4اکتوبر2017 کی صبح نو بجے بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لیپا سیکٹر میں بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے ہوئے نو کوٹ کی رہائشی دو خواتین سمیرا یونس اور مریم کو شہید کر دیا ۔چند روز بعد کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا جب اس دشوار گزار پہاڑی چوٹی پر واقع اس گائوں میں متاثرہ خاندانوں سے اظہار افسوس اور زخمیوں کی عیا دت کیلئے پہنچے تومیرے سامنے چار مئی 1972ء کی صبح وادی لیپا میں معرکہ حق و باطل کے وہ منا ظر گھوم گئے جن میں سقوط ڈھاکہ کے صرف ساڑھے چار ماہ بعد پاک فوج نے بھارت کی درگت بنا کر دنیا بھر کے سامنے رکھ دی۔۔ جب اور جہاں بھی دو فوجیں ایک دوسرے کے خلاف لڑتی ہیں تو ان میں سے ایک کو فتح اور دوسری کو شکست ہوتی ہے ،یہ ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا لیکن تاریخ یہ دیکھتی ہے کہ شکست کھانے والی فوج کا بعد کا رد عمل کیا ہے۔
دنیائے اسلام کے مانے ہوئے جرنیل صلاح الدین ایوبی کی مثال سب کے سامنے ہے کہ انہوں نے فلسطین پر حملہ کیا تو صلیبی فوج کے ہاتھوں بہت بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا، ایوبی کی اکثر فوج کٹ گئی باقی دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہو گئی اور جو خوش قسمتی سے بچ نکلی وہ ادھر ادھر تتر بتر ہو گئی۔ ایوبی بڑی مشکل سے جان بچاکر بھاگا اور بہت دور ایک محفوظ غار میں پناہ لے لی کچھ دنوں بعد وہ غار سے باہر نکل کر پہاڑ کی ٹیکری پر چڑھا اور فلسطین کی طرف منہ کر کے نہائت اونچی آواز سے بولا'' میرے پیارے فلسطین میں جلد واپس آئوں گا‘‘ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ایک سال کے اندر اندر اس نے اپنی بکھری ہوئی فوج کو اکٹھا کیا اور پھر ایک بھر پور جنگ کے بعد صلیبی فوجوں سے فلسطین واپس لے لیاکیونکہ اس نے شکست کھائی تھی شکست تسلیم نہیں کی تھی۔ شکست کھانے اور شکست تسلیم کرنے میں بہت فرق ہے ہتھیار ڈال دینا اور بات ہے ہتھیار پھینک دینا اور بات ہے پاکستان نے شکست تسلیم کرتے ہوئے اپنے ہتھیار پھینکے نہیں تھے۔
پاکستان میں بہت ہی کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ جنرل اروڑہ نے 14 دسمبر 71ء کو جنرل نیازی کو الٹی میٹم بھیجا تھا کہ '' اگر پاکستانی فوج نے اگلے چوبیس گھنٹوں میں شکست تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار نہ ڈالے تو مکتی باہنی ،قادر باہنی اور مجیب باہنی کو پچاس لاکھ سے زائد بہاریوں اور مغربی پاکستان سے آئے ہوئے پچاس ہزار کے قریب سول اور پولیس ملازمین کے قتل عام کی کھلی چھٹی دے دی جائے گی‘‘۔
16 دسمبر کو پاکستانی فوج نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جنرل اروڑہ کے سامنے ہتھیار تو ڈال دیئے لیکن اپنا اسلامی جذبہ دشمن کے حوالے نہیں کیا۔۔۔اور اس جذبے کا اظہار انہوںنے سولہ دسمبر کے صرف پانچ ماہ بعد4 مئی1972 ء کو آزاد کشمیر کی وادی لیپا کے معرکہ ، بیرو والی ناڑ،چک پترا اور جموہا بلج پر قبضہ کرنے اور بھارتی فوج کے206 افسروں اور جوانوں کو ایک بھر پور جنگ کے بعد قیدی بناکر کیا۔ وادی لیپا پر بنائی گئی اس درگت پر تلملاکر بھارت کے سابق ہائی کمشنر سی سی ڈیسائی نے19 مئی1972 ء کو بھارت کے مشہور اخبار'' امرتکا بازار پتریکا‘‘ میں اپنے مضمون میں لکھا: لگتا ہے کہ پاکستانی فوج کے جرنیلوں کا ابھی پوری طرح ڈنگ نہیں نکلا۔15 مئی کو آل انڈیا ریڈیو نے تسلیم کیا کہ ہماری9 سکھ رجمنٹ اور4 مہا رجمنٹ نے لیپا پر بنے مورچوں کو پاکستان نے فائر بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہماری چوٹیوں پر شدیدگولہ باری کی جس سے میجر ڈی سوزا ہلاک ہو گئے اور ہمیں یہ پوسٹیں خالی کر نا پڑیں۔۔۔۔کمانڈر12th کور لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا جب لیپا کی دیہی آبادیوں کو حوصلہ ینے کیلئے لیپا پہنچے تھے تو ان کے سامنے یقینااپنے سابق کمانڈرز کا قوم کو چار مئی کی صبح دیا جانے والا وہ پیغام بھی یاد آ رہا ہو گا '' فوج نے سولہ دسمبر کے صرف چار ماہ بعد ثابت کر دیا ہے کہ وہ پہلے بھی نہیں ہاری تھی اب بھی نہیں ہارے گی‘‘۔
وادی لیپا کی بلندی سطح سمندر سے پانچ ہزار فٹ اور پہاڑوں کی انتہائی بلندی12 ہزار فٹ سے بھی زیا دہ ہے۔ دسمبر1971ء کی جنگ کی فائر بندی کی رات پاکستان کے دستوں نے مقبوضہ کشمیر کے دو پہاروں گٹی پتھرا اور گرسی ڈنہ جسے جموہا بلج بھی کہتے ہیں پر قبضہ کر لیا جس سے لیپا وادی میں تعینات دشمن کے بریگیڈ کا اس کے دوسرے بریگیڈ زسے رابطہ کٹ گیا۔ اس بریگیڈ کو جس رستے سے سپلائی جاتی تھی وہ پاکستان کے قبضے میں آ گیا۔۔بھارت کو مصیبت یہ پڑی کہ اپنے اس بریگیڈ کو سپلائی پہنچانے کیلئے طویل اور دشوار رستوں سے گزرتے ہوئے چار پانچ دن لگ جاتے تھے۔اس بریگیڈ کے سگنل اور فون کے تار بھی پاکستانی فوج نے کاٹ دیئے تھے۔سولہ دسمبر کی فتح کے نشے میں چُور بھارتی فوج نے دھمکی دیتے ہوئے حکم دیا کہ یہ پوسٹ خالی کردو لیکن کرنل حق نواز شہید نے سختی سے انکار کر دیا۔
جس پرتین اور چار مئی کی درمیانی رات بھارتی فوج نے لیپا وادی میں پاکستان کی اگلی تمام پوسٹوں پر توپخانے سے گولہ باری شروع کر دی جن میں مارٹر گنیں بھی شامل تھیں اسی گولہ باری کے سائے میں پاکستان کی حساس پوسٹ ''بیرو والی ناڑ‘‘ پر قبضے کیلئے میجر گنگولی کی قیا دت میں حملہ کر دیا جسے کیپٹن جاوید انور نے ناکام بناتے ہوئے کمپنی کمانڈر میجر گنگولی کو ہلاک کر دیا۔پاکستانی فوج کے ڈویژن کمانڈر نے فیصلہ کیا کہ بھارت کو اس حملے کا جواب دینا لازمی ہو چکا ہے اور پھر چار اور پانچ مئی کی رات ڈھائی بجے پاکستانی فوج کے دستے چک پترا پہاڑ پر قائم بھارتی پوسٹ کی جانب بڑھنا شروع ہو گئے جو سطح سمندر سے ساڑھے آٹھ ہزار فٹ اور دامن سے چوٹی تک ساڑھے چار ہزار فٹ بلندی پر واقع تھی۔
تصور کیجئے کہ چک پترا کی چوٹی پر بنی بنکروں والی پوسٹ کو تباہ کرنا تھا اور یہ بنکروں والے مضبوط مورچے میدان میں نہیں بلکہ چار ہزار فٹ بلندی پر واقع تھے اور اس تک پہنچنے کیلئے پہاڑ کی چڑھائی سیدھی نہیں بلکہ تقریباً عمو دی تھی ۔ ہتھیاروں اور ایمو نیشن کا بوجھ لادے ساڑھے چار ہزار فٹ عمو دی چڑھائی ا ور پھر کوئی آواز پیدا کئے بغیر خاموشی سے حملہ کرنا کٹھن تھا۔۔۔ اس پہاڑ پر کبھی چڑھیں اور اتریں تو آپ کے ذہن میں کوہ قاف اور پریوں اورجنوں کا تصور سامنے لے آتا ہے اس کے نیچے بہتی ہوئی ندی ایک ٹیڑھی لکیر کی طرح نظر آنے لگتی ہے جوان اپنے افسران کی قیادت میں اوپر چڑھتے رہے اور پھر وہ وقت بھی آ گیا جب ان کا ٹارگٹ صرف 200 گز دور رہ گیا لیکن ہوا یہ کہ کسی ایک جوان کا ہتھیار پتھر سے ٹکرا گیا جس کی آواز گونجتے ہی دشمن کی مشین گنوںنے آگ اگلنی شروع کر دی جس سے کمپنی کمانڈر میجر صابر شہید ہو گئے ۔
پاک فوج کے جوان چار ہزار فٹ کی بلندی کی جانب عمودی چڑھائی اور آکسیجن کی کمی کے ساتھ ہتھیاروں اور ایمو نیشن کے بوجھ سے پہلے ہی نڈھال ہو چکے تھے کہ اوپر سے دشمن کے بنکروں سے گولیوں اور توپخانے کی موسلا دھار بارش سے لگتا تھا کہ کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا لیکن آزاد کشمیر کے ان سپوتوں کے حوصلے برقرار رہے تاہم ایک پلاٹون کمانڈر صوبیدار غلا م محی الدین مشین گن کا برسٹ لگنے سے جام شہا دت نوش کر گئے، جوان رکے نہیں اور اس دوران صوبیدار محمد صادق بھی دشمن کی مشین گن کا شکار ہو گئے لیکن دوسری جانب سے میجر اشتیاق اور میجر جمشید گلزار ( بعد میں لیفٹیننٹ جنرل) کی کمپنی کے جوانوں نے دشمن کے بنکروں پر ہلہ بول دیا جہاں بھارت کی9 سکھ اور چار مہار رجمنٹ تعینات تھی، زبردست لڑائی کے بعد دشمن کے206 جوانوں اور افسران نے سفید جھنڈا لہرا کر پاک فوج کے سامنے ہتھیار پھینک دیئے۔۔۔!!