مشاہد حسین سید سے ایک دفعہ پوچھا‘ شاہ جی! آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے؟۔ کہنے لگے'' سب سے پہلے اپنے بارے سوچتا ہوں، اس کے بعد بھی اپنے بارے ہی سوچتا ہوں اور ہمیشہ صرف اپنے بارے ہی سوچتا ہوں‘‘ جس پر میں نے کہا شاہ جی یہ تو خود غرضی کی انتہا ہے اسے تو پنجابی میں مطلب پرست کے نام سے پکارا جاتا ہے تو ہمیشہ کی طرح ایک بڑا سا قہقہہ لگاتے ہوئے انگریزی میں بولےYes I always think my self.. چار فروری کی صبح ق لیگ سے استعفیٰ اور پھر نواز لیگ میں شمولیت کی خبریں اور پھر سینیٹ کا ٹکٹ دیئے جانے کی خبریں دیکھتے اور سنتے ہوئے ان کا1992 میں کہا جانے والا وہ مشہور فقرہ ایک بار پھر کانوں میں گونجنے لگا ہے ۔۔۔۔میرے استاد محترم گوگا دانشور نے ان کی نواز لیگ میں شمولیت کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے بے ساختہ کہا '' بالآخر پنجاب کی ماروی میمن بھی نواز لیگ میں شامل ہو گئی ہے‘‘ ۔ مشاہد حسین سید کی نواز لیگ میں شمولیت کو تحریک انصاف اگرمعمول کے مطا بق نظر انداز کر ے گی تو یہ اس کی سخت بھول ہو گی عمران خان کے ارد گردہر وقت مجمع لگائے تماشائیوں کے علا وہ ان کے چند ایک مخلص ساتھی بھی شائد اندازہ نہیں کر پا رہے کہ کن شرائط پر مشاہد حسین کو اس کی منہ مانگی قیمت پر نواز لیگ میں واپس لایا گیا ہے۔ جس دن مشاہد حسین سید نواز لیگ میں کودے اسی دن ریحام کا بھارتی ٹی وی چینل کو عمران خان کے خلاف دیا جانے والا انٹرویو دیکھتے ہوئے اندازہ کر لینا چاہئے کہ مشاہد حسین جن کے بھارتی میڈیا سے انتہائی قریبی تعلقات ہیں۔ اپنی شمولیت سے صرف ایک گھنٹہ قبل ہی چونکا دینے والے انداز میں ریحام خان کا عمران خان کے خلاف انٹر ویو آن ایئر کرا کر دھوم مچا دی۔ یہ وہی مشاہد حسین ہیں جنہوں نے کلدیپ نیئر سے ڈاکٹر قدیر خان کا کوئی بتیس برس قبل پاکستان کے ایٹم بم کے حوالے سے انٹرویو کرایا تھا۔
عمران خان کو 1997 کے عام انتخابات کی انتخابی مہم یاد تو ہو گی جب دیکھتے ہی دیکھتے ان کے جلسوں اور ریلیوں میں عوامی شرکت آسمان کو چھونے لگی تھی جس پر غیر ملکی میڈیا بھی حیران رہ گیا تھا اس وقت مشاہد حسین نواز لیگ کے سیکرٹری اطلاعات تھے اور ان کی صوابدید پر اس قدر میڈیا فنڈز رکھ دیئے گئے جن کا تصور بھی محال ہے اور سیتا وائٹ کے حوالے سے عمران خان کی وہ کردار کشی کرائی گئی کہ الامان الحفیظ اخلاق اور شرم و حیا کے ہر دامن کو تار تار کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف انتہائی قسم کی مہم اسی طرح چلائی گئی جس طرح انہوں نے بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے خلاف چلائی تھی۔
مشاہد حسین ایک مرتبہ پھر سیتا وائٹ کے سکینڈل کو عمران خان کے خلاف استعمال کرنے جا رہے ہیں تو ساتھ ہی عائشہ گلالئی اور ریحام خان کے علا وہ دو اور خواتین بھی اس کی ٹیم کا حصہ بن چکی ہیں ( گلالئی کو امیر مقام کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ہمارے ایجنڈے پر چلنے سے اسے سینیٹ کا ٹکٹ دیا جائے گا) سینیٹ کا ٹکٹ نہ دیئے جانے پر اب وہ ان کے کیمپ سے باہر کود چکی ہیں اور مکافات عمل اس طرح سامنے آیا ہے کہ وہ زبان جو نواز شریف گلالئی سے عمران خان کے خلاف استعمال کراتے رہے ہیں وہی زبان گلالئی اپنی نجی محفلوں میں کہہ رہی ہیں۔ ریحام کے متعلق میں نے ایک سال پیشتر ہی اپنے مضمون میں کہہ دیا تھا کہ ان کی میاں نواز شریف سے ملاقاتیں ہو چکی ہیں لیکن حیران کن خبر یہ سننے کو ملی کہ میاں شہباز شریف سے وہ کھنچی کھنچی سی رہیں اس کی وجہ سمجھ میں نہ آ سکی؟۔ ریحام خان کی ''لکھی جانے والی کتاب‘‘ کے مارکیٹ میں لائے جانے کے وقت کاا نتخاب میاں نواز شریف خود کریں گے، اس کتاب کے فالو اپ کے نا م سے وہ عام انتخابات سے چند ماہ پہلے عمران خان پر انتہائی بے ہودہ قسم کے ذاتی حملے کھل کر شروع کررہی ہیں۔ مشاہد حسین کے فنڈز کا ذکر کرتا جائوں کہ نجم سیٹھی نے 1992 میں اپنے ہفت روزہ اخبار میں مشاہد حسین کے ذریعے اس وقت پرنٹ میڈیا میں تقسیم کی جانے والی کروڑوں روپوں کی تقسیم کا تفصیل سے بمع ثبوتوں کے ذکر کیا تھا جس کی کاپی آج بھی میرے پاس محفوظ ہے ۔اس میڈیا فنڈ میں سے مشاہد حسین نے اپنے لئے کتنے رکھے اس کا ذکر بھی نجم سیٹھی نے کھل کیا ہے جس کی تفصیل میرے پاس محفوظ ہے اگر وہ چیلنج کریں گے تو میںاس کی تفصیلات بتانے کا پابند ہوں اور اس کی مکمل ذمہ داری لیتا ہوں کیونکہ مشاہد حسین اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم نے ایک ہی جگہ کام کیا ہوا ہے۔
پانچ کھرب پتی صنعت کاروں کے ایک کارٹل نے میاں نواز شریف کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا ہے کہ عمران خان کو ذلیل و رسوا کرنے کیلئے اگر کے پی کے حکومت کے بجٹ کے برا بر بھی انہیں رقم خرچ کرنی پڑی تو وہ اس سے دریغ نہیں کریں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ میاں صاحب نے اسے اب سیا سی نہیں بلکہ ذاتی جنگ سمجھتے ہوئے اپنا سب کچھ عمران کے خلاف جھونکنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ان کی آنے والی انتخابی مہم صرف اور صرف عمران خان کی کردار کشی اور ان کے نزدیکی لوگوں کو خریدنے پر ہی صرف کی جائے گی ۔نون لیگ کا گالم گلوچ بریگیڈ مشاہد حسین سمیت بھول رہا ہے کہ اب وہ پی ٹی وی کا زمانہ نہیں رہا اب پہلے کی طرح ایک دو اخبارات کا دور نہیں اب چند ایک کو چھوڑ کر آزاد میڈیا موجود ہے ا س لئے طلال چوہدری او مشاہد حسین سید جیسے لوگ جو خود شیشے کے محلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں انہیں سو بار سوچنا ہو گا کہ وہی پتھر ٹکرا کر ان پر واپس بھی گر سکتے ہیں۔
مشاہد حسین سے گزارش ہے کہ عمران خان یا کسی اور کی کردار کشی کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ جتنا وہ سیتا وائٹ یا ریحام خان کے بارے میں جانتے ہوں گے شائد اس سے بھی زیا دہ کچھ لوگ ان کے بارے بھی علم رکھتے ہیں۔
دسمبر92 کی ایک رات تھی جب اچانک ایک انتہائی اہم ترین عمارت کے عقب میں بنے ہوئے گارڈ کی ڈیوٹی چیک کرنے کیلئے اچانک اس کے کیبن کو چیک کیا تو شائد دیکھنے والے کی نظر کمزور تھی جس سے کچھ صاف دکھائی نہ دیا لیکن اگلے دن جب ان کا کسی سے آمنا سامنا ہوا تو وہ صاحب ایک زبردست قہقہہ لگاتے ہوئے اس شخص کے پاس سے گزر گئے۔۔۔وہ شخص کافی دیر کھڑا سوچتا رہا کہ وہ قہقہہ جو اسے لگا نا چاہئے تھا وہ یہ صاحب کیوں لگا رہے ہیں؟۔
تحریک انصاف کا مقابلہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شرمناک تصویریں جہازوں اور ہیلی کاپٹروں سے پنجاب اور کے پی کے ہر گھر اور ہر کھیت میں گرائی تھیں وہ جنہوں نے بھٹو کی بیوی اور بیٹی کی عزت کو سر بازار اچھالا ان کے نزدیک عمران خان کی کوئی اہمیت نہیں اور جب اپنی انگلیوں پر نچانے کی انہیں خواتین کی کھلی خدمات دستیاب ہورہی ہوں تو۔۔۔۔۔اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سلسلہ کہاں تک پہنچ سکتا ہے؟۔
نہ جانے تحریک انصاف کا وہ کون سا سٹرٹیجک میڈیا سیل ہے کہ نواز لیگ کے گالم گلوچ بریگیڈ کا جواب کسی اور کی بجائے عمران خان کو ہی دینا پڑتا ہے اور تحریک انصاف کے چُوری کھانے والے سینکڑوں مجنوں منہ میں چوسنیاں دبائے خاموش بیٹھے رہتے ہیں؟۔یہ کیا طریقہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، طلال، پرویز رشید ، دانیال جیسے لیگی رہنمائوں کے حملوں کا جواب عمران خان خود دیں،یہ اتنی بڑی فوج کیا صرف لڈو کھانے کیلئے ہر وقت ان کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے ؟۔ عمران خان کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ قومی لیڈر ہیں اور انہیں صرف میاں نواز شریف کے الزامات اور بیانات کے جواب خود دینے چاہئیں نہ کہ کسی سیاسی جماعت کے ہر ایرے غیرے کا۔۔۔!!