سرگودھا میں مسلم لیگ نواز کے '' شوشل میڈیا‘‘ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم صفدر کہہ رہی تھیں '' بھائیو یہ آپ کے محبوب لیڈر میاں نواز شریف کے جدہ، لندن اور دوبئی کے اثاثے تو دکھا دیتے ہیں میں ان سے کہتی ہوں کہ نواز شریف کے اثاثے مت دکھائو اس کی کرپشن دکھائو‘‘ ۔ان کے یہ الفاظ سنتے ہوئے ایسا لگا کہ مجھے شائد سمجھنے میں کوئی دشواری ہورہی ہے لیکن چند منٹ بعد جب انہوں نے دوبارہ شاہینوں کے شہر سرگودھا کے عوام سے کہا کہ ہمیں نواز شریف کے غیر ملکی اثاثے مت دکھائو بلکہ نواز شریف کی کرپشن دکھائو تو ایک لمحے کیلئے میرا دھیان مریم صفدرکے بالکل پیچھے کھڑی بیگم کلثوم نواز کی سیکرٹری اور تقریریں لکھنے والی مسز کاکا خیل کی جانب چلا گیا کہ ہم تو کب سے ان کی قابلیت کو سراہا کرتے تھے لیکن اب انہیں کیا ہوتا جا رہا ہے کہیں وہ اسٹبلشمنٹ کے اشاریوںپر تو چلنا شروع نہیں ہو گئیں؟۔
ابتدا میں یہی خیال تھا کہ مریم صفدر کے سرگودھا کے سوشل میڈیا کنونشن میں ادا کئے گئے ان نایاب اور خوبصورت جملوں پر کچھ لکھوں ۔۔۔ لیکن سرگودھا ، خوشاب ، چنیوٹ اور فیصل آباد کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ز کی گزشتہ پانچ دنوں سے اس کنونشن کی کامیابی کیلئے بھر پور تیاریاں دیکھ کر دھیان ان کے سرپرست نواز لیگ کے سرکاری کارکن احد چیمہ کی گرفتاری کی جانب چلا گیا جس کی گرفتاری پر احتجاج کرتے ہوئے ان تمام اضلاع کی بیوروکریسی نے قلم چھوڑ ہڑتال کی ہوئی ہے اس ہڑتال پر اب تو کوئی شک نہیں رہا کہ پنجاب کے ہر ضلع کا کمشنر اور ڈپٹی کمشنر آر پی او، سی پی او اور ڈی پی او سرکاری ملازم نہیں بلکہ پنجاب کے حکمران خاندان کے ادنیٰ غلام کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی مدد سے نواز لیگ بلدیاتی اور قومی انتخابات میں کامیابیاں سمیٹتی چلی آ رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے سب سے اہم اور چہیتے احد چیمہ کی گرفتاری پر بیوروکریسی میں ان کے گروپ کی ہڑتال نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ سٹیٹ یا صوبے کے ملازم نہیں بلکہ جاتی امراء ریا ست کے غلام ہیں ۔
اگر کسی کو یاد ہو تو اسے پیپلز پارٹی کے 1972 دور میں لئے چلتے ہیں جب ملک غلام مصطفیٰ کھر پنجاب کے گورنر تھے تو پولیس نے صوبے بھر میں ہڑتال کر دی تھی اگلے دن مصطفیٰ کھر نے موچی دروازہ لاہور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پولیس کی اس ہڑتال کوMUTINY سے تشبیہ دیتے ہوئے ہڑتالیوں کو خبردار کیا کہ اگر وہ شام تک اپنی ڈیوٹیوں پر واپس نہیں آئیں گے تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو پولیس تھانوں کا چارج دیتے ہوئے تمام ہڑتالیوں کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا جائے گا ۔ابھی مصطفیٰ کھر جلسہ ختم کرنے کے بعد گورنر ہائوس پہنچے ہی تھے کہ پولیس اپنی ڈیوٹیوں پر واپس آنا شروع ہو گئی اور اگلی صبح یہ ہڑتال دم توڑ گئی۔۔۔کہا جا سکتا ہے کہ ہڑتالی پولیس کے مقابلے میں چونکہ اسلام آباد اور پنجاب میں بھٹو حکومت تھی ا س لئے پنجاب کے حاکم کی ایک ہی للکار پر یہ ہڑتال دم توڑ گئی جبکہ اس کے مقابلے میں آج وقت کا حاکم اعلیٰ ہی صوبائی کابینہ کے اجلاس میں ان افسران کو ہڑتال کا حکم دے رہا تھا ۔گویا مرکز اور پنجاب کے اقتدار اعلیٰ پر فائز حاکم ہی ریا ست کے خلاف MUTINY کی ترغیب دے رہے تھے۔
احتساب بیورو نے پنجاب کی بیوروکریسی کے انتہائی طاقتور رکن احد چیمہ کو جیسے ہی گرفتار کیا جاتی امراء میں ایک ہلچل سی مچ گئی اسی وقت نواز لیگ کی بیوروکریسی کو حکم جاری ہوا کہ جی او آر میں تمام افسران کو اکٹھا کرتے ہوئے متفقہ فیصلہ کرتے ہوئے نیب کی اس جسارت کے خلاف ہڑتال کر و اور اس کیلئے صوبے بھر کے افسران کو راولپنڈی میٹرو فیم چیف سیکرٹری کی جانب سے ہڑتال کے احکامات دیئے جانے لگے ۔۔۔اور شریف فیملی کی ہدایات پر پاکستان کی ایڈ منسٹریٹو سروس سے تعلق رکھنے والوں کا اگلی صبح پنجاب سول سیکرٹریٹ میں تمام دفاتر کو تالے لگانا کیا MUTINY نہیں؟۔
چیف سیکرٹری پنجاب سمیت ان کے تمام ہڑتالی حواریوں کو شائد وہ مناظر بھول چکے ہوں گے جب پنجاب کی صوبائی سول سروس کے لوگوں نے اپنے خلاف ہونے والی زیادتیوں اور پاکستان ایڈ منسٹریٹو سروس سے تعلق رکھنے والے افسران کی جانب سے صوبائی افسران سے بد تمیزی اور گالم گلوچ کی بڑھتی ہوئی شکایتوں پر احتجاج کیا تو ان سب کو اس گستاخی پر معطل کر دیا گیا بلکہ ساتھ ہی ان کے لیڈران کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیئے گئے اور گرفتاری کا حکم دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ یہی احد چیمہ تھا۔۔۔تو کیا جن افسران نے آج احد چیمہ کی گرفتاری پر ہڑتال کرتے ہوئے سرکاری دفاتر کو تالے لگوائے ہیں کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہو گی؟۔ کیا یہ مخلوق ہر قسم کی قانون شکنی سے مبرا قرار دی جا چکی ہے؟۔کیا ان کی ہڑتال ملک سے بغاوت کے زمرے میں نہیں آتی؟۔ کیا چیف سیکرٹری پنجاب اور ان کی پوری ٹیم کے خلاف MUTINY ثابت نہیں ہوتی؟۔ کسی بھی با خبر سرکاری ادارے اور اعلیٰ سرکاری افسران سے یہ پوشیدہ نہیں کہ وطن عزیز اس وقت دہشت گردوں کے سات سے زائد بین الاقوامی گروپوں کے نشانوں پر ہے اب اگر ہوم سیکرٹری یا لاہور کا کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ہڑتال کر کے گھروں بیٹھ جائیں بلکہ اپنے دفاتر میں جہاں ان دہشت گردوں کے متعلق تمام خفیہ ریکارڈز موجود ہیں ان کو تالے لگا کر چابیاں بھی اپنے ساتھ لے جائیں اور ان کے ساتھ پنجاب کا چیف سیکرٹری بھی شامل ہو جائے تو سوچئے کہ ہوم سیکرٹری ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری، چیف سیکرٹری اور کمشنر، ڈپٹی کمشنر لاہور کی اس حرکت سے ملک اور صوبے کی حفاظت کا کیا بنے گا؟۔
صوبائی سروس افسران کے ساتھ نا روا رویہ رکھنے پر جب ان کی جانب سے احتجاج ہوا تو کیا ان کے لیڈر رائے منظور ناصر کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا؟۔کیا ان صوبائی افسران کے خلاف پولیس کا ڈنڈا استعمال نہیں ہوا تھا؟۔ کیا ان کو پولیس کی گاڑیوں میں بھر بھر کر نہیں پھینکا گیا تھا؟۔کیا یہ دہشت گرد تھے؟۔ کیا ان پر کرپشن کے الزامات تھے؟۔ ان کا قصور یہی تھا کہ وہ سی ایس ایس گروپ کی گالیوں پر احتجاج کر رہے تھے؟۔ ان کا اس کے علا وہ اور کیا قصور تھا کہ وہ اپنے حق کا مطا لبہ کر رہے تھے؟۔چیف سیکرٹری یا سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کسی بھی عدالت یا فورم کے سامنے پیش ہو کراس بات کی وضاحت دینا پسند کریں گے، تیس تیس سالوںکی ملازمت والے تحصیلدار وں کو اب تک ترقی کیوں نہیں دی جا رہی کیا یہ لوگ آپ کی نظر میں انسان نہیں؟۔۔۔ ترقی کیلئے مطلوبہPMS کا کورس اور امتحان پاس کئے ہوئے انہیں سات برس سے زائد گذر چکے ہیں؟۔کیا آپ کافرض نہیں بنتا کہ ریٹائر ہونے سے پہلے ان کا یہ حق انہیں دے دیا جائے؟۔
احد چیمہ کو اس لئے نیب نے گرفتار نہیں کیا کہ ان کی شکل ان کو پسند نہیں تھی بلکہ ان شواہد کی بنیاد پر گرفتار کیا ہے جو چیف سیکرٹری سمیت ان سب ہڑتالی افسران کے نوٹس میں ہیں۔۔ تمام ہڑتالی افسران کو فوری طور پر حکم جاری کرتے ہوئے OSD بنا کر ان کے خلاف سخت کارروائی کی جا نی چاہئے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اب اس ملک پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ یہ اب پاکستان کے لئے با قاعدہ ایک خطرہ بن چکے ہیں ۔ ان کا ملک کے اہم اداروں میں براجمان ہونا اب سکیورٹی رسک ثابت ہو گا۔۔۔!!