ٹی وی چینلز دیکھتے ہوئے ہر ماہ ایک دو بار یہ خبر دیکھنے کو ملتی تھی کہ بنی گالہ میں تحریک انصاف کے میڈیا سیل کا ہنگامی مشا ورتی اجلاس بلایا گیا ہے۔ اس قسم کی خبروں سے ذہن میں آتا تھا کہ تحریک انصاف کا میڈیا سیل فعال ہے اور اس کے مرکزی قیا دت کے ساتھ باقاعدہ اجلاس بھی ہوتے ہیں ۔بعض اوقات ایسی خبریں بھی میڈیا میں آتی رہتی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کا میڈیا سیل انتہائی متحرک ہے۔
تحریک انصاف اسلام آباد کے مرکزی میڈیا سیل کو میاں شہباز شریف کے عمران خان کے خلاف کے پی کے میں ایک میگاواٹ بھی بجلی پیدا نہ کرنے جیسے طنزیہ فقروں کی جانب توجہ دلاتے ہوئے فون پر استفسار کیا کہ آپ کے پاس اگر اس سلسلے میں کوئی تفصیلات ہیں تو براہ کرم مجھے مہیا کر دیں جس پر مجھے جواب دیا گیا کہ ہمارے پاس تو معلومات نہیں ہیں، ہم کے پی کے میں تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات سے رابطہ کرنے کے بعد آپ کو کچھ بتا سکیں گے یا ہو سکتا ہے کہ وہ خود ہی آپ کو کچھ بتا دیں ہم انہیں آپ کا نمبر دے دیں گے۔۔۔اس اطلاع کا میں انتظار کر تا رہا اور پھر دو دن بعد ان کے موبائل پر دوبارہ فون کیا تاکہ انہیں یاد کرا دوں لیکن جواب دینا تو درکنار انہوں نے میرا فون سننا بھی گوارا نہ کیا جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ جب ہمیں کوئی پروا نہیں تو پھر یہ کہاں سے آ گیا عمران کا ہمدرد۔
میرے پاس میاں شہباز شریف کے ان الزامات کے جواب میں کچھ معلومات تو تھیں لیکن میرا اصول ہے کہ جب تک کسی چیز کی تصدیق نہ ہوجائے اسے اپنے کسی بھی مضمون کا حصہ نہ بنائوں، اسلام آباد سے مایوس ہونے کے بعد لاہور گارڈن ٹائون میں علیم خان کی جانب سے میڈیا سیل میں مقرر کئے گئے ایک بڑے عہدے پر فائز صاحب کو فون کیا تو ان کا رویہ اسلام آباد جیسا ہی تھا۔ مجھے افسو س بھی ہوا کہ ایسا سلوک تو ان سے بھی نہیں کیا جاتا جو ادھار مانگتے ہیں ۔ مجھے دکھ اور تکلیف یہ نہیں کہ مجھے معلومات کیوں نہیں دی گئیں یا میرا فون کیوں نہیں سنا گیا بلکہ دکھ صرف یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو تحریک انصاف اور عمران خان کے نظریئے سے ہمدردی رکھنے والوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کیلئے کیوں مسلط کیا گیا ہے؟۔ کیا تحریک انصاف نہیں جانتی کہ ان کے مخالف کیمپوں میں بیٹھے ہوئے اپنے حق میں لکھنے اور بولنے والوں کیلئے انعام و اکرام کا ڈھیر لئے بیٹھے ہیں اور میرے بارے میں تو تحریک انصاف والوں کو اچھی طرح علم ہے کہ وہ مجھے اپنی دس تقریبات میں بلاتے ہیں تو میں بمشکل ایک آدھ میں ہی شرکت کرتا ہوں۔ میں کبھی ان کے کھانوں اور دعوتوں کا مہمان بننے کا شوق نہیں رہا اور نہ ہی میرے پاس اتنا وقت ہے لیکن ''میری تحریروں کی کاٹ سے مرکز اور جاتی امرا کا میڈیا سیل بخوبی واقف ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ میں نے ان کی کون کون سی پیشکش ٹھکرائی ہے۔
آج جب یہ لکھ رہا ہوں تو مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کے یہ عہدیدار عمران خان کے نظریئے کی بے لوث حمایت کرنے والوں کو شائد اپنا غلام اور تنخواہ دار ملازم سمجھتے ہیں یا یہ سمجھتے ہوں گے کہ یہ عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں ہماری تو نہیں۔ صرف میں ہی نہیں بلکہ بہت سے بڑے مشہور اور نام والے صحافی بھی کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ عمران خان اپنے دائیں اور بائیں کندھے کی جانب نظر دوڑائیں اور غور کریں کہ یہ کون ہیں جو اس کے پر خلوص دوستوں اور ہمدردوں کو ایک ایک کر کے ان سے دور کئے جا رہے ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ یہ رویہ بہت پرانا ہے۔ تحریک انصاف کی اٹھان کے بعد اس کے اردگرد ایسے لوگوں نے گھیرا ڈال لیا ہے جس سے یہ جماعت بھی روایتی جماعتوں کی طرح بنتی دکھائی دیتی ہے۔ اس میں قصور عمران خان کا کتنا ہے اس کے بارے میں ‘ میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اس کی ذمہ داری بہر حال انہی پر عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ تحریک انصاف کی پہچان انہی کی وجہ سے ہے ۔کیا انہوں نے کبھی چند سینئر صحافیوں کو ٹی وی پر یہی شکوے کرتے نہیں سنا کہ عمران خان کے اردگرد جمع بڑے بڑے کچھ نام ایسے ہیں جو میاں نواز شریف کے وفادار ہیں۔ بد قسمتی سے تحریک انصاف کے ہمدردوں اور بے لوث کارکنوں کے ساتھ بھی وہی المیہ ہے جو پیپلز پارٹی کا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب سیا ست میں قدم رکھا تو پاکستان کے شہروں کی گلیوں سے لے کر تحصیلوں ، قصبوں اور دیہات، چکوک اور گوٹھوں میں ایسے ایسے لوگ بھٹو کے نظریئے کیلئے جی جان سے بے لوث ہو کر کام کرنے لگے کہ کل کا بھٹو‘ پھر اس کی بیٹی اور آج کے بلا ول نے ان کی شکلیں بھی نہیں دیکھی ہوں گی۔ یہ کبھی چہرہ دکھانے یا قریب کھڑے ہو کر نعرے لگانے کی بجائے دل جمعی سے بھٹو کی سوچ سے پیار کرتے رہے‘ ا س کیلئے جیلیں کاٹتے رہے‘ اس کی خاطر اپنی جانوں سے کھیلتے رہے لیکن بھٹو اور اس کی بیٹی سمیت بلا ول سے دغا نہیں کیا۔ وہ آج بھی گڑھی خدا بخش میں دفن بھٹو کے سپاہی ہیں انہیں کوئی لے کر نہیں آتا وہ خود ہی وہاں پہنچتے ہیں جہاں کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہوتا اور یہی حال تحریک انصاف کا ہے کسی دفتر، کسی فیکٹری، کسی مارکیٹ کسی سکول اور کالج، کسی کھیت اور کسی بھی دکان پر بیٹھے یا روزگار کی تلاش میں دن رات بسوں اور سڑکوں پر دھکے کھانے والا نوجوا ن سوشل میڈیا پر عمران خان کیلئے دیوانہ وار لڑ تا نظر آتا ہے۔ اس کے دفاع میں اپنی جیب سے خرچ کر تا ہے، ا س کے جلسوںا ور جلوسوں میں اپنے اخراجات پر شرکت کرتا ہے۔ اسے یہ لالچ نہیں کہ وہ عمران خان کے پاس یااس کے ارد گرد منڈلائے۔۔کیونکہ جو شخص ہر وقت اپنی سیا سی جماعت کے مرکزی لیڈر کے ارد گرد سایہ بن کر پھرتا ہوا نظر آئے سمجھ جایئے کہ اس کے اصل مقاصد کیا ہیں۔
اکثر لکھنے والوں کے ساتھ ایک المیہ ہوتا ہے کہ لوگ ان کی تحریروں اور خیالات سے یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں بلکہ اگر کھل کر کہیں تو اپنا پختہ یقین بنا لیتے ہیں کہ جس کی تعریفیں کر رہا ہے جن کی حمایت کر رہا ہے یہ اس کا خاص بندہ ہے یا پتہ نہیں اس کے کس قدر قریب ہو گا اور لازمی یہ لوگ اس کا پیٹ بھی بھرتے ہوں گے اور میڈیا کے ساتھ یہ تہمت ہر وقت جڑی رہتی ہے ذرا کسی کے بارے میں لکھنا شروع کیا تو ساتھ ہی لفافہ صحافی کا تھپڑ برسنا شروع ہو گیا۔۔۔میرے کچھ مخصوص ناقدین میری تحریروں پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے دو ہی الزامات لگاتے ہیں '' عمران کا لفافہ اور فوج کا پٹھو‘‘ کیونکہ اپنی تحریروں میں افواج پاکستان کے ساتھ محبت کا سمندر ہوں تو بھارت اس کی فوج اور نریندر مودی کے خلاف ننگی تلوار ہوں۔ میرا قلم اور ذہن با لکل اسی طرح اپنے وطن اور اس کی مسلح افواج کے تحفظ کیلئے موج زن رہتا ہے جس طرح بھارت کے ٹی وی چینلز اور اخبارات کے صحافی پاکستان کے خلاف ہر وقت لٹھ لئے پھرتے ہیں ۔جن کو بھارت کے اخبارات اور ان کے ہر زبان میں کام کرنے والے الیکٹرانک چینل دیکھنے اور سننے کا موقع ملتا ہے وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ کس طرح پاکستان کے تشخص کو بد نام کرنے کیلئے بھارت کا میڈیا ایک قومی خدمت سمجھتے ہوئے دن رات ایک کئے رکھتاہے۔ بالکل اسی طرح اپنے ہی ملک کی فوج کیلئے اچھے جذبات اور سوچ رکھنے پر مجھے اس ادارے سے وابستہ کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ نہ مجھے بلایا جاتا ہے اور نہ ہی میں ایک عرصہ سے اس ادارے کی پریس کانفرنسوں میں جا سکا ہوں۔ پاکستان کے اندر اور باہر میرے پڑھنے والے یہ سن کر یقینا حیران رہ جائیں گے کہ اپنے ملک کی فوج کی سپورٹ میں لکھنے کے اسی جذبے کی طرح میں عمران خان کی اچھی باتوں اور کاموں کی بھی حمایت کرتا آ رہا ہوں لیکن میرے ساتھ نہ جانے کیوں ایسا رویہ روا رکھا جا رہا ہے؟