"MABC" (space) message & send to 7575

کشمیر ۔۔۔ ارونا چل پردیش کا نقشہ

سیکنڈری سکول ایجو کیشن مغربی بنگال کی جانب سے میٹرک کے امتحانات کیلئے تیار کئے گئے امتحانی سوالات میں جغرافیہ کے پیپر میں جونقشے فراہم کئے گئے ان میں جموں و کشمیر اور ارونا چل کو بھارت کا نہیں بلکہ بہت ہی واضح طور پر پاکستان اور چین کے ملکیتی حصوں کے طور پر ظاہر کیاگیا۔ جیسے ہی صوبے بھر میں قائم مختلف کمرئہ امتحانات میں کشمیر اور ارونا چل کے یہ نقشے امتحانی سوالات کی شکل میں طلبا کے سامنے آئے تو ان پر اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ ان دونوں علاقوں پر بھارت کی ملکیت کے دعوے درست نہیں ۔ طلبا امتحانات میں پوچھا جانے والا جغرافیہ کا یہ پیپر حل کرنے کے بعد جب کمرہ امتحان سے باہر نکلے تو چند گھنٹوں بعد ہی سوشل میڈیا کے ذریعے یہ نقشے جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بھارت بھر کے ٹی وی چینلز اس امتحانی سوالات پر مشتمل پیپر کی کاپیاں لے کر ایک طوفان مچانا شروع ہو گئے ۔ ایک کے بعد دوسرا میڈیا چینل مغربی بنگال کی حکومت پر شہد کی مکھیوں کی طرح پل پڑا اور راشٹریہ سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے بیانات داغنے شروع کر دیئے کہ یہ سب کچھ کسی غلطی سے نہیں ہوا بلکہ جان بوجھ کر مغربی بنگال کی حکمران جماعتTMC نے بھارت کو دنیا بھر میں رسواکرنے کیلئے کیا ہے۔ نئی دہلی سے بھارتیہ جنتا پارٹی، مودی سرکار اور راشٹریہ سیوک سنگھ سمیت بہت سی ہندو انتہا پسند تنظیموںنے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے مطا لبہ کر دیا کہ چیف منسٹر مغربی بنگال کی حیثیت سے ممتا بینر جی یہ غلط نقشے تیار کرنے اور پھر انہیں امتحانی سوالات کا حصہ بنانے پر فوری استعفیٰ دیں اور اس پر ایک کمیشن قائم کرتے ہوئے ا س کے ذمہ داروں کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے ان تمام نقشوں کوفوری طور پر ضبط کیا جائے اور جس پرنٹنگ پریس سے یہ نقشے چھپوائے گئے ہیں اس کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے اسے سر بمہر کر دیا جائے تاکہ متعلقہ ریکارڈ ضائع نہ ہو سکے کیونکہ سی بی آئی اس کی تحقیق کرسکتی ہے کہ یہ نقشے انہیں کس نے شائع کرنے کیلئے فراہم کئے تھے۔۔کیا اس کا پرنٹ بنگال کی صوبائی سرکار کی جانب سے مہیا کیا گیا ہے یا اس کا ذمہ دار صرف پر نٹنگ پریس ہے؟
بھارتیہ جنتا پارٹی مغربی بنگال کے سیکرٹری جنرل راجو بینر جی نے ایک پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ اب تک کی جانے والی تحقیقات کے مطا بقMadhyamik Test examination 2017 کیلئے میٹرک کے طالب علموں کو جغرافیہ کے امتحانی پیپر زمیں بھارت کا جو نقشہ مہیا کیا گیا اس میں کشمیر کے حصے کو پاکستان اور ارونا چل پردیش کو چین میںاس طرح شامل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ بھارت کا ان کے نزدیک ترین بھی کوئی نشان نہیں ملتا ۔۔۔ جنتا پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ اس قدر گھنائونی حرکت ہے کہ جنتا پارٹی اس پر ممتا بینر جی کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا بھی سوچ رہی ہے ۔۔۔راجو بینر جی نے میڈیا سے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ اب آپ ہی بتائیں کہ مودی جی دنیا بھر کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر تے ہوئے جموں کشمیر تو ایک طرف سی پیک کو نا کام بنانے کیلئے پاکستان کے قبضے میں آزاد کشمیر کو بھی بھارت کاحصہ ثابت کر نے کیلئے شور مچا رہے ہیں لیکن ہمارے ہی سکولوں میں بچوں کو یہ بتایاجا رہا ہے کہ جموں کشمیر اور ارونا چل پردیش پر بھارت کا موقف غلط اور چین اور پاکستان کا موقف صحیح اور درست ہے؟۔
زی نیوز نے اس نقشے کے بارے میں جو رپورٹ دی ہے ا س کے مطا بق اس نقشے کو اگر بغور دیکھا جائے تو اس پر واضح طور پرWBBSC یعنی ویسٹ بنگال بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن پرنٹ ہے ۔۔۔اس سکینڈل کے سامنے آنے پر مغربی بنگال میں ممتا بینر جی کی اپوزیشن جنتا پارٹی نے ان سے سوال کیا ہے کہ کیا وہ بھی کشمیر پر پاکستان کے موقف اور ارونا چل پردیش پر چین کی ملکیت کے دعوے کو درست تسلیم کرتی ہیں؟۔ مغربی بنگال کے میٹرک کے امتحانات دینے والے طلبا کو جغرافیہ کے پرچہ میں فراہم کئے جانے والے نقشے کو سامنے رکھیں تو
,POK'Aksai Chin,Arunachal Pradesh have gone out from Indian Boundaries.
مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی نے جنتا پارٹی کے الزامات کے جواب میں کہاہے کہ یہ نقشے ہمیں بھارت سرکار کے پرانے ریکارڈ سے حاصل ہوئے ہیں۔ اب اگر کچھ عرصہ پہلے کا بھارت کا سرکاری ریکارڈ کشمیر کو بھارت کا حصہ نہیں دکھاتا تو اس میں مغربی بنگال حکومت کس طرح قصور وار ہو سکتی ہے؟۔ ادھر مغربی بنگال میں ممتا بینر جی اور مودی جنتا پارٹی میں نقشوں کی جنگ زوروں پر ہے تو دوسری جانب اسی کشمیر میںظلم وبر بریت اپنے انتہا پر پہنچ چکی ہے۔۔۔۔اسرائیلی فوج کی طرح کشمیر میں بھی بھارتی فوجی چھوٹے چھوٹے بچوں کو ان کی مائوں سے چھین رہے ہیں اور اس کی ویڈیو بنانے پر فرانس کے صحافی پال کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔۔۔لیکن عالمی ضمیر مردہ ہو کر نہ جانے کس قیمت پر بک چکا ہے؟۔
25 نومبر کے ایک انگریزی روزنامہ میں جرمنی سے ایمنسٹی انٹر نیشنل کےUTE Schafer نے ایڈیٹر کے نام خط میں بلوچستان میں لاپتہ کئے جانے والے افراد کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا مطا لبہ کیا ہے لیکن ایمنٹسی انٹرنیشنل اوران کی ہیومن رائٹس کی نمائندہ عاصمہ جہانگیر سمیت کسی نے بھی پنجاب کے ان20 مزدوروں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا جنہیں بھارت کے کرائے پر لئے گئے چند بلوچ سرداروں کے تنخواہ داروں نے تربت میں گولیوں کی بارش برساتے ہوئے شہید کر دیا۔ پنجابی مزدور کو قطاروں میں کھڑا کرکے برسٹ برسانے والے اور فوج، ایف سی اور پولیس کے قافلوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف اگر کارروائی کی جائے تو اس بھیانک جرم کی مرتکب دہشت گرد فورس آپ کی زبان سے ''لاپتہ افراد‘‘ کہلانے لگتی ہے۔
بلوچستان کے دہشت گردوں کے غم میں ہر وقت دبلا ہونے والوںکو کبھی ایک لمحے کیلئے بھی بھارتی فوج کی جانب سے کشمیریوں پر کیمیکل بموں کے استعمال پر آواز اٹھانے کی توفیق نصیب نہیں ہو سکی ۔ فرانس کے صحافی Paul Commiti کو انڈین آرمی نے اس جرم میں گرفتار کر لیا کہ وہ مقبوضہ سری نگر میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو ان کی مائوں سے چھین کر لے جاتے ہوئے بھارتی فوجیوں کی ویڈیو بنارہا تھا۔ ایمنٹسی انٹرنیشنل کے لوگ فرانس کے اس صحافی کی گرفتاری پر مصلحت کے تحت خاموش ہیں یا شائد ان کی نظروں میں یہ انسانی حقوق یا میڈیا کی آزادی کے زمرے میں نہیں آتے؟۔ فرانس کے صحافی پال کمٹی کو مجسٹریٹ سے پانچ روزہ ریمانڈ کے بعد جس تفتیشی سیل میں رکھا گیا وہاں تعینات ایک اہلکار کے مطابق اس سے میر واعظ عمر فاروق سے ہونے والی ملاقات کی تفصیلات اور کشمیری مظاہرین کے علا وہ بچوں کو بھارت کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے ان کے گھروں اور ان کی مائوں سے چھیننے کے علا وہ پیلٹ گنوں سے کی جانے والی فائرنگ کی ویڈیو بارے دریافت کیا جا رہا ہے کہ وہ کہاں ہیں۔
اقوام متحدہ کا ادارہ کیا اس قدر بے بس یا بے حس ہوتا جا رہا ہے کہ اسے کشمیریوں پر بھارت کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے کیمیکل بم برسانے والے بھارت کا مکروہ چہرہ نظر ہی نہیں آ رہا؟۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں