ہمارے کچھ دانشور اور لبرل ناک بھوں چڑھانا شروع ہوجاتے ہیں کہ ہر سال پانچ فروری کو کشمیر پر احتجاج کیوں کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر یہ تعطیل ختم کر دیں گے لیکن اسٹبلشمنٹ کے آگے وہ کامیاب نہ ہو سکے ۔ ایمنٹسی انٹرنیشنل نے حال ہی میں ایک پوسٹ کارڈ مہم کا آغاز کرتے ہوئے دنیا بھر سے اپیل کی ہے کہ کشمیر کی تمام سکیورٹی فورسز اور مودی حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ کشمیری مظاہرین کے خلاف پیلٹ گنوں کا استعمال نہیں کرے گی جس کا جواب بھارت نے ان الفاظ میں دیا Why Kill Them Quickly When we Can Give Them A Slow, Painful Death. اور یہ وہی سبق ہے جو نریندر مودی کو دورہ اسرائیل کے دوران نیتن یاہو نے یاد کراتے ہوئے کہا کہ جس طرح ہم غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ربڑ کی گولیاں اور پیلٹ گنیں استعمال کرتے ہیں آپ کشمیریوں کے خلاف بھی یہی طریقہ استعمال کریں۔
ہر سال پانچ فروری کو پاکستان سمیت دنیابھر میں نکالی جانے والی ریلیوں، سیمیناروں کے ذریعے اقوام عالم سمیت عالمی ادارے کو یہ یاد دلانا مقصود ہوتا ہے کہ کشمیریوں سے کیا گیا تمہارا وہ وعدہ کہاں گیا جو تم سب نے اقوام متحدہ کی چھت تلے بیٹھ کر کیا تھا ۔وہ وعدہ اور اس کا قرض تم پر آج بھی واجب الادا ہے جب رنگ ونسل اور مذہب کے فرق کے با وجود تم سب نے اپنے اپنے عقیدوںکو گواہ بنا کر کشمیریوں کیلئے آزادانہ رائے شماری کی قرار داد منظور کی تھی۔ تمہاری قرار دادمنظور کرنے کے بعد سے اب تک بھارت ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کا خون پی چکا ہے۔ پچاس ہزار سے زائد کشمیری بیٹیاں بھارتی فوج کے درندوں کی ہوس کا شکار ہو چکی ہیں اور تم سب ہیومن رائٹس کے ڈھول بجانے والوں کو نہ ان کی حالت پر ترس آیا اور نہ ہی پیلٹ گنوں سے بینائی سے محروم کئے جانے والے ایک ہزار سے زائد بچے تمہاری ممتا اور شفقت کو متا ثر کر سکے ۔ تمہیں صرف بلوچستان بے چین کرتا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کے وہ ہزاروں نوجوان کیوں نظر نہیں آتے جنہیں اپنوں سے بچھڑے کئی سال ہونے کو ہیں؟۔
آج مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بر بریت کی انتہا صاف بتا رہی ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس مقبوضہ علاقوں کی مذہبی شناخت کو بتدریج تبدیل کررہی ہے وہ ریاست کشمیرکیDemographic Engineering کیلئے خصوصی کوششوں میں مصروف ہیں ۔مختلف شہروں میں ان ہندو پنڈتوں کیلئے زمینوں کی الاٹمنٹ جو وادی سے نقل مکانی کر گئے تھے اور ان کو مخصوص علا قوں میں فوج کی نگرانی میں دوبارہ آباد کرنے کیلئے فی پنڈت بیس لاکھ روپے کی ادائیگیاں صرف اس لئے کی جا رہی ہیں تاکہ وہ مقبوضہ کشمیر کے ایسے انتخابی حلقوں میں بسائے جائیں جہاں ہندو ووٹرتعداد میں کم تھے صحت، تعلیم، لوکل انفراسٹرکچر، سوشل سپورٹ اور دیہی ترقیاتی کاموں کیلئے کشمیری آبادیوں کو بھارتیہ جنتا پارٹی کےMLAs کا محتاج کر دیا گیا ہے تمام اہم پراجیکٹس کی منظوری اس کے اعلانات اور تیاری صرف ان علا قوں میں کئے جا رہے ہیں جہاں ہندو ووٹرز کی اکثریت ہے یا جہاں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ کامیاب ہوتے ہیں تاکہ وہاں کے ہر فرد تک یہ بات واضح ہو کر پہنچ جائے کہ صرف انہی علا قوں اور لوگوں کی بہتری کیلئے فنڈز خرچ ہوں گے جن کی وفاداریاں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ہوں گی۔
اس قسم کے ہتھکنڈوں سےBJP ریا ستی اسمبلی کے اگلے انتخابات میں اپنی 4 4+ کی دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کا دیرینہ خواب دیکھ رہی ہے ۔سب سے بڑی جمہوریت ، آئین اور قانون کا خود کو چیمپئن کہلوانے والے بھارت کا اپنا یہ حال ہے کہ نہ تو وہ مقبوضہ کشمیر کی ہائیکورٹ کی جانب سے بھارتی آئین کے آرٹیکل370 کی تشریح کو مانتا ہے اور نہ ہی ہائیکورٹ کی جانب سے کشمیری رہنما مسرت عالم کی ضمانت منظور کئے جانے کے با وجود اسے رہا کرنے کی کوشش کرتا ہے اس طرح مودی حکومت شائدیہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ اس کے حکم کے آگے ہائیکورٹ کے دیئے جانے والے فیصلوں کی وقعت جوتی کی نوک کے برا بر بھی نہیں ۔ بھارت کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹادے لیکن کشمیرکے لاکھوں بیٹوں اور بیٹیوں کی آئے دن دی جانے والی قربانیاں اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
پاکستان کا یہ اصولی موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیری عوام کو حق خود ارادیت کے سوا کچھ نہیں، کشمیریوں نے تو آزادی کی جدوجہد اسی روز سے شروع کردی تھی جب انگریز نے گلاب سنگھ کے ساتھ بدنام زمانہ ''معاہدہ امرتسر‘‘ کے تحت16 مارچ 1846ء کو کشمیر کا 75لاکھ روپے نانک شاہی کے عوض سودا کیا تھا۔ 1946ء میں قائد اعظم نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سرینگر کا دورہ کیا جہاں قائد کی دور اندیش نگاہوں نے پہچان لیا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ کے مترادف ہے ۔ شیخ عبداللہ کے اندرا گاندھی کے ساتھ معاہدہ دہلی کے بعد کانگریس نے بغیر کسی الیکشن کے شیخ عبداللہ کو سری نگر کے تخت پر مسلط کر دیا تو 25 فروری 1975ء کو پاکستان نے آزاد کشمیر و مقبوضہ جموں کشمیر میںمکمل ہڑتال کی کال دے دی۔ اس تا ریخی ہڑتال نے سری نگر کے لال چوک میں کشمیری عوام کا من پسند سبز ہلالی پرچم لہرادیا۔ اس ہڑتال کے جواب میں بھارت نے 4 اور13 مارچ 1975ء کو بالترتیب بھارتی لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے شیخ عبد اﷲ سے کئے جانے والے معاہدہ کی توثیق کروالی جس پرپاکستان نے اقوام متحدہ سے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مندرجات کی خلاف ورزی ہے۔جب ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کیا گیا تو تمام کشمیری سیاسی جماعتوں نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم مسلم متحدہ محاذ کے ذریعے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ۔مسلم متحدہ محاذ کے راہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ وہ الیکشن جیت کر ہندوستان کے ساتھ الحاق کی اس قرار داد کو ریاستی اسمبلی میں نامنظور قرار دیں گے۔ 23 مارچ 1987ء کو ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کی واضح اور فیصلہ کن فتح کو دھونس اور دھاندلی کے ذریعے شکست میں تبدیل کرکے ہندوستان نے کشمیری عوام کی پرامن ذریعے سے تبدیلی لانے کی خواہش کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کردیا۔ یہی وہ نقطہ آغاز تھا کہ جمہوری طریقے سے جدوجہد کرنے والے اور انتخابات جیتنے والے مایوس ہو کر مسلح جدوجہد شروع کرنے پر مجبور ہوگئے۔ 1989میں جب کشمیری حریت پسندوں نے ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور اقوام متحدہ کی بے حسی سے مجبور ہوکر مسلح جدوجہد کا فیصلہ کیا تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ آنے والے برسوں میں کشمیری عوام اس طرح ان کے سامنے کھڑے ہوں گے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان نواز سیاسی قوتوں کو اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ کسی کو یہ اندازہ تک نہیں تھا کہ کہ کشمیری عوام کی جدوجہد کے نتیجے میں کشمیر کے انتظامی ‘ سیاسی اور سماجی ڈھانچے کی بلند و بالا عمارت انہی قوتوں پر آگرے گی۔ 5 فروری1989ء کو حکومت پاکستان نے باقاعدہ یوم یکجہتی کشمیر منانے کا فیصلہ کیا۔ اس دن آزاد و مقبوضہ کشمیر سمیت ‘ پاکستان کے کروڑوں اور دنیا بھر میں 15 لاکھ سے زائد کشمیری تارکین وطن یوم کشمیر اس عزم کے ساتھ مناتے چلے آ رہے ہیں کہ آزادی کے حصول تک یہ جدو جہد جاری رہے گی۔ ۔۔!!