اندھے کے ہاتھ بٹیرا کیا آیا‘ اس نے اردگرد کے دیہات میں مشہور کرنا شروع کر دیا کہ اس سے بڑا شکاری پورے علاقے میں کوئی نہیں ہے۔ کچھ یہی حال بھارت کا ہو چلا ہے اور وہ بنگلہ دیش کی آزادی کی سالگرہ (سولہ دسمبر) کے جشن میں کئی کروڑ ڈالر حسینہ واجد کہ جھولی میں ڈال رہا ہے۔ ہم سب کی اجتماعی غلطیوں سے بنگالی بھائیوں کے جذبات کو ایکسپلائٹ کرتے ہوئے‘ بھارت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کی صورت دیتے ہوئے‘ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں کمانڈر ایسٹرن کمانڈ جنرل نیازی کو 45 لاکھ سے زائد بہاریوں اور غیر بنگالیوں کو مکتی باہنی کے بھوکے غنڈوں کے سامنے چھوڑنے کی دھمکی دیتے ہوئے ہتھیار کیا ڈلوائے‘ اس کا نشہ ہی ٹوٹنے میں نہیں آ رہا۔
آج اس واقعہ کو 37 برس گزر جانے کے باوجود بھارت نت نئے شوشے چھوڑتے ہوئے مسلمانوں پر اپنی تاریخ کی پہلی کامیابی کے مزے لینے کے لئے‘ آئے روز نت نئے سوانگ بھرتا رہتا ہے۔ جس طرح کسی چمارن کو کہیں سے گرا ہوا اچھا برتن کیا ملا کہ وہ اس سے پانی پی پی کے غبارہ بن گئی۔ بھارت کی بھی بالکل یہی مثال ہے۔ نریندر مودی جیسے انتہا پسند رہنما اگر یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مسلمانوں نے بھارتی فوج سے جنگ کے میدان میں شکست کھائی تو یہ ان کی بھول ہے۔
بھارت کا سونی ٹی وی 8 منٹ اور 30 سیکنڈ کا ایک نیا ویڈیو کلپ 37 سال گزرنے کے بعد مارکیٹ میں لایا ہے جس میں مشرقی پاکستان کی ایک کمانڈ پوسٹ میں کماندر ایسٹرن کمانڈ جنرل نیا زی اور بھارتی فوج کے جنرل جے ایف آر جیکب کی آپس میں ہونے والی گفتگو کے مختلف حصے جوڑے گئے ہیں۔ مختلف گفتگوئوں کو جوڑتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بھارت کی فوج اور اس کے جنرل اپنی بہادری، تکنیک اور جنگی صلاحیتوں کے اعتبار سے بہتر ہیں۔ دوسری طرف اس ویڈیو کے ذریعے بنگلہ دیش کے باسیوں کے پاکستان مخالف جذبات کو مزید ابھارتے ہوئے یہ تاثر گہرا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بنگالیوں کے بارے میں کس قدر منفی سوچ اور غلط خیالات رکھے گئے تھے۔
دو مسلمان بھائیوں کی باہمی چپقلش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ ساتھ کی دیوار سے چپکے ہوئے دشمن نے سمجھ لیا ہے کہ وہ دونوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ حسینہ واجد کی شکل میں ایک کٹھ پتلی وزیراعظم کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے وقتی طور پر بھارت نے اپنے تئیں بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہے اور اس کٹھ پتلی کو بھارت جیسے چاہتا ہے‘ جب چاہتا ہے‘ اپنی مرضی کے مطابق نچواتا ہے۔ حسینہ واجد بھی یہ سوچے سمجھے بغیر کہ وہ ایک بڑے مسلمان ملک کی سربراہ ہے‘ ایک انتہا پسند ہندو ریاست کے سامنے ہمہ وقت کورنش بجا لا نا اپنا فرض اولین سمجھتی ہے۔ نریندر مودی اور حسینہ واجد‘ چمارن کو ملے ہوئے برتن کی طرح چالیس برس بعد 1971ء میں حاصل ہونے والی کامیابی کا جشن منا رہے ہیں اور اس کے لئے کبھی وہ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جنرل نیازی کی ہتھیار ڈالتے ہوئے تصویر کو یادگاری ڈاک ٹکٹ کے طور پر شائع کر رہے ہیں تو کبھی اس وقت حاصل کئے گئے پاکستانی ہتھیاروں پر مشتمل ایک میوزیم قائم کر رہے ہیں۔ کہیں بھارتی فوجیوں کے مقبرے اور یادگاریں تعمیر ہو رہی ہیں تو کہیں پر جنگ کے دوران کی دستاویزات شائع کی جا رہی ہیں۔ کہیں بنگلہ اور بھارت کی علاقائی زبانوں میں‘ اس معرکے پر اپنی مرضی کے حقائق پر فیچر فلمیں بنائی جا رہی ہیں تو کہیں بنگلہ دیش کی درسی کتب کا سلیبس (نصاب) بھارتی دانشور اور بھارتی خفیہ ایجنسی را سے متعلق لوگ تیار کر رہے ہیں۔
اس وقت بنگلہ دیش میں خطۂ بنگال کی جو تاریخ پڑھائی جا رہی ہے اس کا آغاز 1952ء کی بنگلہ زبان کو سرکاری حیثیت دینے کی موومنٹ سے کیا گیا ہے۔ بھارت کی مرضی کے مطابق‘ سکولوں کالجوں میں سلیبس کا بہت بڑا حصہ 1971ء کی ''جنگ آزادی‘‘ کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس پوری ''آزادی کی تحریک‘‘ کا دورانیہ صرف9 ماہ کا عرصہ ہے۔ یہ تاریخ 25 مارچ 1971ء کے آپریشن SEARCH LIGHT سے شروع ہوکر 16 دسمبر1971ء کو بنگلہ دیش کی صورت ایک الگ ملک وجود میں آجانے پر مکمل ہو جاتی ہے۔
بھارت اور حسینہ واجد نے پرائمری سے ہائی سکول اور پھر کالجوں میں مسخ کی گئی 1971ء کی جنگ کی جو تاریخ سلیبس میں سموئی ہے وہ تو اپنی جگہ مگر اس سے بھی ایک قدم آگے کی جانب بڑھتے ہوئے‘ اعلیٰ ملازمتوں اور مقابلے کے امتحانات کے لئے بھی 100 مارکس کا ایک مکمل پیپر اس حوالے سے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ یہ پیپر 1971ء کی بنگلہ دیش موومنٹ کا احاطہ کرتا ہے۔ بھارت کی خواہش پر اس کے تیار کئے گئے سلیبس پر مشتمل یہ پرچہ خاص طور پر اس لئے لازمی قرار دیاگیا ہے تاکہ بنگلہ دیش کی نوجوان نسل‘ جس کے لئے اس پیپر میں کامیابی کو لازمی قرار دیا گیا ہے‘ اس کے ایک ایک لفظ اور پیرے سے واقف ہوکر جان لے کہ (ان کی مرتب کردہ تاریخ کے مطابق) 1971ء میں کیا ہوا تھا۔ اس ساری مشق کا مقصد صرف یہ ہے کہ نئی نسل کے ان نوجوانوں کے ذہنوں میں پاکستانی فوج کے خلاف نفرت کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا جائے اور اعلیٰ ملازمتوں کے لئے منتخب کئے جانے والے نوجوان افسران‘ جنہوں نے آگے چل کر بنگلہ دیش کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں کو تیار کرنا ہے‘ کو باور کرا دیا جائے کہ دنیا میں بھارت سے زیادہ ان کا کوئی ہمدرد دوست اور خیر خواہ نہیں ہے۔ اگر حسینہ واجد میں مسلم تفاخر اور جذبے کے جراثیم ختم ہو گئے ہیں تو کیا ہوا؟ وہ شاید یہ نہیں جانتیں کہ وہ اپنے ساتھ کروڑوں بنگالی مسلمانوں کی غیرت و حمیت کو زیادہ دیر تک راشٹریہ سیوک سنگھ کے سامنے سر نگوں نہیں کر سکتیں اور جذبۂ ایمانی ایک دن لبیک کہتا ہوا بھارت کی غلامی کا طوق اپنی گردن سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اتار پھینکے گا۔ تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرائے گی۔ بے شک1971ء میں مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائیوں نے اپنے لئے بنگلہ دیش کی صورت میں ایک علیحدہ وطن تو حاصل کر لیا تھا لیکن وہ آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آج ہم بھارت اور حسینہ واجد کے گرد جمع ہوئے بنگلہ دیش کے انتہا پسند راشٹریہ سیوک سنگھ والوں کے اسیرہیں۔ آج ہماری تعلیمی اور خارجہ پالیسی بھارت کی منظوری سے تیار کی جا رہی ہے۔ آج ہماری معیشت اور اقتصادیات کا ہر باب بھارت اپنے مفادات کے سائے میں تخلیق کرتا ہے... ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔
نریندر مودی جو چاہے کر لیں‘ بچھڑے ہوئے ان دو بھائیوں نے ایک دن گلے شکوے ختم کرتے ہوئے آپس میں گلے ملنا ہی ہے۔