی فوجی امداد میں حاصل کئے گئے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ مودی کے دورہ کے بعد اسرائیل بھارت کو سب سے زیادہ اسلحہ اور خطرناک ہتھیار سپلائی کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ اور اس دورہ کے بعد اسرائیلی فوج کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے مقبوضہ کشمیر میں ناردرن کمانڈ سے دو دن تک تفصیلی ملاقات کے علاوہ نئی دہلی میں را کے سینئر افسران سے بھی ملاقات کی اور اسرائیلی فوج کی جانب سے بھارتی فوج کی کچھ یونٹوں کو خصوصی تربیت فراہم کر نے کا فیصلہ کیا۔
ایسا لگ رہاہے کہ بھارت کے آرمی چیف اور نریندر مودی کے درمیان کشمیر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑتی ہوئی صورت حال پر ہونے والے اجلاس کے فیصلوں پر باقاعدہ عمل در آمد شروع ہو چکا ہے اور وہ تقریر جس میں راشٹریہ سیوک سنگھ کے لیڈر نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ جس کشمیری کے گھر کے بارے میں شک ہو کہ اس نے کسی بھی مجاہدکو اپنے گھر میں پناہ د ی ہے‘ اس کے گھر کو بغیر کسی وارننگ کے زمین بوس کر دیا جائے گا۔ اور 4 جولائی2017ء کو دیہاتوں میں یہود و ہنود کے اس منصوبے پر عمل کرتے ہوئے پانچ کشمیری گھروں کو فاسفورس بموں سے تباہ کر دیا گیا تھا۔
''انٹر نیشنل کیمیکل ویپن کنونشن‘‘ کی رو سے کشمیریوں کے خلاف فاسفورس بم استعمال کرکے بھارت سنگین جنگی جرم کا مجرم بن چکا ہے اور پاکستانی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس کنونشن کی خلاف ورزی پر بھارت کو عالمی عدالت میں لے کر جائے۔ پاکستان کے سامنے اس وقت اقوام متحدہ سمیت OIC، SAARC اور SCO کے پلیٹ فارمز موجود ہیں۔ 4 جولائی کے اس واقعہ کو اب پانچ ماہ ہونے والے ہیں‘ لیکن پاکستان میں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی حامی حکومت ہونے کی وجہ سے کسی بھی فورم پر احتجاج نہیں کیا گیا۔ لیکن اب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور حکومت کو کشمیریوں کا یہ مقدمہ دنیا کے ہر فورم پر اٹھانا ہو گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یاد رکھیں آئندہ ہونے والے انتخابات میں مری اور اس سے ملحقہ علاقوں کے لوگ سوال کریں گے کہ انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کشمیریوں کا معاملہ کیوں نہ اٹھایا؟ سوچیں اس وقت وہ کیا جواب دیں گے؟ اگر پاکستان بھارت کی جانب سے کشمیریوں کے خلاف فاسفورس بموں کے استعمال پر خاموش رہتا ہے تو پھر اسے کشمیریوں کی ہمدردی کا ڈرامہ بھی بند کر دینا چاہئے۔
آئے روز ہیومن رائٹس واچ تو کہیں انسانی حقوق کمیشن کے نام پر قائم تنظیموں تو کہیں نت نئی این جی اوز کے نام پر اپنے ہی ملک کی سکیورٹی ایجنسیوں کو بدنام کرنے والا میڈیا بھی شاید اس حد تک یکطرفہ ہو چکا ہے کہ اسے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے کشمیری مسلمانوں کے خلاف استعمال کئے جانے والے فاسفورس بموں کی یا تو خبر دینے کی ہمت نہیں یا اپنے سرپرستوں کے ہر کرتوت پر پردہ ڈالنے کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھے ہوئے ہے۔ ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ نے جنیوا کے سب سے بڑے اور مہنگے ہوٹل میں تیسویں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں دنیا بھر سے اپنے مطلب اور ڈھب کے لوگوں کو بلا کر کئی کئی دن انسانی حقوق کی عظمت کے گن گائے جاتے رہے اور اقوام متحدہ کا اَن داتا امریکہ اپنے تیار کئے گئے مقررین کے ذریعے جی بھر کر طوفان اٹھاتے ہوئے پاکستان سمیت چند دوسرے ممالک کو دھمکیاں دیتا رہا کہ اگر انہوں نے انسانی حقوق کو اپنے ملک میں بہتر نہ بنایا تو ان کی امداد کم کرتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ لیکن کیا امریکہ جیسی حکومت‘ جس کی سی آئی اے اور پینٹاگان فضا میں اسلحے کے ذخائر جمع کرنے کے پروگرام ترتیب دے رہے ہیں‘ پلوامہ میں کشمیریوں کے خلاف فاسفورس بموں کے استعمال سے بے خبر ہو سکتی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ امریکی یہ سو چ کر خاموش ہوں کہ جب پاکستان کی بھارت نواز حکومت کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے اس جرم پر سوائے لب ہلانے کے‘ معنی خیز طور پرخاموش ہے تو ہم جو بھارت کے دوست اور اَن داتا ہیں، وہ اس ظلم پر آواز اٹھاتے ہوئے بھارت کی ناراضی کیوں مول لیں؟
آج کی ہماری حکومت سے کیا یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ بھارت کی ناراضی مول لے سکتی ہے؟ کیا سجن جندال کے کاروباری دوست بھارت کو عالمی عدالت یا '' ویپن کنونشن‘‘ کی خلاف ورزی پر عالمی عدالت کے کٹہرے میں لا سکتے ہیں؟ اس کی امید تو نہیں آپ بھی دیکھ لیجئے، ہاتھ کنگن کو آرسی کیا...!!