"MABC" (space) message & send to 7575

بھارت کا جوابی وار

روزنامہ دنیا کی27 جنوری کی اشاعت میں بھارتی لیبارٹریوں کی جانب سے سٹاک میں رکھی جانے والی گندم کے نمونے انسانی صحت کیلئے ناقص قرار دیئے جانے کی رپورٹ جاری ہونے کے با وجو د اس میں سے پندرہ ٹن گندم افغانستان کو چاہ بہار بندر گاہ کی افتتاحی تقریب میں بطورتحفہ بھیجی گئی ‘وہ گندم اور اس سے بنائی جانے والی بیکری مصنوعات کے استعمال سے افغانستان کے متعدد صوبوں میں پیٹ اور معدے کی بیماریاں پھیل جانے پر چھ دن ہوئے روزنامہ دنیا میں شائع میر امضمون افغانستان میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو نے لگا جس پر بھارت کی پریمیئر خفیہ ایجنسی راء نے پاکستان پر اپناجوابی وار کرنے کا فیصلہ کر لیا اور پھر کابل میں بھارتی سفارت خانے اور افغانستان بھر میں جگہ جگہ کھمبیوں کی صورت میں اُ گے ہوئے اس کے قونصل خانے حرکت میں آ گئے جنہوں نے افغان حکومت کے اندر اپنی مضبوط لابیوں کو استعمال کرتے ہوئے وزارت داخلہ افغانستان کی جانب سے جاری کیا جانے والا ایک سرکاری نوٹیفکیشن سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرا دیا کہ پاکستان سے بھیجی گئی سبزیاں اور ڈیری مصنوعات استعمال نہ کی جائیں کیونکہ یہ صحت کیلئے نقصان دہ ہیں۔
افغانستان کی وزارت داخلہ نے اپنے ایک حکم نامے کے ذریعے افغان شہریوں کو خبردار کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ وہ'' پاکستان سے در آمد کردہ ڈیری پراڈکٹ استعمال نہ کریں‘‘ افغان حکومت کی بھارت کے سامنے بے بسی دیکھئے کہ کسی بھی قسم کی لیبارٹری رپورٹس یا محکمہ خوراک سے ان کا لیبارٹری نتیجہ لینے کی بجائے بھارت کا وہی گھساپٹا طریقہ استعمال کیاگیا ہے کہ '' پاکستان کی آئی ایس آئی نے ان ڈیری مصنوعات میں زہر شامل کرا دیا ہے تاکہ اسے استعمال کرنے والے افغان عوام ہلاک ہو جائیں؟‘‘افغان عوام نے بھی جب یہ حکم نامہ اور پھر سینہ بہ سینہ چلنے والی اس رپورٹ کو سنا تو وہ بھی حیران رہ گئے کہ آئی ایس آئی یا پاکستان کو افغان عوام کو مارنے کی کیا ضرورت ہے جو گزشتہ چالیس برسوں سے لاکھوں افغانوں کو اپنے ہاں پناہ دیتے ہوئے ان کیلئے ہر قسم کی خوراک اور پانی کی ذمہ داریاں نباہ رہا ہے؟۔اگر پاکستان نے افغان عوام کو زہریلی خوراک ہی کھلانی تھی تو اسے اتنے سال انتظار کیوں کرنا تھا وہ یہاں موجود افغانوں کو ہی زہریلی خوراک دینا شروع کر دیتا۔۔ بھارت کے کہنے پر افغانستان کی اس حرکت پر جب تحقیق کی گئی تو بھید کھلا کہ کیونکہ افغانی مسلمان کٹر قسم کے مسلمان ہیں اس لئے وہ پاکستان سے آنے والی ڈیری مصنوعات اور دوسری اشیائے خورونوش کو اس لئے سب سے زیا دہ پسند کرتے ہیں کہ یہ سب '' حلال ہوتی ہیں‘‘۔لیکن بھارت چونکہ عرصے سے اس کوشش میں تھا کہ افغانستان میں اپنی ڈیری پراڈکٹس کی مارکیٹ بڑھا سکے لیکن اس کی مصنوعات پر حلال لکھے جانے والے سرٹیفکیٹ نہیں ہوتے اس لئے اعتماد اور یقین کی کمی افغانیوں کو بھارت کی ڈیری مصنوعات کی جانب راغب نہیں ہونے دیتی۔
جیسے ہی افغان عوام تک یہ خبریں پہنچیں کہ افغان صدر اشرف غنی کے صدارتی محل کے باورچی خانے میں ان کی عیسائی نژاد بیگم کی وجہ سے حلال اور حرام کی تمیز نہیں کی جا رہی تو افغان عوام کی نظروں میں ان کا ہر فعل دن بدن مشکوک ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اشرف غنی کے امریکی شہریت رکھنے والے بیٹے طارق غنی اور مریم غنی آج کل سوشل میڈیا پر اسلام کی بجائے صلیبی جنگوں کے گن گاتے نظر آ رہے ہیں شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ اشرف غنی کی بیگم کا تعلق ایک کٹر کیتھولک عیسائی فرقے سے ہے اور ان کے بارے میں تو کسی کو ذرا برا بر بھر بھی شک نہیں کہ وہ عیسائیت کے پرچار میں مصروف ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی نے ابتدا میں اس خبرپر پردہ ڈالنے کی کافی کوششیںکی لیکن افغان صدارتی محل سے یہ خبریں متواتر نکلنا شروع ہو گئیں کہ بیگم غنی کی ہدایت پر محل کے ایک حصے کو 
باقاعدگی سے چرچ کی حیثیت دے دی گئی ہے ۔جیسے ہی یہ خبر یںباہر آئیں افغان علماء نے اس پر شور مچا دیا اور ابھی ایک ماہ پیشتر29 دسمبر کو شمالی افغانستان سے تعلق رکھنے والے علماء کی ایک کثیر تعداد نے جو اس وقت کابل میں مقیم ہے افغان صدر اشرف غنی کی اسلام دشمنی اور سیکولر رحجانات پر اس کے خلاف فتویٰ جا ری کیا ہے جس کا باقاعدہ اعلان جمعۃ المبارک کے موقع پر کابل کی مساجد میں کیا گیا۔اشرف غنی اور اس کی پشت پر کھڑی ہوئی بھارتی حکومت نے اشرف غنی کے خاندان کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ علماء کے اس فتوے کے پیچھے پاکستان کی آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔۔۔اب عقل کے اندھوں اور گوئبلز سے کوئی پوچھے کہ افغان صدر کی بیوی شہنشاہ اکبر کی جودھا بائی کی طرح کھلم کھلا صدارتی محل افغانستان میں چرچ بنائے بیٹھی ہے کیا اس کی ترغیب اسے پاکستانی اداروں نے دی ہے؟۔ 
بیگم اشرف غنی جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ کٹر کیتھولک عیسائی ہے کیا اس کی شادی آئی ایس آئی نے اشرف غنی سے کرائی تھی؟۔ اشرف غنی کی بیٹی مریم اور بیٹے طارق غنی کے پاس امریکی شہریت ہے اور وہ افغانستان کے نہیں بلکہ امریکی شہری ہیں۔۔تو کیا انہیں یہ امریکی شہریت آئی ایس آئی کی سفارش پر ملی ہے؟۔ مریم اور طارق غنی اپنی ماں کی تعلیمات کے مطا بق اسلام سے دور اور عیسائیت کے قریب ہیں اور میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان کے عیسائیت کے پرچار کے ثبوت ہر کھلی آنکھ سے دیکھے جا رہے ہیں تو کیا ان سے یہ اسلام مخالف پوسٹ آئی ایس آئی اپ لوڈ کرا رہی ہے؟۔تاریخ واضح ہے کہ افغانستان میں تو آج تک دنیا کی طاقتورحملہ آور فوجیں اسلا م کے مقابلے میں اپنے نقش نہیں گاڑ سکیں تو عیسائیت کی تبلیغ میں مصروف اشرف غنی اور ان کی فیملی کس طرح صدارتی محل میں بیٹھ کر عیسائیت اور سیکولر ازم کا پرچارکر سکتے ہیں؟۔ 
نریندر مودی اور اشرف غنی کے بڑھتے ہوئے رومانس کے پیچھے بھی اشرف غنی کی بیگم کا ہاتھ ہے اور اس کی بنیادی وجہ دونوں میں حلال و حرام اشیائے خوردنی کی تمیز کا نہ ہونا بتایا جا رہا ہے۔ افغانستان پر قابض غیر ملکی فوجوں کیلئے جس طرح خوراک میں حلال و حرام کی کوئی قید نہیں اسی طرح اسے افغان عوام کی فلاح اور امن سے رتی بھر دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ تو چاہتے ہیں کہ افغانستان میں آگ و خون کا یہ لاوا اور بھڑکے اور اس کیلئے امریکہ نے دور بیٹھے ہوئے بھارت کو علاقے کا تھانیدار بناتے ہوئے افغانستان کے اندر لا کر بٹھادیا ہے تاکہ کسی صورت بھی یہاںامن کی شمع روشن نہ ہوسکے۔اور امریکہ کے سونپے گئے اس مقصد میں بھارت اس طرح کامیاب ہو رہا ہے کہ کوئی دن نہیں گزرتا جب کابل سمیت افغانستان میں آگ اور خون کی بارش نہیں ہوتی۔۔۔اور اس آگ میں مرتے کون ہیں دونوں طرف کے مسلمان جس سے امریکی بھی خوش اور بھارت بھی خوش ۔
جیسے ہی بھارتی گندم کے دو برسوں سے پڑے ہوئے بیج اور گزشتہ کئی سالوں کے سٹاک کی افغانستا ن کو ہنگامی طور پر بھیجنے کی خبر باہر نکلی اور پھر بھارت کو دو اخبارات نے یہ تفصیل بھی دے دی کہ کس طرح اس گندم کو گھوڑوں اور خچروں کی خوراک کے استعمال کیلئے مخصوص کرنے کی سمری سامنے آگئی ۔۔۔اور پھر جوں جوں افغان عوام بھارتی گندم کے استعمال سے بیمار ہونا شروع ہو گئے جب ہسپتالوں اور دیہی علاقوں کی ڈسپنسریوں میں پیٹ اور معدے کے امراض میں مبتلا بچوں اور بوڑھوں کے تانتے بندھنے لگے تو متعلقہ ڈاکٹروں کی تحقیق سے ایک ہی بات سامنے آئی کہ یہ لوگ کل تک بالکل صحیح اور تندرست تھے لیکن جب سے بھارت کی بھیجی گئی گندم اور اس سے تیار کردہ بیکری مصنوعات استعمال کی ہیں ان کی یہ حالت ہو رہی ہے ۔۔مگر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس گندم کی لیبارٹری رپورٹ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے علم میں نہیں ہے ؟۔۔!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں