اٹک اور میانوالی سمیت جلال آباد، خیبر پختونخوا، وزیرستان اور فاٹا کو پاکستان سے علیحدہ کرتے ہوئے '' افغانیہ‘‘ کے نام سے دنیا کے نقشے پر ''ایک نئی، علیحدہ اور آزاد ریا ست‘‘ کے قیام کا اعلان کوئی فضا میں نہیں کیا گیا تھا، یہ بات کسی کے خواب میں آ کر نہیں ہوئی تھی بلکہ اسلام آباد میں‘ جہاں دنیا بھر کے سفارتی نمائندے موجود ہوتے ہیں، ان کے سامنے‘ افغانیہ کے نام سے نئے ملک کے قیام کا اعلان کیا گیا اور اعلان کرنے والے محمود خان اچکزئی‘ کوئٹہ میں اپنی نگرانی میں منعقد کرائے گئے جلسہ عام میں میاں نواز شریف کا ہاتھ بلند کرتے ہوئے انہیں یقین دلا رہے ہیں کہ ''میاں آپ چونکہ عبدالصمد خان اچکزئی کے بیٹے کے ساتھ دوستی نبھا رہے ہیں‘ اس لئے میں اور سامنے بیٹھے ہوئے پشتون‘ آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کے ہر مشن میں آپ کا ساتھ دیں گے اور جو پشتون نواز شریف کا ساتھ نہیں دے گا وہ بے غیرت ہو گا‘‘۔ کوئٹہ کے جلسہ عام کو براہ راست دیکھنے کے بعد پاکستان اور دنیا بھر سے سینکڑوں کی تعداد میں تارکین وطن‘ خاص طور پر پٹھانوں نے سوشل میڈیا پر محمود خان اچکزئی کو کرارا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ''بے غیرت پختون وہ ہو گا جو پاکستان توڑنے کی بات کرے گا‘‘۔
اوور سیز پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ کیا ہم سمجھ لیں کہ میاں نواز شریف افغانیہ کے نام سے کے پی، اٹک، میانوالی سمیت فاٹا کے حصے پاکستان سے علیحدہ کرکے ایک علیحدہ نیا ملک بنانے کے حامی بن گئے ہیں؟ جس طرح آج‘ دوسال بعد بھی کلبھوشن کے خلاف میاں نواز شریف کی زبان سے ایک لفظ تک نہیں نکل سکا، اسی طرح بجائے اس کے کہ وہ پاکستان کو توڑ کر اس کے حصے بخرے کرنے کے منصوبے بنانے والے محمود خان اچکزئی سے علیحدگی کا اعلان کرتے، اچکزئی کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی مذمت کرتے، میاں صاحب نے ان کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر دنیا سمیت پاکستان دشمن طاقتوں کو بلوچستان کی سر زمین پر کھڑے ہو کر یہ پیغام دیا ہے کہ میری صدارت اور نگرانی میں کام کرنے والی حکومت آپ کے مشن کو نبھانے والوں کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے؟
میاں نواز شریف کوئٹہ میں اس ملک کی عدلیہ اور فوج کے خلاف زہر گھولنے کے لئے صوبائی حکومت، مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کے لائے گئے لوگوں کو سامنے بٹھا کر جلسہ عام سے خطاب تو کر آئے، اکبر بگٹی کی یاد میں آنسو تو بہا آئے لیکن اکبر بگٹی کے بیٹے برہمداغ بگٹی کے ہاتھوں ہر روز شہید کئے جانے والے بے گناہ پنجابی مزدوروں، پولیس، فوج ، ایف سی کے جوانوں اور افسروں کی شہادت پر ایک آنسوبھی نہ بہا سکے۔ کوئٹہ کی جلسہ گاہ میں کھڑے ہو کر نام نہاد بلوچ لبریشن کے ایجنڈے کے مطا بق افواج پاکستان پر برستے ہوئے برہمداغ بگٹی کی در پردہ حمایت کرتے ہوئے مسلح افواج کو نشانہ تو بناتے رہے لیکن کسی ایک بھی شہید پولیس افسر کے اہل خانہ سے ہمدردی کے دو بول بھی نہ بول سکے۔
ایک جانب برہمداغ بگٹی ہے‘ جو آزاد بلوچستان کا نقشہ لئے دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف نفرت آمیز طوفان اٹھائے پھر رہا ہے، دوسری جانب میاں نواز شریف کے خصوصی مشیر محمود خان اچکزئی ہیں جو شیخ مجیب الرحمان کی طرح بنگلہ دیش کی طرز پر پاکستان کے حصوں کو علیحدہ کرتے ہوئے افغانیہ نام کا علیحدہ ملک قائم کرنے اعلان اسلام آباد میں بیٹھ کر کرتے ہیں اور پھر کوئٹہ کے جلسے میں نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہو کر بڑے فخر سے اس بات کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ راجہ ظفر الحق سے لے کر شہباز شریف تک، چوہدری نثار سے لے کر جنرل عبدالقادر بلوچ اور گوہر ایوب خان تک کسی میں ہمت ہوئی کہ وہ وفاق پاکستان سے علیحدہ ہونے کی بات کرنے والے اچکزئی کے اس واہیات قسم کے اعلان پر اسے منہ توڑ جواب دیتا؟ مسلم لیگ نواز کے کسی ایک رکن اسمبلی کا نام بتا دیں جس نے افغانیہ نام کے صوبے میں اٹک اور میانوالی کو شامل کرتے ہوئے نیا ملک بنانے کے اعلان پر نواز شریف سے کہا ہو جناب اس شخص کی ''میلی چادر‘‘ سے قائداعظم اور پاکستان کے وجود سے جنم لینے والی مسلم لیگ کو دور رکھیں۔ لیکن سب کی زبانوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں یہ احسن اقبال، رانا ثنا اﷲ سمیت طلال چودھری اور مریم اورنگزیب‘ سب کی زبانیں گنگ ہیں شاید وہ سمجھ چکے ہیں کہ محمود خان اچکزئی زاہد حامد کی طرح اکیلے نہیں بلکہ HIS MASTER VOICE ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ میرے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے نوٹس میں ہو گا اور وہ اس کھوج میں ہو گی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ اور میاں نواز شریف جو افغانیہ نام کے نئے ملک کی آواز لگنے سے پہلے فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے کی اجا زت دے چکے تھے‘ یک لخت پیچھے کیوں ہٹ چکے ہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں سوائے اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کے، فاٹا کو کے پی میں شامل کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے اس کے لئے سر توڑ کوششیں کر رہی ہیں لیکن مرکزی حکومت اس ملک کی افواج کے ساتھ ہونے والے متعدد اجلاسوں میں زبانی طور پر اتفاق کرنے کے بعد اب اس فیصلہ پر عمل در آمد کرنے کے لئے لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اپنی نجی محفلوں میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جب تک میاں نواز شریف اس کی منظوری نہیں دیں گے مرکزی حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتی۔
بدقسمتی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کوئی بھی آواز نہیں اٹھا رہا کہ پاکستان کے بارے میں روزانہ تیار کی جانے والی خفیہ رپورٹس کی ایک کاپی سابق اور نااہل وزیر اعظم تک کیسے پہنچ رہی ہیں؟ کیا پاکستان کے آئین اور قانون میں کہیں بھی اس بات کی گنجائش یا ذکر ہے کہ کسی سول شخص کو جو ایک سیاسی جماعت کا سربراہ بھی ہو‘ ملکی اور غیر ملکی سیکرٹس تک رسائی دی جائے؟ کوئی ایسا شخص جو ملک کی عدلیہ اور دفاعی اداروں کو دن میں بار بار للکارتا ہو‘ ان کی تضحیک کرتا ہو اسے کس قانون کے تحت خفیہ معلومات کی سمری بھیجی جا رہی ہے؟ آئین کا آرٹیکل6 اس بارے کیا کہتا ہے، اس پر ملک کے ہر بہی خواہوں اور جان دینے والے شہدا کے لواحقین کو سوچنا ہو گا۔
ایک ایسا شخص جو امریکہ، برطانیہ اور یورپی دنیا کو خوش کرنے کے لئے رازداری سے دائو پیچ کھیلتے ہوئے‘ ختم نبوت کے حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کر سکتا ہے وہ اور بھی بہت کچھ کر سکتا ہے۔ کوئٹہ کے جلسہ عام میں‘ افغانیہ کے نام سے ایک نئی سلطنت کے قیام کی جدوجہد کرنے والے اچکزئی کا ہاتھ پکڑ کر ٖفضا میں بلند کر سکتا ہے۔ جو گزشتہ دو ماہ میں اچکزئی سے ون ٹو ون چھ ملاقاتیں کر چکا ہے اور ان ملاقاتوں اور کوئٹہ جلسے کے بعد کیا بلوچستان اور کے پی میں کام کرنے والے نچلے اور درمیانے درجے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ افسران کو یہ پیغام نہیں مل رہا کہ اچکزئی کے رستے کی دیوار بننے کی کوشش مت کرنا؟ مسلم لیگ نواز کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ پاکستان سے مخلص ہیں یا افغانیہ کے سر پرست سے؟