"MABC" (space) message & send to 7575

کلبھوشن کے بعد اب شبیر

17 دسمبر1999کو آزاد کشمیر کے علا قے اسلام گڑھ کی ایک مسافر بس مرد، خواتین اور بچوں سمیت تیس سے زائد مسافروں کو لئے جا رہی تھی کہ اچانک اس میں خوفناک دھماکہ ہوا اور دور دور تک انسانی جسموں اور بس کے پرخچے اڑ گئے ۔بس میں نصب طاقت ور بم دھماکے کے ذریعے کی گئی دہشت گردانہ کارروائی میں9 افراد موقع پر ہی شہید اور22 زخمی ہو گئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بم دھماکہ کرنے والے دہشت گرد اور اس کے ساتھیوں کی تلاش شروع کر دی گئی اور ملک کی خفیہ ایجنسیوں کو جلد ہی ا س میں کامیابی مل گئی اور شبیر نامی شخص کو موقع کے قریب سے ہی مرنے اور زخمی ہونے والوں کی چیخ و پکار سے لطف اندوز ہوتے ہوئے شک پڑنے پر گرفتار کر لیا گیا اور جب اس سے تفتیش کی گئی تو اس نے کلبھوشن یادیو کی طرح ایک ایک سچ اگل کر سامنے رکھ دیا۔اسلام گڑھ کا یہ دھماکہ ممکن ہے کہ آج ملک کے لوگوں کو اب یاد بھی نہ رہا ہو لیکن اس ملک کی حفاظت کیلئے ہمہ تن مصروف ادارے اور اس بس کے شہیدوں اور زخمیوں سمیت ان کے لواحقین خود پر برپاکی جانے والی اس دہشت گردی کو کبھی بھی نہیں بھول سکتے۔
اسلام گڑھ بم دھماکے میں آزاد کشمیر سے گرفتار کیا جانے والا محمد شبیر ولد نتھے خان بھارت کا شہری ہے جس کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے ضلع پو نچھ کے علا قے سکان ٹوپو تحصیل میندر سے ہے۔ شبیر نے1987 میں سمگلنگ اور دوسرے ناجائز کاموں کے سلسلے میں سرحد کے آر پار آنا جا نا شروع کیا لیکن جلد ہی وہ بھارتی ایجنسیوں کی نظروں میں آ گیا اور انہوں نے اسے گرفتار کر لیا لیکن چند دن اپنے پاس رکھنے کے بعد اسے اس کے خاندان سمیت اس یقین دہانی پر چھوڑدیا کہ وہ راء کیلئے کام کرے گا ،اس طرح شبیر بھارتی فوج اور اس کی ایجنسیوں کی ہدایات پر آزاد کشمیر سمیت پاکستان میں ان کیلئے جاسوسی اور تخریبی کارروائیاں کرنا شروع ہو گیا اور آخرکار ایک دن اسلام گڑھ کی مسافر بس میں کئے گئے بم دھماکے کے بعد اپنی مشکوک حرکات سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ جب اس کے گھر کی تلاشی لی گئی تو دھماکہ خیز سامان سمیت بارودی مواد اور مختلف قسم کا اسلحہ بر آمد ہوا ۔ جس پر شبیر کے خلاف 337A/1to6, 3/EXPA,302/427'...324/APC کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔سیشن کورٹ میر پور خاص میں اس کے خلاف عدالتی کارروائی شروع ہوئی اور جرم ثابت ہونے پر عدالت کی جانب سے شبیر کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا جس پر اس نے آزاد کشمیر سپریم کورٹ/ شریعت کورٹ میں اپنی سزائے موت کے خلاف 2015 سے اپیل دائر کی ہوئی ہے۔
بھارت کی وزارت خارجہ اور میڈیا سے ملنے والی بعض اطلاعات کے مطا بق حال ہی میں کلبھوشن یادیو کی طرح بھارت نے اپنے شہری شبیر ولد نتھے خان کیلئے بھی قونصلر رسائی کی درخواست دینے کا فیصلہ کیا ہے۔۔اخلاقی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان یا اس کے کسی بھی حصے میں دہشت گردی میں ملوث اور مسافر بس میں بیٹھے ہوئے بے گناہ مردو خواتین سمیت 9 افراد کو شہید اور بائیس کو زخمی اور زندگی بھر کیلئے معذور کرنے والے کسی بھی درندہ صفت انسان کیلئے ہمدردی یا رحم کا ذراسا جذبہ بھی بیدار نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔۔لیکن ایک مسلمان ہونے اور انسانی بنیاد کے ناتے سے رحم اور ہمدردی کے جذبے کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان نے کچھ عرصہ قبل بھارت کے مشہور جاسوس'' کشمیر سنگھ ‘‘ کو جو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں بند تھا اس کے لواحقین اور ہائی کمیشن کے اہلکاروں سے ملاقات کا موقع فراہم کیا گوکہ یہ ملاقات کراتے ہوئے کسی بھی روایت کو توڑنا حکومت کیلئے منا سب نہیں تھا کیونکہ بھارت نے افضل گرو کے ساتھ جو سلوک کیا وہ پاکستان اور کشمیر کے محکوم مسلمان ابھی تک نہیں بھولے ۔ پاکستان کیسے بھول سکتا ہے کہ اس نے کچھ برس ہوئے خلاف معمول کشمیر سنگھ جیسے خطرناک بھارتی جاسوس کو انسانی ہمدردی کی بنا پر لاہور کی کوٹ لکھپت جیل سے رہا کرنے کے بعد بڑے مہذب طریقے سے واہگہ کی سرحد پر بھارتی حکام کے حوالے کیا تھا اور یہ اس لئے بھی کیا گیاتاکہ بھارتی عوام اور حکومت تک اپنے دوستانہ جذبات پہنچاتے ہوئے یہ پیغام دے دیا جائے کہ پاکستان ایک جھگڑالو یا آپ کا دشمن نہیں بلکہ آپ سے دوستی کا خواہشمند ملک ہے۔۔لیکن اس ہمدردی کا نتیجہ چند ہی منٹوں بعد سب نے اس طرح دیکھا کہ پاکستان میں واویلا کرنے والا کشمیر سنگھ جیسے ہی واہگہ کی سرحد کراس کرتے ہوئے بھارتی علا قے میں پہنچا تو بڑے فخر سے اپنے خطرناک جاسوس ہونے کا اس طرح اقرار کرنے لگا کہ اس نے پاکستان کے اند رجگہ جگہ جاسوسی کرتے ہوئے اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔۔۔چلیں مان لیا کہ بھارت اور اس کے جاسوس کشمیر سنگھ نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے لیکن اتنا تو تسلیم کر لیتے کہ پاکستان نے فراخ دلی اور دوستی کا حق ادا کر دیا ہے اس کا معمولی سا شکریہ ہی اد اکر دیا جاتا لیکن بھارت نے پاکستان کی اس ہمدر دی اور خیر سگالی کے پیغام کا الٹا انتہائی بھونڈے طریقے سے مذاق اڑانا شروع کر دیا۔۔۔جیسے کوئی بد تمیز بچہ چاکلیٹ یا کینڈی دینے والے کا دور جا کر منہ چڑاتا ہے۔ کشمیر سنگھ سے کئے گئے اس دوستانہ اقدام اور جذبہ خیر سگالی کو واہگہ پار کرنے کے چند ہی منٹ بعد جب بھارت نے اپنے پائوں تلے کچلنا شروع کر دیا تو پاکستان اور اس کے عوام کو اس سے سخت دھچکا لگا اور اندرون ملک سول سوسائٹی اور میڈیا نے پر سخت احتجاج بھی کیا جس پر پاکستان نے فیصلہ کیا کہ اب جو کچھ بھی ہو گا وہ قاعدے اور قانون کے مطا بق ہو گا نہ کہ دوستی کا اظہار اور بے وجہ جذبہ خیر سگالی دکھانے کیلئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سکیورٹی فورسز سمیت سینکڑوں افراد کے قتل کا بر رضائے رغبت اعتراف کرنے پر سزائے موت پانے والے بھارتی نیوی کے کمانڈر کلبھوشن یادیو کے معاملے پر پاکستان نے اپنے رویے کو سخت کرتے ہوئے اسے قاعدے اور قانون کا پابند کیا ہوا ہے۔اور جیسے ہی یہ اطلاعات پہنچیں کہ شبیر کیلئے بھی قونصل رسائی کی درخواست کی جانے والی ہے تو میری اطلاعات کے مطا بق حکومت پاکستان کے انتہائی ذمہ داروں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ کلبھوشن کے طریقہ کار کی طرح بھارت کے جاسوس اور دہشت گرد شبیر ولد نتھے خان کے بارے میں بھی وہی طرز عمل اختیار کیا جائے گاا س لئے بھارت یہ سمجھ لے کہ جس طرح کلبھوشن کو قونصلر رسائی سے انکار کر دیا گیا ہے اسی طرح پاکستان کی جانب سے بھارتی جاسوس اور دہشت گرد شبیر کے معاملے میں بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جائیگا ۔
بہت ہو چکا پاکستان کو اب فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اپنی سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے قتل عام کے محرک اور اس میں براہ راست ملوث دشمن کے جاسوسوں اور دہشت گردوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے کا سلسلہ جڑ سے ختم کرنا ہو گا۔ اب فراخ دلی جسے بد قسمتی سے بزدلی کا نام دیا جاتا ہے اس کا بار بار مظاہرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ہر دہشت گرد سے ملکی قانون کے مطا بق رویہ اختیار کر نا ہو گا ۔ پانچ پانچ سو افراد کے قاتلوں اور پاکستان کی حساس تنصیبات پر حملے کرتے اور کراتے ہوئے انہیں نقصان پہنچانے والوں کیلئے جیلوں کو کلب اور ان سے ملنے جلنے والوںکو خصوصی پروٹوکول دینے سے گریز کرنا ہو گا۔۔۔ہم اپنے سپاہی مقبول حسین کو کیسے بھول سکتے ہیں جسے1965 کی جنگ میں قیدی بنایا گیا تھا لیکن چالیس سال تک اس جنگی قیدی کو جنیوا کنونشن کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی جلادوں نے اس جرم میں اس کی زبان کاٹ ڈالی کہ سپاہی مقبول حسین اپنے جسم پر پڑنے والے ہر ہنٹر کے جواب میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ کیوں لگاتا تھا۔۔۔!!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں