گوادر کے نام سے ہی بھارت کی آنکھیں چندھیانے لگتی ہیں۔ اس ایک نام نے اس کے دن کا چین غارت کر دیا ہے‘ راتوں کی نیند حرام کر رکھی ہے اور وہ اپنے سینے کے اندر تک گھسے ہوئے اس تیر کو نکالنے کے لئے 50 ارب روپے مختص کئے ہوئے ہے تاکہ بلوچوں کے حقوق کی آڑ میں کرائے پر لئے گئے چند سرداروں کے ذریعے پاکستان کی اس ناقابل عبور بندرگاہ اور سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنا سکے۔ گوادر کی حفاظت کے لئے جہاں پاکستان کی دوسری سکیورٹی ایجنسیاں اور ادارے دن رات جاگ رہے ہیں‘ وہیں پاکستان کی بحریہ بھی بلوچ نوجوانوں کو ساتھ لئے‘ دشمن کے عزائم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہے۔ گوادر چونکہ بہت جلد ایشیا کے ایک بہت بڑے تجارتی اور صنعتی شہر میں تبدیل ہونے جا رہا ہے‘ اس لئے بحریہ اس میں بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے ''یونیورسٹی میرین سائنسز ڈیپارٹمنٹ‘‘ کے نام سے ایک ایسا اعلیٰ اور شاندار تعلیمی ادارہ قائم کرنے جا رہی ہے‘ جہاں گوادر اور اس سے ملحق بلوچ آبادیوں کے نوجوان داخل کئے جائیں گے‘ جن کے لئے اب تک ایسی تعلیم کے حصول کا تصور بھی محال تھا۔
گوادر بندرگاہ اور سی پیک کے حوالے سے پاکستان نیوی کا نام لیں تو فوری طور پر سمندر اور اس کی وسعت و گہرائی کے تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ یہ گہرائی اور وسعت پاکستان بحریہ کی تربیت، نظم و ضبط اور جذبہء ایمان کا حصہ ہے۔ اپنی کم تعداد اور محدود وسائل کے باوجود اندرونی اور بیرونی دشمنوں میں گھرے ہوئے پاکستان‘ اور اس کی سمندری حدود کی حفاظت کے ساتھ ساتھ‘ پاکستانی ساحلوں اور اس کی حدود میں آنے والی آبادیوں کو اپنے دل میں خصوصی جگہ دیتے ہوئے‘ ان کی تعلیم اور صحت کے لئے کوشاں رہنا‘ ہماری سمندری حدود کی نگہبان اس فورس کی پہچان بن چکی ہے۔
بھارت کی متعدد خفیہ ایجنسیوں کی سی پیک اور گوادر کی جانب گھورتی ہوئی خونخوار نظروں کا مقابلہ کرتے ہوئے‘ دن اور رات کی پروا کئے اور یخ بستہ ہوائوں سے پریشان ہوئے بغیر‘ بن قاسم پورٹ سے کراچی تک‘ ایک ایک لہر اور ساحل سمندر کے ایک ایک انچ کی حفاظت کرتی پاک بحریہ ہمہ وقت مستعد اور چٹان کی طرح مضبوط کھڑی رہتی ہے۔ یہی طرزِ عمل اس کے ایک ایک جوان اور افسر کے جذبۂ ایمانی کی پہچان ہے۔ پاک بحریہ کی کسی بھی آبدوز اور فلیٹ پر کھڑے ہوئے اہلکار کو معلوم ہے کہ اس کے اکھڑے ہوئے ایک قدم سے اس کے ملک اور قوم کا سنبھلنا مشکل ہو جائے گا۔
کسی بھی شخص، ادارے اور تنظیم کے ذہنوں میں تعلیم جیسے اہم ترین شعبے کے بارے میں جب یہ تصور راسخ ہو جائے کہ ''ملک و قوم کو اگر ترقی کی جانب محو سفر دیکھنا ہے، ملک کی بنیادوں کو بہترین انفراسٹرکچر دینا ہے، قوم کو تہذیب اور جذبۂ حب الوطنی سے سیراب کرنا ہے تو بنیادی تعلیم سے لے کر بہترین قسم کی فنی تعلیم تک‘ اسے حتی المقدور رسائی دینا ہو گی‘‘ تو پھر ترقی کی منزل دور نہیں رہ جاتی۔ اسی نکتے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نیوی نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنی کوسٹل حدود میں آنے والی آبادی کے نوجوانوں کو ان کی دہلیز تک تعلیم کی سہولت دے گی تاکہ انہیں بھی قومی دھارے میں سب کے ساتھ‘ برابری کی بنیاد‘ پر شامل کیا جائے اور پاکستان بحریہ کا عزم اور ارادہ اس دفاعی ادارے کی انفرادی خدمت کے علا وہ قومی خدمت کی بھی اعلیٰ مثال ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان بحریہ کے زیر اہتمام سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں 70 ہزار سے زائد پاکستانی نوجوان فیض یاب ہو رہے ہیں۔ بلکہ اس نے ملک میں خصوصی بچوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ‘ ان میں بھرپور زندگی جینے اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے اسلام آباد میں تین سپیشل چلڈرن سکول قائم کر رکھے ہیں‘ جہاں اس وقت غالباً پانچ سو سے زائد بچے تعلیم کے حصول اور خود کو بہترین ماحول میں ڈھالنے میں مصروف ہیں۔
اپنے اپنے ناموں کے ساتھ پاکستان میں جو محکمے بھی اس حوالے سے کام کر رہے ہیں وہاں کام کرنے والوں کو تمام تر سہولتیں مل رہی ہیں۔ بجلی پیدا کرنے والے محکموں میں کام کرنے والوں کو ان کے رتبے اور گریڈ کے مطابق ایک خاص حد تک بجلی کے مفت یونٹ ملتے ہیں۔ یہی صورت حال سوئی سدرن اور سوئی ناردرن گیس، ریلوے، پی آئی اے اور پانی کے محکمے میں کام کرنے والے ملازمین کی ہے۔ لیکن پاکستان بحریہ کا کمال یہ ہے کہ چونکہ وہ سمندر کے ساتھ ساتھ بہتی ہے‘ اس لئے اپنے سمندر کے ساتھ اور رستے میں آنے والے ساحلوں اور اس کے باسیوں کو اپنے دامن کی وسعتوں اور گہرائیوں سے فیض یاب کرنے میں پیش پیش رہتی ہے۔ اورمارا، گوادر، تربت اور جیوانی کی مقامی آبادیوں میں پاکستان نیوی کے تعمیر کئے گئے سکولوں میں‘ انہی آبادیوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو پرائمری کی سطح تک تعلیم مہیا کی جا رہی ہے۔ کراچی میں قائم بحریہ ماڈل سکول کی بات کریں تو اس روشنیوں کے شہر کے اس سکول میں داخل کسی بھی بلوچ طالب علم سے فیس یا داخلے کے نام پر ایک پائی بھی وصول نہیں کی جاتی اور کراچی سمیت بلوچستان کے ساحلی علاقوں گوادر، تربت، اورمارہ اور جیوانی کے سکولوں سے فارغ التحصیل طلبہ کے لئے پاکستان کی بحریہ کے زیرِ انتظام کیڈٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ان کے لئے نشستیں مختص کی جاتی ہیں۔
چائلڈ سپانسر سکیم (CNS) کے تحت ساحلی علاقوں کے ایسے غریب لیکن ہونہار طالب علموں کے لئے بالکل مفت تعلیم کی ایک الگ سہولت موجود ہے۔ بلوچستان کی سمندری حدود میں واقع اورمارہ میں‘ ایک بہترین کیڈٹ کالج اورمارہ کا نام سامنے آتا ہے۔ بہترین سہولتوں سے مزین اس کیڈٹ کالج میں تعلیم اور نظم و ضبط سے بھرپور ماحول میں تعلیم کے سمندر سے سیراب ہونے والے پچاس فیصد سے زائد طالب علموں کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ اورمارہ کیڈٹ کالج میں ساحلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں سے کسی بھی قسم کی فیس یا کتابوں کا خرچہ بھی نہیں لیا جاتا۔ حتیٰ کہ ان کے بورڈنگ کی تمام سہولیات بھی مفت فراہم کی جا رہی ہیں‘ اور ان میں اکثریت ایسے بچوں کی ہے جن کے والدین نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ سرداری نظام کے جابر پہروں میں‘ ان کی اولادیں کبھی اس قسم کے لباس اور کتابوں کے ساتھ‘ ایسے کیڈٹ کالجوں میں‘ مفت تعلیم حاصل کرنا تو درکنار‘ ان کے قریب سے بھی گزر سکیں گی۔ ہاں سردار کی سفارش اور آدھی سے زیادہ مزدوری اس کے حوالے کرنے کی شرط پر‘ وہ تعمیراتی کاموں کے لئے اورمارہ کیڈٹ کالج کی حدود میں ضرور آ سکتے تھے۔ اس کیڈٹ کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بلوچستان کی سمندری کوسٹل سے ملحقہ آبادیوں کے ان بلوچ طالب علموں کے سامنے یہ آپشن بھی رکھی جاتی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح مراحل سے گزرتے ہوئے‘ پاکستان نیوی میں بطور کیڈٹ شامل ہو سکتے ہیں۔
دشمن اور اس کی اتحادی عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں بکے ہوئے چند بلوچ سرداروں نے ہمیشہ بلوچستان اور مرکز میں حکومتیں کیں لیکن کسی نے بھی ان بلوچ بچوں کے لئے کالج تو دور کی بات‘ سکول تک بنانے کی بھی اجازت نہیں دی لیکن پاکستان نیوی نے ایک ہی مقصد سامنے رکھا ہے کہ کوسٹل علاقوں کے بلوچوں کو پاکستان نیوی میں ملازمتوں کے لئے سب پر ترجیح دی جائے اور اب تک بلوچ کوسٹل علاقوں سے 84 کیڈٹس اور 822 سیلرز کو نیوی میں عمر اور تعلیم میں خصوصی رعایت دیتے ہوئے بھرتی کیا جا چکا ہے۔