کچھ لکھنے کیلئے جیسے ہی لیپ ٹاپ کھولتا تو خیالات گڈ مڈ ہونے لگتے اور یہ سلسلہ صبح سے ہی ذہن پر طاری تھا ۔جب کچھ لکھنے کا موڈ نہ بن پایا تو سوچا کیوں نہ کوئی کہانی لکھ دی جائے، کہانی لکھنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس کہانی کے تمام واقعات اور کردار فرضی ہیں اگر اس قسم کا واقعہ کسی کے علم میں ہو یا وہ سمجھے کہ یہ تو ہو بہو وہی ہے جس میں‘میں بھی شامل تھا یا یہ تو میرے ہی محل میں ہوا تھا تو اس فرضی واقعہ کی شکل میں بیان کی گئی اس فرضی اور من گھڑت کہانی کی ذمہ داری مجھ پر بالکل نہ ڈالی جائے۔ یہ کہانی لکھنے کا ہو سکتا ہے کہ مجھے خیال تک ہی نہ آتا لیکن اپنے ملک کی سپریم عدالتوں اور ان کے معزز جج حضرات کے بارے میں جب چند ایک نہایت ہی نا زیبا قسم کے ایسے بیانات سننے کو ملے جو کسی بھی مہذب معاشرے میں سننے اور دیکھنے کو نہیں ملتے تو دل کچھ مکدر سا ہو گیا اور سوچا کہ اس قسم کے ہتک آمیز لہجے میں گفتگو کرنے والوں کو سمجھانے کیلئے ان تک اگر کوئی اچھا سا پیغام یہ کہتے ہوئے پہنچ جائے کہ حضور والا:۔ جس طرح کی باتیں آپ کر رہے ہیں اس میں ملک کا نقصان تو جو ہو گا سو گا ہی آپ کا اپنا بھی نقصان ہو سکتا ہے چلیں اپنا غصہ تھوک دیں اور ایک بادشاہ کی کہانی سنیں تاکہ آپ کو'' سکون مل جائے‘‘۔
عرض ہے کہ آج کل شہنشاہی کے پردے میں آپ کو قدم قدم پر جمہوری بادشاہ دیکھنے کو ملیں گے جن کے چلنے پھرنے اور کہیں بھی آنے جانے کیلئے ہٹو بچو کی صدائیں صدیوں پرانے بادشاہوں کی طرح ہرسڑک اور ہرچوک پر سننے اور دیکھنے کو اکثر ملتی ہیں۔ اور جو کچھ آپ کو سنانے جا رہا ہوں یہ ایک ایسے ہی جمہوری بادشاہ کا قصہ ہے۔۔۔جیسے ہی کہانی سنانے لگا توسامنے دیوار پر نصب ٹی وی کی سکرین پر انائونسر اینکر کی تیز اور جوش سے ابلتی ہوئی آواز کانوں میں یہ کہتے ہہوئے پڑنے لگی کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے متفقہ فیصلے سے وزیر اعظم کے عہدے سے نااہل کئے گئے میاں نواز شریف نے لندن سے پاکستان کی جانب بڑھتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ وہ انصاف کی بحالی کیلئے اسی طرح تحریک چلائیں گے جس طرح عدلیہ کی بحالی کیلئے انہوں نے جنرل مشرف کے خلاف افتخار محمد چوہدری کے ذریعے تحریک چلوائی تھی؟۔انہوں نے اعلان کیا کہ ان کی جماعت مسلم لیگ نواز اور قوم اب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھیں گے بلکہ ملک میں انصاف کا بول با لا کرنے کیلئے افتخار چوہدری اور خلیل رمدے کی بحالی کی طرز کی تحریک چلائیں گے۔۔۔ جس کے نتیجے میں ارشاد حسن، شیخ ریاض، راشد عزیز، خلیل الرحمان خان، خواجہ شریف، نسیم چوہدری، سعید الزماں صدیقی، انور جمالی، افضل لون اور رفیق تارڑ جیسے چیف جسٹس اور جج ہوں ۔
کسی بھی جمہوری معاشرے میں سیا سی سرگرمیوں کی مکمل آزادی ہوتی ہے اس لئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا بھی حق ہے کہ وہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جو چاہیں کریں۔۔۔۔لیکن ملک کی سپریم کورٹ کے خلاف بیان بازی اور تیرو نشتر چلاتے ہوئے تحریک چلانے سے پہلے اگر وہ بھی بادشاہ والی یہ کہانی سن لیں تو ہو سکتا ہے کہ ان کے لہجے کی کاٹ میں کچھ فرق آ جائے لیکن اگروہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ اس قسم کی کہانیاں سننے کے شوق یا خوف سے آگے نکل گئے ہیں تو ان کے بچے یہ کہانی سننے کے بعد کسی فارغ وقت میں جب وہ ''اپنا پسندیدہ ٹی وی چینل‘‘ دیکھ کر فارغ ہوئے ہوں تو ان کا اچھا موڈ دیکھ کر انہیں سنا دیں۔ اور اگر ایسا موقعہ نہیں ملتا تو پھر بہتر ہے کہ کوئی ان کا کوئی اچھا دوست انہیں کسی بھی محفل یا میڈیا بریفنگ میں روک کر بادشاہ کا یہ قصہ ایک فرضی کہانی کہتے ہوئے سناناشروع کر دے ۔۔۔۔کہ پچیس برس ہوئے ایک بادشاہ کی حکومت تھی اور انہیں سپہ سالار کی کھلم کھلا مدد سے ایک ریاست کے راجے سے بطور بادشاہ تخت نشین ہوئے ابھی کوئی ڈھائی سال ہی ہوئے ہوں گے کہ اس کو سپہ سالار سے آنکھیں پھیرلینے سے خطرہ پیدا ہو نے لگا کہ اس سے ناراض ہو کر کسی اونچی جگہ بیٹھا ہوا طاقتور یہ شخص کسی بھی وقت اس کے محل پر اپنی فوج کے ذریعے حملہ آور ہو سکتا ہے۔
ایک رات اس بادشاہ کے دل میں نہ جانے کیا آئی کہ اس نے شام ڈھلتے ہی اپنے تمام ملازمین کو چھٹی دیتے ہوئے جانے کا کہہ دیا اور پھر اس رات صرف تین لوگ اس کے محل کے ایک محفوظ ترین کمرے میں بیٹھ کر ایک ایک کرتے ہوئے ڈالروں کی سو سو کی گڈیاں گنتے ہوئے انہیں جرمنی کے بنے ہوئے سلور گرے رنگ کے بڑے بڑے بکسوں میں بھرنا شروع ہو گئے اور سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ بادشاہ خود اس رات کئی مرتبہ ڈالروں کی گڈیاں گننے والوں کو کافی تیار کر کے پلاتا رہا اور ان تین اشخاص کی رات بھر کی لگا تار محنت کے بعد جب یہ صندوق سو سو ڈالروں کے نئے نویلے اور کڑ کڑ کرتے نوٹوں کی کی گڈیوں سے اوپر سے نیچے بڑی ترتیب کے ساتھ بھر دیئے گئے تو پھر ان تین اشخاص کو کچھ دیر کیلئے دوسرے کمرے میں بھیج کر ڈیجیٹل قفل لگا دیئے گئے اور پھر صبح پو پھٹتے ہی انہیں ایک ایسے ہوائی اڈے پر منتقل کر دیا گیا جہاں سے ایک ایسا شخص جس کے سامنے ڈیجیٹل قفل کے نمبر لگائے تھے اور جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آج کل بہت بیمار ہے ایک خصوصی جہاز میں لاد کر اپنے ساتھ لئے ہوئے دبئی پرواز کر گیا۔ ہے تو یہ جنوں پریوں والا قصہ ہی لیکن دیکھئے کہ میں نے اس میں کس قسم کا سسپنس بھر دیا ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ سچ لگنے لگے تویہی تو کہانی لکھنے والے کی خوبی سمجھی جاتی ہے کہ وہ ایک ایسے بے بنیاد قصے کو اس طرح لکھے کہ سننے اور پڑھنے والے یہی سمجھیں جیسے یہ سب سچ ہے؟۔
اب تک ہم نے نہ جانے اپنے بچپن سے جنوں اور پریوں کی کتنی کہانیاں سنی اور پڑھی ہیں تو کیا انہیں سنتے اور پڑھتے ہوئے ہمیں کبھی یہ احساس ہوتا تھا کہ یہ تو سب فرضی ہیں اور ہماری نانی دادی اور اماں بس ہمیں سلانے یا ہمارا دل بہلانے کیلئے یہ قصے جن کا حقائق اور حقیقت سے کوئی تعلق نہیںہوتا سنا رہی ہیں؟۔۔ یہ سب کہنے کا مطلب اس طرح سمجھئے کہ یہ پڑھتے ہوئے کہیں آپ اس بادشاہ کی تلاش یہ ٹھانتے ہوئے شروع نہ کر دیں کہ اس بادشاہ نے یہ کروڑوں ڈالر کہاں سے لئے ہوں گے؟۔کیا یہ سب اس بادشاہ سلامت نے اپنے گھر میں کہیں گملوں میںاگائے ہوئے تھے؟۔یا اس بادشاہ کا کوئی بہت بڑا باغ تھا جس کے درختوں پر یہ ڈالرز لگے ہوئے تھے؟۔ اب اس قسم کے بھولے اور بیوقوف لوگوں کو کس طرح سمجھایا جائے کہ یہ سب فرضی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر کوئی اس کا تعلق شمالی کوریا سے جوڑنا شروع کر دے تو اس نام کا خیال ہی دل سے نکا ل دیں ہاں اگر اس سے ملتے جلتے ملک یا کسی مشہور بس سروس یا کمپنی کا نام فرض کر لیں تو یہ ان کی مرضی ہے لیکن ان میں سے کسی ایک کا بھی اس کہانی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سب کچھ فرضی ہے۔۔۔!!