"MABC" (space) message & send to 7575

امریکیوں کے نام کھلا خط

1856 میں ابراہام لنکن سے 1963 تک، جان ایف کینیڈی کے قتل اور نکسن کے واٹر گیٹ سکینڈل تک ۔۔۔ صدر ریگن پر حملے سے بل کلنٹن کے معاشقے تک یہودی امریکیوں کی عزت و حرمت سے کھیلے جا رہے ہیں ۔۔۔ بل کلنٹن نے اسرائیل پر فلسطینی علا قے اور غزہ کے چند حصے خالی کرنے پر زور دینا شروع کیا تو نتن یاہو نے کلنٹن کو خوفناک نتائج کی دھمکی سر عام دی تھی ۔۔۔ امریکیوں کویاد ہو گاکہ اس وقت امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریاست فلوریڈا اور امریکی انتظامیہ میں خوفناک تصادم کی فضا پیدا کر دی گئی تھی۔ یہودی مافیا 2016 کے امریکی انتخابات میں روس کو استعمال کرتے ہوئے بظاہر جیتی ہوئی ہلیری کلنٹن کو ٹیکنیکل جھٹکا دیتے ہوئے اپنے مہرے ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہائوس پہنچانے تک امریکیوں کو ڈگڈگی پر نچاتے ہوئے انہیں دیمک کی طرح چاٹے جا رہا ہے اور امریکی اپنے مستقبل سے بے خبر اس کا روبوٹ بنے ہوئے ہیں۔۔۔۔ اسرائیل جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیاب کرا کر امریکہ کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی کرا رہاہے بالکل اسی طرح جارج بش کے مقابلہ میں الگور اور ڈک چینی کے مقابلے میں امریکہ کے کٹڑیہودی لبر مین کو نائب صدارت کے امیدوار کے طور پر سامنے لایا تھا اور اس وقت بش کی کامیابی کا فیصلہ امریکی سپریم کورٹ سے کرا کر امریکی جمہوریت کو دنیا بھر میں تماشا بنایا گیا۔
میں اگر امریکیوں پر یہ ثابت کر دوں کہ آپ کی عزت و وقار کی پہچان ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگان پر نائن الیون کو ٹکرانے والے چاروں جہازوں کا ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن اور القاعدہ نہیں بلکہ اسرائیلی موساد تھی تو یہ غلط نہیں ہو گا۔۔۔اس کیلئے آپ کے سامنے کچھ حقائق سامنے لا رہا ہوں۔٭ میڈیا سمیت امریکیوں کو یاد ہو گا کہ جارج بش نے پہلی مدت کیلئے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد جنرل کولن پاول کے ذریعے سابق صدر بل کلنٹن کے اس پلان پر کہ اسرائیل غزہ کے کچھ حصے اور فلسطین کے علا قے خالی کر دے‘ پر عمل در آمد شروع کرنا چاہا تو اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم شیرون امریکہ کے مقابلے میں خم ٹھونک کر میدان میں کود پڑے اور ان دونوں لیڈران کے درمیان ایک زبردست سرد جنگ شروع ہو گئی لیکن جب دیکھا کہ صدر بش کلنٹن کے طے کئے گئے پلان پر عمل کرنے میں سنجیدہ ہو چکے ہیں تو موساد نے اس بازی کو پلٹنے کیلئے نائن الیون پر کام کا آغاز کر دیا ۔
نائن الیون کے ذریعے امریکہ کو چاروں شانے چت گرانے والوں کی نشاندہی کیلئے اب تک سینکڑوں کے حساب سے تجزیئے، رپورٹس، مضامین اور خفیہ ایجنسیوں کی سلسلے وار تحقیقات سامنے آ چکی ہیں اس پر نہ جانے کتنی کتابیں بھی لکھی گئی ہیں، سولہ برسوں میں اسامہ بن لادن سمیت القاعدہ کے سب کردار بھی ایک ایک کر کے منظر سے تحلیل ہو چکے ہیں ۔۔۔القاعدہ کا نائن الیون سے پس پردہ تعلق صرف اتنا سا ہے کہ کھرب پتی اسامہ بن لادن اور پھر اس سے متا ثر ہو کر روس کے خلاف افغان جہاد کیلئے پاکستان پہنچنے والے ہزاروں عرب نوجوانوں کو گوریلا تربیت دینے کیلئے اسرائیلی انسٹرکٹر مختلف ناموں سے پاکستان کے شمالی علا قوں میں پہنچتے رہے ان دنوں کسی روک ٹوک کے بغیر جہادیوں کے نام سے جہاز بھر بھر کے اترنے کے بعد وزیرستان اور پھر افغانستان پہنچتے رہے ۔ میرا مخاطب مشروموں کی طرح پھیلے ہوئے امریکی تھنک ٹینکس یا ان کے درجنوں حکومتی اداروں سے نہیں بلکہ ہر امریکی شہری ہے '' کیا آپ کی عقل یہ تسلیم کرتی ہے کہ القاعدہ کو2001 میں امریکی ایئر پورٹس کے اندرونی نظام تک گھسنے یا ان کے حساس ریڈارز جام کرنے کی سہو لیات میسر ہو سکتی تھیں ؟‘‘۔
٭نائن الیون سے ٹکرانے والے طیاروں کو مقررہ روٹ سے ہٹ کر اپنے ٹارگٹ تک پہنچنے کیلئے تیس سے چالیس منٹ لگے۔۔۔ دنیا کے چپے چپے پر نگاہ رکھنے والا امریکی دفاعی سسٹم انہیں ٹریس کرنے میں ناکام کیسے ہوا ؟۔٭کیسے ممکن ہے کہ ڈیلس سے اڑکر پنٹاگان سے ٹکرانے والا طیارہ جس کی منزل لاس اینجلس تھی بالکل مختلف سمت بدلتے ہوئے اس وقت واشنگٹن کا رخ کر لے اور کوئی اسے روکنے والا نہ ہو جبکہ پچاس منٹ پیشتر ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے دو جہاز ٹکرا چکے تھے؟۔٭ ایک طیارہ بوسٹن سے لاس اینجلس۔۔۔دوسرا واشنگٹن سے لاس اینجلس اور تیسرا نیو یارک سے نیو جرسی جا رہا تھا ان میں سے سوائے ہوسٹن سے شکاگو جانے والے طیارے کو امریکی ایئر فورس اپنا نشانہ بناتی ہے۔۔۔ہر امریکی کے ساتھ ساتھ دنیا کے ماہر ہوا بازوں اور فضائیہ سے منسلک لوگوں کیلئے یہ ایک بہت بڑا سوال چھوڑے جا رہا ہوں۔
کیا کوئی امریکی یہ تصور کر سکتا ہے کہ جدید ترین سکیننگ مشینوں کی موجودگی کے با وجود مختلف ایئر پورٹس پر آنے اور جانے والی فلائٹس میں یہ عرب ہائی جیکرز اسلحہ ، چاقو اور خنجر ہمراہ لے جانے میں بغیر کسی اندرونی مدد کے کامیاب ہوسکتے تھے؟۔ امریکی ایک لمحے کیلئے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کریں گے کہ ان ایئر پورٹس جہاں سے ہائی جیکرز اندر داخل ہوئے ان کے اندرونی تہہ در تہہ تکنیکی نظام اور جدید ترین سکیورٹی اور سکیننگ سسٹم کو توڑنے کیلئے انہیں کسی ایسے گروہ کی رہنمائی اور مدد حاصل تھی جو وہاں بااثر تھے۔ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگان سے ٹکرائے جانے والے جہازوں کا کنٹرول ایسے لوگوں کے پاس تھا جو اسرائیل کی موساد کیلئے کام کر رہے تھے؟۔ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں اپنے ساتھ ملائے ہوئے لوگوں کو کئی کئی برس استعمال نہیں کرتیں، انہیں اور خاص مقاصد کیلئے اس وقت تک سنبھالے رکھتی ہیں جب تک وہ چاہتی ہیں اور وقت آنے پر انہیں اپنے ٹارگٹ پر جھونک دیتی ہیں۔ یہاں تک تو درست ہے کہ نائن الیون کا بلا واسطہ تعلق جہاد افغانستان اور القاعدہ سے جڑا ہوا ہے لیکن کیسے۔۔۔۔اس پر روشنی ڈالتے ہوئے دیکھیں کہ روسی فوج کے افغانستان پر قبضے کے کوئی ایک برس بعد دنیا بھر سے لوگ اس جہاد میں شرکت کیلئے یہاں پہنچنا شروع ہو گئے ان میں سینٹرل ایشیا اور امریکہ سمیت یورپ ، عرب ممالک سے آنے والوں کی تعداد سب سے زیا دہ تھی۔ عرب ممالک سے آنے والے نوجوان اپنے ساتھ لاکھوں ڈالر لے کر پہنچے اور سعودی عرب کے وہ متمول لوگ جو خود افغان جہاد میں شرکت نہیں کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ضرورت مند لوگوں کو بدلے میں لاکھوں ڈالر ادا کرتے ہوئے جہاد کیلئے پاکستان بھیجنا شروع کر دیا جن کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ عرب نوجوانوں نے اپنے لئے کلاشنکوف جیسے ہتھیار بھی خود خریدے لیکن جب اسرائیل نے کوزی گن متعارف کرائی تو یہ سب اس پر ٹوٹ پڑے اور منہ مانگی قیمتوں پر اسرائیل سے کوزی گنیں ہمارے شمالی علا قوں میں پہنچناشروع ہو گئیں۔
سب سے اہم مرحلہ ان عرب نوجوانوں کیلئے کمانڈو تربیت کا تھا کیونکہ وہ انگریزی سے نابلد اور صرف عربی بول اور سمجھ سکتے تھے جس کیلئے سی آئی اے نے اسرائیل سے خدمات لینے کا فیصلہ کیا ان کی فوجی تربیت کیلئے موساد سے بھیجے گئے انسٹرکٹر ماہر نفسیات ہونے کے ساتھ عربی زبان پر مہارت رکھتے تھے ۔ دوران ٹریننگ ان عرب نوجوانوں اور اسرائیلی انسٹرکٹرز میںBUDDY والا رشتہ بھی قائم ہو گیا اور روسیوں کے خلاف بہت سے کامیاب معرکوں میں یہ یہودی انسٹرکٹر ان عرب مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑتے بھی رہے ۔ انسٹرکٹرز کے بھیس میں موساد کے ان ماہرین نفسیات نے عرب مجاہدین کی اکثریت کے دل و دماغ، سوچ، جسم غرضیکہ ان پر ہر طرح سے مکمل نفسیاتی قابو پا لیا۔
اور آخری اور سب سے اہم سوال کہ نائن الیون کے '' چاروں ہوائی جہازوں کے ہائی جیکرز عرب ہی کیوں تھے؟۔ جبکہ افغان جہاد میں پاکستان، انڈونیشیا، چیچنیا، افغانستان، بوسنیا اور سینٹرل ایشیا کی ریاستوں کے لوگوں کی بھی کثیر تعداد شامل تھی‘‘...!! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں