کابل کے شمشاد ٹی وی چینل پر پشتو بولنے والے انا ئونسر بریکنگ نیوز دیتے ہوئے بتا رہے تھے کہ بھارت کی افغانستان کو امداد کی صورت میں بھیجی جانے والی پندرہ ہزار ٹن گندم کے استعمال سے ہر دوسرے گھر کے افراد جلد اور پیٹ کے امراض میں مبتلا ہونا شروع ہو گئے ہیں اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ افغانستان کے ہسپتالوں میں علاج کیلئے آنے والے بچوں اور عورتوں سمیت مردوں کی ایک کثیر تعداد کا تانتا بندھنے لگا ہے۔ بہت سے بچے اور زیا دہ عمر کے افراد پیٹ کے امراض سے اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کے معدوں سے حاصل ہونے والی خوراک کا جب لیبارٹری تجزیہ کرایا گیا تو یہ ہولناک رپورٹ سامنے آئی کہ ان کو یہ بیماری کسی وائرس کی وجہ سے نہیں بلکہ بھارت سے حال ہی میں منگوائی جانے والی گندم کے آٹے سے تیار کی گئی خوراک کھانے سے ہو رہی ہے۔ شمشاد ٹی وی پر انا ئونسر اور اینکر بتا رہے تھے کہ جب اس گندم اور اس کی بنائی جانے والی روٹیوں کی لیبارٹری رپورٹس سامنے آئیں تو ایک لمحے کیلئے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ افغانستان سے دوستی اور محبت کا دم بھرنے والا بھارت اسی افغانستان کے عوام کے ساتھ اس طرح کی سفاکی اور بے رحمی کی ظالمانہ اور گھٹیا حد تک بھی جا سکتا ہے۔۔۔افغانستان کا شمشاد ٹی وی اور پھر بعد میں کابل نیو ز ٹی وی کے معروف اینکر غازی خیل سے بھارت کی اس گندم سے ہونے والی ہلاکتوں اور بیماریوں کی تفصیلات سنتے ہوئے خیال آیا کہ جس طرح آج کانریندر مودی اور اس کا انتہا پسندی کی آخری حد تک پہنچا ہوا بھارت کا انتہا پسند ہندو دنیا کے کسی بھی حصے میں بسنے والے مسلمان سے ہمدردی نہیں رکھ سکتا اسی طرح اسے افغانستان کے مسلمانوں سے ہمدردی کیسے ہو سکتی ہے ۔ کابل میں آزاد میڈیا کی یہ بات درست لگتی ہے کہ بھارت کو افغان عوام سے نہیں بلکہ افغانستان اور اس کی سرزمین سے محبت اور دلچسپی ہے اور وہ بھی ا س لئے کہ وہاں بیٹھ کر وہ بلوچستان سمیت پاکستان کے دوسرے علا قوں اور سنٹرل ایشیا کے مسلمانوں کے خلاف اپنے گھٹیا عزائم کی تکمیل کر سکے۔
27 اکتوبر2017 کو جب بھارتی گندم سے لد اہوا یہ بحری جہاز بھارت سے ایران کی بند رگاہ کے ذریعے چاہ بہار کی جانب بھیجا جا رہا تھا تو اس وقت اپنے کالم میں اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا تھا کہ چاہ بہار سے جب یہ گندم افغان کے سرحدی قصبے زارنج پہنچی تو کس طرح پُر جوش اور رنگا رنگ تقریب کے ذریعے بھارتی سفارت کاروں اور افغان حکومت نے اس گندم کو وصول کیا تھا۔۔۔۔اس تقریب سے ایک طرف بھارت افغانستان کو یہ پیغام دے رہاتھا کہ اسے اب پاکستان اوراس کی کراچی یا گوادر بند رگاہ کی کوئی ضرورت نہیں رہی اور مسلم دنیا پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے افغان عوام کی خوراک اور دیکھ بھال کا کس قدر احساس ہے جبکہ دوسری جانب وہ سی پیک سے ملحقہ گوادر بندر گاہ کے مقابلے میں دنیا کو بتا رہا تھا کہ گوادر کے مقابلے میں چاہ بہار بندرگاہ بہتر اور سب سے اچھی ہے۔ جب یہ گندم بھارت سے افغانستان بھیجی جا رہی تھی تو اس وقت بھارتی محکمہ خوراک کے حکام اور اس کی وزارت خارجہ کو بخوبی علم تھا کہ یہ گندم اس سٹاک سے افغانستان بھیجی جا رہی ہے جسے محکمہ صحت اور وزارت خوراک نے فلور ملوں اور دوسرے صوبوں کوفراہم نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے کیونکہ اس میں وہ گندم بھی شامل ہے جسے کسانوں کو ان کی پچھلے سال کی فصلوں کے بیج کیلئے گوداموں میں سٹاک کیا گیا تھا لیکن ہوا یہ کہ نریندر مودی نے چونکہ بھارتی کرنسی کے نوٹ تبدیل کر دیئے تھے اس لئے کسان کئی کئی ہفتے انہیں تبدیل کرانے کیلئے بڑے قصبوں اور شہروں میں دھکے کھاتے رہے اور اپنے پاس کرنسی نہ ہونے کی وجہ سے وہ وقت پر اس بیج کو خرید نہ سکے اور پھر اگلے سال یہی بیج اسی گندم میں شامل کر تے ہوئے29 اکتوبر کو بھارت کی مغربی بندرگاہ کنڈالہ سے چاہ بہار روانہ کر دیا گیا جہاں یہ یکم نومبر کو اتارنے کے بعد بڑے بڑے ٹرکوں اور ٹرالوں میں افغان صوبے نمروز روانہ کر دی گئی جہاں سے اسے افغانستان کے دوسرے حصوں میں بھیجا گیا اور جس کے استعمال سے وہاں جلد اور پیٹ کی بیماریاں پھیلنا شروع ہو گئیں ۔
بھارتی میڈیا کے مطا بق اس بیج میں شامل کی جانے والی گندم کی مقدار میں خرد برد کے متعلق بھارت کی وزارت زراعت اور محکمہ خوراک کے خلاف سی بی آئی با قاعدہ انکوائری کرنے جا رہی تھی کہ اچانک نئی دہلی سے حکم آ گیا کہ چاہ بہار بندر گاہ کے افتتاح کے موقع پر افغانستان بھیجنے کیلئے پندرہ ہزار ٹن گندم کا فوری طور پر بندو بست کیا جائے ۔۔۔اور وہ گندم جو زائد المیعاد اور گوداموں میں منا سب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے گھوڑوں سمیت دوسرے چوپائیوں کی خوراک کیلئے بھیجی جا رہی تھی اسے اچانک افغانستان کے مسلمانوں کی نسل ختم کرنے کیلئے منتخب کرلیا گیا ۔ جبکہ بھارت سے چاہ بہار بندر گاہ ایران کے ذریعے افغانستان کو یہ گندم بھیجتے وقت بھارت کے مشہور میڈیا گروپ زی نیوز نے افغان عوام کو خوش خبری دیتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ اب آپ گھبرائیں نہیں کیونکہ اب No Pakistan No Problem۔
اب افغانستان جیسا ملک جو ایک طرف تو دنیا بھر سے آنے والے دہشت گردوں اور نت نئی تنظیموں کے اڈوں میں تبدیل ہو چکا ہے تو دوسری جانب غیر ملکی فوجوں اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے۔ افغانستان کا ایک عام شہری بھی اب یہ سوچ رکھنے لگا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ امریکہ اور نیٹو اپنی بہترین فوج اور جدید ترین تکنیکی اور فوجی صلاحیتیں رکھتے ہوئے گزشتہ سولہ برسوں سے افغانستان کے عوام کو امن دینے میں نا کام ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ جو مزاحمت روس کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں افغان مجاہدین امریکہ کی مدد سے کر رہے تھے وہ تو اس طرح کامیاب ہو جاتی ہے کہ روس بکھر کر رہ جاتا ہے لیکن امریکہ اپنی پوری طاقت سے نیٹو اور ایساف کی مدد رکھنے کے با وجود ابھی تک افغانستان میں خود کو پھنسا ہوا ظاہر کر رہا ہے۔ اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ امریکہ اپنے خفیہ منصوبوں کی تکمیل کیلئے افغانستان کی سر زمین استعمال کرنا چاہتا ہے؟۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ بھارت کے ذریعے اس خطے میں کسی بہت بڑی تباہی کا پلان بنا رہا ہے؟۔ گوادر اور سی پیک سمیت بحر ہند میں اپنے جنگی منصوبوں کی تکمیل کیلئے وہ افغانستان پر قابض رہنا چاہتا ہے؟۔
بھارت، نیٹو اور امریکہ افغانستان سے دہشت گرد اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر وہاں اپنا کنٹرول کئے ہوئے ہیں لیکن انہیں یہ احساس نہیں کہ جہاں انہوں نے عرصہ دراز سے فوجی ڈیرے لگائے ہوئے ہیں وہاں رہنے والوں کو تعلیم اور صحت کی ضرورت بھی ہے۔ کیا امریکہ اور نیٹوکے لوگ نہیں جانتے کہ افغانستان کو خوراک کی سخت ضرورت ہے؟ کیا وہ اس سے بے خبر رہ سکتے ہیں کہ ان کی فصلیں عرصہ سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہیں اور وہاں کے عوام اس وقت سخت غذائی بحران کا شکار ہو چکے ہیں اور امداد کے اعلان پر بھارت نے جو گندم افغانوں کیلئے بھیجی ہے وہ بھارتی لیبارٹریوں نے جانوروں کیلئے مخصوص کر دی تھی ؟۔۔!!