"MABC" (space) message & send to 7575

کشمیر کے ’’دہشت گرد‘‘ ؟

میٹرک میں9.6 سی جی پی اے سے کامیابی حاصل کرنے والے 15 سالہ فرحان وانی کے باپ غلام محمد نے بھارتی فوج کے میجر کے حکم پر اپنے بیٹے کو فیس بک پر پیغام بھیجا ''جب سے ہمیں چھوڑ کر گئے ہو میرا جسم میرا ساتھ چھوڑتا جا رہا ہے۔ میری زندگی کی اب صرف ایک ہی تمنا ہے کہ ایک بار تمہیں دیکھ لوں، سینے سے لگا لوں... مجھ سے بہتر تم اپنی ماں گوہر جاں کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو‘ وہ تو جیتے جی مر چکی ہے، ایک بار‘ صرف ایک بار آ کر ہمیں مل جائو‘‘۔ 52 سالہ غلام محمد وانی نے میجر کو یقین دلایا کہ اس کا بیٹا یہ پیغام پڑھتے ہی لوٹ آئے گا کیونکہ وہ تو کبھی ایک رات بھی اپنی ماں کے بغیر نہیں رہا۔ فیس بک پر بھیجے گئے پیغام کو دو ہفتے سے زائد گزر گئے لیکن فرحان زندہ واپس نہ پلٹا بلکہ ایک صبح اس کی لاش اس کے گھر پہنچ گئی۔
پولیس نے فرحان کے گھر اور گائوں کا مکمل محاصرہ کیا ہوا تھا اور دوسری جانب بھارتی میڈیا اور ریاستی ریڈیو بار بار یہ بریکنگ نیوز دے رہا تھا کہ کوکرناگ پولیس کے ساتھ مقابلے میں حزب المجاہدین کا دہشت گرد فرحان وانی ہلاک ہو گیا۔ فرحان وانی جسے بھارتی میڈیا حزب المجاہدین کا بہت بڑا جہادی مجاہد اور دہشت گر دکا خطاب دے رہا تھا وہ پندرہ سالہ لڑکا فرسٹ ایئر‘ سائنس کا ایک ہونہار طالب علم تھا جس کا جنگ و جدل اور لڑائی سے کبھی تعلق ہی نہیں رہا تھا۔ سبھی حیران تھے کہ فرحان جو چودہ جون کو سہ پہر کے وقت فزکس کی ٹیوشن کے لئے گھر سے نکلا تھا، اچانک کدھر غائب ہو گیا۔
حزب المجاہدین میں شامل ہونے کے بعد اس نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ ایک دوپہر جیسے ہی اپنے کالج سے واپس گھر کی جانب لوٹا تو اس کے گھر کے قریب ایک کہرام برپا تھا۔ معلوم ہوا کہ اس کے بچپن کے دوست مسعود‘ جو برہان وانی کی شہادت کے خلاف سکول اور کالج کے دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر بھارتی فوج کے ظلم و تشدد کے خلاف احتجاج میں شامل تھا، کے چہرے اور آنکھوں میں پیلٹ گن سے فائر کئے گئے کارتوس کے چھرے لگے ہیں اور اس وقت وہ ہسپتال میں داخل ہے۔ اس نے بستہ وہیں پھینکا اور ماں کی آوازوں کی پروا کیے بغیر ہسپتال کی جانب بھاگ اٹھا۔ ہسپتال میں جو منظر فرحان نے دیکھا تو خوف سے کانپ کر رہ گیا۔ اس کے دوست مسعود کے علاوہ وہاں دو درجن کے قریب سکولوں کے چودہ‘ پندرہ برس کے بچے موجود تھے اور سب کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹرز بتا رہے تھے کہ ان سب کی آنکھیں پیلٹ گنوں سے برسائے گئے کارتوسوں کے سبب مکمل طور پر ضائع ہو چکی ہیں اور اب وہ زندگی بھر کے لیے آنکھوں کی روشنی سے محروم ہو چکے ہیں۔ شدید غصے اور غم سے فرحان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑیاں بہنے لگیں وہ سوچنے لگا کہ ان سب کا قصور کیا تھا؟ کیا ان کے پاس اسلحہ تھا؟ کیا یہ بھارتی فوج پر فائرنگ کر رہے تھے؟ کیا یہ دہشت گرد تھے؟ کیا اس کا دوست مسعود اسے کبھی دیکھ نہیں سکے گا؟ وہ اس کے ساتھ کھیل بھی نہیں سکے گا؟ رات بھر فرحان وانی کے ذہن میں یہی سوال گونجتا رہا کہ اب اس کا دوست اور اس کے ساتھی‘ ساری عمر اسے نہیں دیکھ سکیں گے؟ ان کی عمر تو ابھی صرف چودہ پندرہ سال ہے، یہ اپنی باقی زندگی کس طرح بسر کریں گے؟ یہ کیسے تعلیم حاصل کریں گے؟ یہ کس طرح ان اونچی نیچی سڑکوں پر چلا کریں گے؟ جیسے جیسے وہ سوچتا گیا اس کا جسم غصے اور انتقام کی آگ سے شعلہ بن کر لال انگارے کی طرح دھکنا شروع ہو گیا۔ چودہ جون کی صبح وہ مسجد جا پہنچا۔ باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد کچھ دیر اس نے قران پاک کی تلاوت کی۔ مسجد میں بھی مسعود اور اس کے دوسرے ساتھیوں کے متعلق باتیں کی جا رہی تھیں۔ اس کی توجہ پوری طرح قران پاک پر مرکوز رہی، دیکھنے والے ایک لمحے کے لیے ٹھٹک جاتے کہ فرحان کو آج کیا ہوا ہے، اس کی شکل آج کچھ عجیب سے کیوں لگ رہی ہے؟ چودہ جون کو کالج جانے کی بجائے وہ قریبی علاقے لارنو چلا گیا۔ دوپہر کو وہ گھر آیا تو ماں کے کہنے پر اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی کھانا کھایا اور شام کو فزکس کی ٹیوشن پڑھنے کے لئے جب گھر سے نکلا تو پھر کبھی واپس نہ آیا۔ کوئی پندرہ دنوں بعد پولیس نے اس کے والدین سے پوچھ گچھ کرتے ہوئے بتایا کہ آپ کا بیٹا فرحان حزب المجاہدین میں شامل ہو چکا ہے اور وہ ہمیں زندہ یا مردہ‘ کسی بھی صورت میں مطلوب ہے۔ اور پھر 9 جنوری کی ایک شام‘ پولیس کی گاڑی میں فرحان کی لاش اس پیغام کے ساتھ واپس آئی کہ اسے لارنو کے علا قے میں کوکرناگ پولیس سے مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا ہے ۔
کپواڑہ کا رہائشی ریسرچ سکالر‘ منان وانی جو علی گڑھ یونیورسٹی سے اپلائیڈ جیالوجی میں PhD کر رہا تھا، کے والدین کو اپنے اس بیٹے سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ منان 2016ء میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں Water, Environment, Ecology and Society کے موضوع پر بہترین مقالہ تیار کرنے پر خصوصی ایوارڈ حاصل کر چکا تھا لیکن ایس ایس پی کپواڑہ شمشاد خان نے پانچ جنوری کو اس کے والد کو بلا کر بتایا کہ آپ کا بیٹا منان وانی حزب المجاہدین میں شامل ہو کر کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ منان کے بھائیوں اور اس کے والد بشیر احمد کے لئے یہ حیران کن اور نا قابل یقین اطلاع تھی۔ وہ تو ایک دن قبل سے اس بات پر پریشان ہو رہے تھے کہ منان کا موبائل بند کیوں جا رہا ہے۔ منان وانی نے وٹس ایپ پر اپنے پیغام میں صرف اتنا کہا ''پیلٹ گنوں سے معصوم اور نو عمر لڑکوں کی آنکھیں چھیننے والی بھارتی فوج سے جب تک پیلٹ گن کے ایک ایک چھرے کا حساب نہیں لوں گا، چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ میں اس معاشرے اور سوسائٹی میں کس طرح عزت اور سکون سے رہ سکتا ہوں جہاں ہر گلی میں ایک نوجوان اندھی آنکھوں سے یہی سوال کرتا نظر آئے کہ میرا قصور کیا تھا؟‘‘۔ منان وانی نے وٹس ایپ پر سوال پوچھا ''کشمیر کے علاوہ‘ بھارت کے اندر کیا شہری روزانہ جلوس اور مظاہرے نہیں کرتے؟ کیا ان پر بھی کبھی پیلٹ گنوں سے فائرنگ کی گئی ہے؟‘‘
پھر ماجد ارشاد خان کی خبر نے تو سب کو چونکا دیا تھا۔ وہ خبر کیا تھی ایک بم تھا کہ ''اننت ناگ کے 20 سالہ ماجد ارشاد خان‘ جو مقبوضہ جموں و کشمیر کا ٹاپ فٹ بالر تھا، نے ایک جہادی تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ ماجد ارشاد خان اننت ناگ ڈگری کالج میں سیکنڈ ایئر میں کامرس کا طالب علم تھا۔ اسے گزشتہ ایک ماہ سے اپنے بچپن کے جگری دوست یاور نثار کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کا غم کھائے جا رہا تھا۔ اس کے سامنے ہر وقت چالیس سے زائد گولیوں سے چھلنی‘ یاور کی نعش گھومتی رہتی اور جب اننت ناگ میں سکول اور کالج کی لڑکیوں کے جلوس پر پیلٹ گنوں سے بھارتی فوج نے فائرنگ شروع کی تو کشمیر کی مسلمان بیٹیوں کی چیخ و پکار اور خون میں لت پت جسموں کو بھارتی فوج کی جانب سے ٹھڈے مارے جانے کا منظر دیکھ کر ماجد ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا۔ ہر وقت انتقام‘ انتقام کی گونج ا س کے تن بدن میں گونجنے لگی اور پھر ایک شام وہ اپنے گھر‘ اپنے ماں باپ‘ اپنے بہن بھائیوں اور آرام و سکون کو خیر باد کہتے ہوئے ایک جہادی تنظیم میں شمولیت کی خاطر نکل پڑا۔ 
کشمیر میں آئے دن ہلاک کئے جانے والے ''دہشت گردوں‘‘ کی یہ کہانیاں پڑھتے ہوئے مجھے ان لوگوں کی باتیں یاد آ رہی ہیں جن کا خیال ہے کہ '' دہشت گرد ہمارے ادارے پیدا کرتے ہیں‘‘۔ میں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ فرحان وانی، منان وانی اور ماجد ارشاد خان... کیا ان سب کو ہمارے ادارے تیار کر کے مقبوضہ کشمیر میں بھیج رہے ہیں؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں