"MABC" (space) message & send to 7575

رحمت با با کے نام

ہسپتالوں کے ہر وارڈ میں داخل ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کے بیڈز اور تمام آپریشن تھیٹرز کی استعمال شدہ چادروں کو اگر ایک ساتھ ملا کر دھویا جائے اور پھر وہی چادریں ہسپتالوں میں بار بار استعمال ہوتی رہیں تو سوچ سکتے ہیں کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے؟۔ ہوتا بھی یہی ہے کہ وہی چادریں دھونے کے بعد ہسپتال کے مختلف وارڈوں میں دوبارہ بھیج دی جاتی ہیں اور پھر تھوڑے عرصے بعد ان چادروں کو پھر سے لانڈری کیلئے بھیجا جاتا ہے اور ہر مرتبہ تپ دق اور ہیپاٹائٹس سی کی آخری سٹیج سمیت مختلف امراض میں مبتلا مریضوں کے بیڈز اور آپریشنز تھیٹرزکی ان چادروں کو دھونے والی بڑی بڑی مشینوں میں ایک ساتھ ڈالاجائے گا تو پھر سوچئے کہ ان چادروں کو استعمال کرنے والے مریض کس قسم کے خطرناک ا مراض کا شکار ہوں گے؟۔ ایک محتاط اندازے کے مطا بق سرکاری ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کی 80 فیصد کے قریب تعداد ایسے مرد وخواتین کی ہوتی ہے جن کا تعلق مزدور یا غریب طبقے سے ہوتا ہے، ان میں سے اکثریت صاف پانی نہ ملنے سے ہیپا ٹائٹس کا شکار ہوتے ہیں اور جس قسم کا پانی لاہور کی پچاس فیصد سے زائد آبادی استعمال کر رہی ہے اگر اس کا سلسلہ چند سال اور جاری رہا تو کہا جاتا ہے کہ نوے فیصد گھر ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہو جائیں گے‘ اس وقت لاہور کے علا وہ قصور، کھڈیاں، شیخوپورہ اور شاہدرہ، کاہنہ، نشتر کالونی سمیت لاہور کی ملحقہ آبا دیاں صاف پانی نہ ملنے سے سنگین بیماریوں کا شکار ہوتی جا رہی ہیں‘ قصور اور کھڈیاں یا اس سے ملحقہ علا قوں کے لوگ ملازمت کیلئے سرکاری یاکسی اچھی کمپنی میں تمام مراحل مکمل کرنے کے بعد میڈیکل کرانے جاتے ہیں تو ان کے سامنے رپورٹ رکھ دی جاتی ہے کہ آپ ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں۔ اب ایک طرف وہ آلودہ پانی ہے جو ہیپاٹائٹس کا سبب بن رہا ہے تو دوسری طرف غضب خدا کا ہسپتالوں میں آنے والے مختلف قسم کے مریضوں کے خون سے لتھڑی ہوئی چادریں بار بار ایک ساتھ ہی دھوئی جاتی ہیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا میو ہسپتال لاہور کا دورہ اگر چہ بہت سی جبینوں کو شکن زدہ کر گیا جس کا درد وہ ابھی تک محسوس کر رہے ہیں اوریہ وہی لوگ ہیں جو '' سموسہ ایکشن‘‘ پر تو واہ واہ کے ڈونگرے برسا تے نہیں تھکتے تھے لیکن اب انہیں دکھ ہو رہا ہے کہ میاں ثاقب نثار دل کے بائی پاس آپریشن کیلئے استعمال ہونے والے جعلی سٹنٹ کی جگہ اصلی سٹنٹ استعمال کرنے کا حکم کیوں دے رہے ہیں؟۔ انہیں اس بات کا دکھ کھائے جا رہا ہے کہ وہ سٹنٹ جس کے ہم ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے مریضوں سے وصول کیاکرتے تھے وہ اب چند ہزار روپے تک کیوں مقررکیا جا رہا ہے؟۔
حکمران ''بابا رحمت‘‘ کی میو ہسپتال آمد پر جتناچاہیں شور مچائیں لیکن عوام الناس کیلئے ان کا یہ دورہ باعث رحمت بن گیا ہے کیونکہ ان کی آمد سے اب تک میو ہسپتال میں آنے والے مریضوں کی مشکلات میں کمی واقع ہو نا شروع ہو گئی ہے۔ لاہور اور اس کے گردو نواح کے ہزاروں لوگ ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں اور اگر اس پر کنٹرول کرنے کیلئے جلد ہی موثر اقدامات نہ کئے گئے تو یہ تعداد دن بدن بڑھتی جائے گی ۔۔ جیساکہ اپنے مضمون کی ابتدا میں '' ہسپتالوں کے بستروں کی چادروں‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہم میں سے کسی نے کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں لانڈری کا کیا سسٹم ہے؟۔ میں صرف لاہور کے ایک بہت بڑے ہسپتال کا ذکر کرتے ہوئے یقین سے کہہ رہا ہوں کہ اس میں لانڈری کا ان کا اپنا اندرونی کوئی انتظام نہیں اور مختلف امراض میں مبتلا مریضوں کے زیر استعمال رہنے والی ہسپتال کی تمام چادریں جن میں اکثرآپریشن کے دوران خون اور گوشت کے لوتھڑوں کی وجہ سے خون آلود اور گندی ہوجاتی ہیں ان کی لانڈرنگ کیلئے ٹھیکہ سسٹم کیا ہوا ہے۔ میں نے لانڈری کے اس ٹھیکیدار سے پوچھا کہ ہسپتال کے وارڈوں کی یہ میلی اور گندی چادریں کیا آپ علیحدہ دھوتے ہیں تو اس ٹھیکیدار کا کہنا تھا جناب اب کون ایک ایک کر کے ان کو علیحدہ کرے ان سب کو ایک ہی جگہ شامل کر کے دھلائی کرتا ہوںبلکہ ہسپتال کی ایمر جنسی کی چادروں کو بھی میں ایک ہی جگہ جمع کرکے ایک ساتھ ہی دھلائی کرتا ہوں۔ 
لاہور کا یہ بہت بڑا سرکاری ہسپتال جس کا نام میں نہیں لکھ رہا اس کی لانڈری کرنے والے ٹھیکیدار کے جواب کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچئے کہ کسی بڑے ہسپتال میں کتنے شعبے ہوتے ہیں؟۔ اس ہسپتال کے ایک ایک شعبے کے عورتوں، بچوں اور مردوں کے ان گنت وارڈز ہوں گے، ہسپتالوں میں قتل وغارت سے لے کر زخمی ہوجانے والے اور مختلف حادثات کا شکار ہوکر خون میں لت پت مریضوں کی آمد کا سلسلہ دن رات جاری رہتا ہے۔۔۔زچہ بچہ وارڈز میں پیدائش کے عمل سے گزرنے والی درجنوں خواتین داخل ہوتی ہیں‘ بہت سی نارمل اور کئی خواتین آپریشن کے مراحل سے گزرتی ہیں ان سب کے بستروں اور آپریشن تھیٹرز کی چادریں بھی دھلائی کیلئے بھیجی جاتی ہیں۔۔۔۔اور جب میں نے اس ٹھیکیدار سے پوچھا کہ مرد و خواتین کے آپریشنز تھیٹرز کی جو سینکڑوں چادریں تمہارے پاس آتی ہیں ان کو تمہارا عملہ لانڈری کیلئے کہاں بھیجتا ہے تو اس کے جواب نے ایک لمحے کیلئے میرے پائوں تلے سے زمین سرکا دی اور کچھ دیر بعد جب کچھ سوچنے کے قابل ہوا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ہسپتال کی انتظامیہ نے ٹھیکہ دیتے وقت تمہیں پابند نہیں کیاتھا کہ آپریشن تھیٹرز کی گندی اور خون آلود چادریں اور خطرناک امراض کے شکار مریضوں کے وارڈوں سے اکٹھی کی جانے والی چادروں کو تم علیحدہ علیحدہ دھونے کا بندو بست کرو گے تو وہ قہقہہ لگا تے ہوئے بولا کہ ایسا کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں ہر چادر کو علیحدہ علیحدہ صاف کرتا پھروں؟۔
وہ ٹھیکیدار تو میرے سوالوں سے گھبرا کر جلدی سے چل دیا لیکن میرے سامنے ایک نو جوان لڑکے کا وہ پیغام گونجنے لگا کہ '' میں نے نوکری کیلئے درخواست دی اور بڑی محنت سے محکمے کی جانب سے دیئے جانے والے ٹیسٹ کو اچھے نمبروں سے پاس کیا‘ انٹرو یو میں بھی کامیابی حاصل کرنے کے بعد تقرر نامہ حاصل کیا لیکن جب میں میڈیکل کرانے کیلئے ان کے بتائے جانے والے ہسپتال گیا تو د و دن بعد مجھے کہا گیا کہ آپ ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں ا س لئے آپ سرکاری نوکری کے اہل نہیں رہے‘‘۔
رحمت با با کے نام یہ گزارشات لکھتے ہوئے ٹی وی کی جانب دیکھا تو میاں شہباز شریف ملتان میں کڈنی سنٹر کی افتتاحی تقریب میں فرما رہے تھے کہ عمران خان نے کے پی کے میں کیا کر لیا ہے ‘کوئی ہسپتال نہیں بنایا کوئی سکول نہیں بنایا۔۔۔۔کوئی ان سے پوچھے کہ آپ کا بھائی کہے جا رہا ہے کہ جب سے مجھے نکالا ہے عباسی حکومت کی وجہ سے ملک کی ترقی رک گئی ہے۔۔۔اور جناب آپ گزشتہ دس برسوں سے پنجاب کے مطلق العنان حکمران ہیں جبکہ عمران خان تو صرف ایک عام رکن اسمبلی ہے۔وہ کوئی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ تو نہیں اگر چار ماہ سے آپ کے بھائی اور قائد محترم وزیر اعظم نہ رہنے سے موٹر ویز نہیں بنا پا رہے، ملک کی ترقی رک گئی ہے تو پھر عمران خان کو طعنے کس بات کے دے رہے ہیں؟۔۔۔!!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں