"MABC" (space) message & send to 7575

ہمیں آئی ایس آئی نے شکست دی ہے

Directorate S: The C.I.A. and America's Secret Wars in Afghanistan and Pakistan :2001-16
کے عنوان سے امریکی مصنف سٹیو کول کی لکھی کتاب جلد ہی مارکیٹ میں لائی جا رہی ہے جس میں افغانستان میں امریکی شکست کی مکمل ذمہ داری پاکستان پر عائد کی گئی ہے اور اس کتاب میں سٹیو کول نے وہی گھسے پٹے الزامات کو دہرایا ہے جن کا پاکستان امریکہ اور اس کے حواریوں کے جھوٹ کا نہ جانے کب سے سامنا کر رہا ہے۔ سٹیوکول اس وقت امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی گریجو ایٹ سکول آف جرنلزم کے ڈین کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور اس کتاب کی لانچنگ چونکہ وسیع پیمانے پر کی جارہی ہے اس لئے پاکستان کو ایک بار پھر دنیا کے معروف دانشوروں کے تجزیوں کے جوابات دینے کیلئے تیار رہنا ہو گا ۔ 25 ڈالر کی یہ نئی کتاب جس کی لانچنگ تقریب اپنے آخری مراحل میں ہے اس کے مصنف وہی مشہور و معروف امریکی Steve Coll ہیں جو ا س سے پہلے سوویت یونین کے خلاف ا فغان جہاد کے نام سے امریکی سی آئی اے اور پاکستان کے مشترکہ آپریشن کے بارے میں Ghost War کے نام سے کتاب لکھ کر شہرت پا چکے ہیں ۔ Ghost War کے نام سے لکھی ہوئی سٹیو کول کی کتاب PULITZER PRIZE جیسا امریکہ کا مشہور و معروف ایوارڈ جیت چکی ہے چونکہ سٹیو کول اس انعام کی وجہ سے امریکہ میں بے حد شہرت حاصل کر چکے ہیں اس لئے ان کی آنے والی کتاب کی بکنگ ابھی سے ہی شروع ہو چکی ہے اور امریکی سی آئی اے نے اپنی شرمندگی کا سارا بوجھ پاکستان پر ڈالنے کیلئے شائد سٹیو کول کے نام کی اسی مقبولیت اور شہرت کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف جھوٹ اور نفرت کا نیا بازار گرم کرنے کیلئے اس کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔
سٹیوکول کی اس نئی کتاب کی تیاری اور اشاعت کیلئے امریکی سی آئی اے نے جس موقع کا انتخاب کیا ہے پاکستان کو اسے سامنے رکھتے ہوئے سمجھنا بہت ہی ضروری ہے۔ جیسے ہی فرانس میں FATF کے اجلاس میں پاکستان کو تین ماہ کیلئے واچ لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ ہوا تو ساتھ ہی اس کتاب کو لانچ کرنے کا اعلان کردیا گیا جس میں افغانستان میں امریکی شکست اور امریکی، نیٹو اور ایساف کے فوجیوں کی افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں ہلاکت کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی گئی ہے۔ بطور مصنف اور کولمبیا یونیورسٹی میں جرنلزم کے ڈین کی حیثیت سے سٹیو کول کی مقبولیت کو استعمال کرتے ہوئے امریکی سی آئی اے اس کتاب کو مختلف امریکی تھنک ٹینکس، دانشوروں اور مختلف سرکاری اداروں میں تقسیم کرے گی اس پر سیمینار اور مذاکرے ترتیب دیئے جا رہے ہیں اور امریکہ میں بھارتی سفارت خانہ اور اس کے خفیہ ایجنسیوں کے لوگوں سمیت افغانستان کی NDS اور بھارت نواز لابی اس کتاب کی بھاری تعداد میں بکنگ کرا چکی ہے جس کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس کتاب کے اقتباسات کے ذریعے امریکہ اور یورپ کے علا وہ افغان رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف ہموارکیا جا ئے ؟۔ یہ دیکھے بغیر کہ 9/11 کے بعد افغان جنگ میں پاکستان کی بھر پور شرکت کے نتیجے میں اب تک اس کی سکیورٹی فورسز کے سات ہزار سے زائد افسرا ور جوان شہید جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں زخمی اور معذور ہو چکے ہیں پاکستان کے70ہزار سے زائد شہری تحریک طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکہ کے فوجی آپریشن کے نتیجے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔۔۔۔آج جس طرح ملا فضل اﷲ اور تحریک طالبان کے مختلف دھڑے افغانستان میں دندناتے پھرتے ہیں اس سے کیا یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ امریکہ اور بھارت کاNEXUS ہے جو پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہے؟۔ اگر امریکہ بھارت ا ور افغانستان سمیت امریکی تھنک ٹینکس اور سٹیو کول جیسے دانشور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کا سپیشل ونگ طالبان کیلئے گوریلا تربیت فراہم کرتا ہے اور یہ پاکستان میں ان کی پناہ میں ہوتے ہیں۔۔تو پھر یہی سوال اگر امریکہ بھارت اور افغانستان سے کیا جائے کہ امریکی اور افغان فوج سمیت آپ کے تمام مواصلاتی آبزرور خفیہ ایجنسیاں، ڈرون صلاحیتیں پاک افغان سرحد کے ساتھ موجود ہونے کے با وجود تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے دہشت گرد پاکستان میں کیسے داخل کر ادیئے جاتے ہیں؟۔ 
افغانستان میں امریکی سی آئی اے، پنٹاگان اور وائٹ ہائوس سمیت امریکہ کے تمام اہم اداروں کا مقصد صرف یہی ہے کہ اپنی نا کامیوں کا تمام بوجھ پاکستان پر ڈالتے ہوئے دنیا بھر کو یہی باور کرا دیا جائے کہ ہماری نا کامی اور شکست کی وجہ پاکستان کی آئی ایس آئی ہے؟۔ امریکی اور یورپی عوام کو اپنے کسی بھی عمل اور آپریشن پر مطمئن کرنے کیلئے سٹیو کول کی کتاب کو بے پناہ کوریج دینا امریکی روایات کا حصہ چلا آ رہا ہے اور اب تو دنیا بھر میں آزاد اور غیر متعصب سوچ رکھنے والے کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ امریکی خفیہ ادارے اور ان سے منسلک تھنک ٹینکس اور تنظیمیں جس انداز میں سٹیو کول کی کتاب کا شور مچا رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ اپنے کسی '' ہدف ‘‘کو نشانہ بنا ئیں گے ۔ امریکی مصنف کے اس تعصب اور عامیانہ قسم کی سوچ کا ہلکا سا مظاہرہ دیکھئے کہ وہ اپنی کتاب میں بہت دور کی کوڑی لاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے تحت کام کرنے والی آئی ایس آئی کا ایک خفیہ ونگ افغانستان میں طالبان کو تربیت دیتا ہے اور آئی ایس آئی کے اس سپیشل ونگ کی طالبان کو دی جانے والی گوریلا تربیت اور اسلحہ کی فراہمی کا ہی نتیجہ ہے کہ طالبان فائٹر کی شکل میں امریکہ ، نیٹو ور ایساف کے دہشت گردی کے خلاف کامیابی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
امریکہ کو افغانستان میں طالبان کی مدد کا دکھ تو بہت ستاتا ہے لیکن کیا امریکہ اور اس رائے عامہ اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں بلوچستان میں براہ راست دہشت گردی میں ملوث ہیں؟۔ سٹیو کول کی کتاب پڑھنے والی عالمی رائے عامہ یقیناََ جانتی ہے کہ بلوچستان میں گوادر اور سی پیک کو ناکام بنانے کیلئے آئے روز کی جانے والی دہشت گردی میں بھارت اور افغانستان کو امریکہ اور برطانیہ کی بھر پور مدد حاصل ہے۔ ابھی حال ہی میں تربت میں روزگار کی تلاش میں جانے والے پاکستان کے20 نوجوانوں کو جس طرح قطاروں میں کھڑا کرتے ہوئے کلاشنکوفوں کے برسٹ برساکر بے رحمی سے ہلاک کیا گیا ۔۔۔کیا آج تک امریکہ یا برطانیہ یا سٹیو کول نے اس کی مذمت کی ہے؟۔جن ممالک میں بیٹھ کر بلوچ علیحدگی پسندوں کے نام سے براہمداغ بگٹی اور مہران مری کی لبریشن آرمی بم دھماکوں اور بے گناہ مزدوروں کے قتل عام کی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں کیا اس ملک نے کبھی ان کے اس اعتراف جرم پر اپنے قانون کا شکنجہ کسا ہے؟۔یہ انسانی حقوق کے کیسے چیمپئن بنے ہوئے ہیں یہ دہشت گردی کی مزاحمت کرنے والے کیسے ملک ہیں جنہیں بلوچستان میں بے گناہوں کا بہایا جانے والا خون کبھی نظر ہی نہیں آتا لیکن ہر وقت افغانستان میں امریکی نا کامیاں بے چین کئے رکھتی ہیں؟۔ افغانستان میں طالبان کے پیچھے انہیں پاکستان کا ہاتھ تو نظر آ جاتا ہے لیکن بلوچستا ن میں بھارت اور افغانستان کے ہاتھ کیوں نظر نہیں آتے؟۔ کیا سٹیو کول نہیں جانتے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کس کے حکم اور مدد سے کی جا رہی ہے؟۔ آج تک کسی بھی امریکی اخبار، میگزین یا تھنک ٹینک نے اپنی حکومت اورعوام کو بتانے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ'' RAWاور NDS کا کارٹل افغان سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے وہی اصل میں امریکی شکست کا اصل ذمہ دار ہے۔۔۔۔!! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں