"MABC" (space) message & send to 7575

لیری پریسلر کا نیا حملہ

Thank you, President Trump for calling out Pakistan on terrorism''... مشہور بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز میں میں لکھے گئے اس آرٹیکل کے مصنف خیر سے کوئی اور نہیں وہی لیری پریسلر ہیں۔ جب سے پاکستان ایٹمی قوت کی صلاحیتیں حاصل کرنے میں مصروف تھا‘ تب سے یہ صاحب پیچ و تاب کھائے جا رہے تھے لیکن اُس وقت تو یہ بالکل ہی ا پنے ہوش و حواس کھو بیٹھے جب پاکستان ایٹمی قوت حاصل کرنے والے گنتی کے چند ممالک کی صف میں شامل ہو گیا۔ لیری پریسلر کا شمار ان سابق اور موجودہ سینیٹرز اور ارکان کانگریس میں ہوتا ہے جو پاکستان کو ایٹمی صلاحیتوں کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ کر ہی اس کے وجود کے مخالف ہو گئے تھے۔ اس کی پاکستان سے نفرت اور دشمنی کی انتہا دیکھئے کہ اس نے سب سے پہلے پاکستان کو معاشی اور فوجی طور پر کمزور کرنے کیلئے امریکی سینیٹ میں بدنام زمانہ ''پریسلر ترمیم‘‘ منظور کروا کر پاکستان پر فوجی اور اقتصادی پابندیوں کا بل منظور کرایا اور پھرامریکہ میں ان پر بھاری سرمایہ کاری کرنے والی بھارتی لابی کی شہہ پر Neighbour in Arms نامی انتہائی متنازعہ کتاب لکھی۔ یہ کتاب کیا تھی‘ اس کا ایک ایک لفظ بھارت کے سفارتی، داخلی اور فوجی سلیبس کا ''کی بورڈ‘‘ تھا!
امریکی ریاست ڈکوٹا سے تعلق رکھنے والے 75 سالہ ری پبلیکن سینیٹر لیری پریسلر کے پاکستان بارے خیالات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ لیری پریسلر کی تحریروں میں بھرپور تنقید سے لتھڑا ہوا ہر لفظ‘ پاکستان کے لئے وقف ہو چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایٹمی قوت کا حامل پاکستان لیری پریسلر کے لئے ایک ڈرائونا خواب بن چکا ہے۔ لیری پریسلر نے اپنے اندر کھولتے ہوئے پاکستان دشمن لاوے کو مزید اشتعال دلانے کے لئے اپنے حالیہ آرٹیکل میں پاکستان پر پہلے سے زیادہ شدت سے‘ نفرت انگیز چڑھائی کی ہے لیکن اسے لیری پریسلر کی بد قسمتی سمجھ لیجئے کہ اس کا یہ آرٹیکل اپنے کھوکھلے پن اور برسوں سے رٹے رٹائے پاکستان مخالف بھارتی حوالوں اور الزامات کی وجہ سے اپنے اندر کوئی دلچسپی رکھنے سے عاری رہا۔ با وجود اس کے کہ بھارت کے مقبول اور معروف ترین اخبار ہندوستان ٹائمز کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کو ان الفاظ کی جانب متوجہ کرنے کیلئے اسے نمایاں طور پر شائع کیا گیا لیکن جیسے کہ کہا جاتا ہے الزامات کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور جب پڑھنے والوں کو یہ معلوم ہو کہ اندھے کنویں سے وہی آواز نکلے گی جو وہاں گردش کرتی ہے تو پھر دلچسپی بے ربط ہی نہیں‘ بے اثر بھی ہو جاتی ہے۔
بھارت سے زیادہ لیری پریسلر کا احسان مند کون ہو سکتا ہے کیونکہ اس کی کوششوں سے منظور ہونے والی پریسلر ترمیم نے پاکستان کو باندھ کر رکھ دیا تھا۔ پاکستان کے خلاف مشہور زمانہ اقتصادی اور فوجی پابندیاں عائد کرانے والے سینیٹر لیری پریسلر کو امریکہ میں بھارت کا غیر سرکاری سفیر سمجھا جاتا ہے لیکن جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی صدارت سنبھالی ہے‘ لیری پریسلر کا لب و لہجہ ایک امریکی تھنک ٹینک یا پالیسی ساز کے بجائے بھارت کی انتہا پسند عسکری تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے ترجمان کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اپنے نئے مضمون میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے لیری پریسلر نے اس کے عنوان کو بہت معنی خیز رکھا ہے۔ امریکی صدر کو پاکستان کے خلاف مزید سیخ پا کرتے ہوئے آرٹیکل کی سرخی ہی ایسی لگائی ہے کہ صدر کو مزید شہہ ملے۔ امریکہ کی ری پبلیکن کا متعصب اور پاکستان کے وجود کے منکر اور بدترین مخالف‘ لیری پریسلر نے جس طرح اپنی کتاب Neighbours in Arms میں بھارتی لب و لہجے کے زہر کو اپنے الفاظ میں ڈبوتے ہوئے تحریری فریب دیا تھا، اب اس سے بھی چار ہاتھ آگے کی جانب بڑھتے ہوئے‘ پاکستان کے خلاف بین الاقوامی رائے عامہ کو بھارتی تصورات کی روشنی میں گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
بھارتی جریدے میں شائع شدہ اپنے نئے آرٹیکل میں لیری پریسلر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو ''روگ اور دہشت گرد ریاست‘‘ کا نام دینے اور وائٹ ہائوس میں ان کے سٹاف کو پاکستان کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے پر بھر پور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس طرح امریکہ نے کئی برسوں کے انتظار کے بعد جنوبی ایشیا کیلئے اپنی نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے لئے ایک وارننگ کی صورت میں ٹویٹ کیا ہے‘ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ معاملات کو اس کی گہرائی میں جا کر جانچنے کی صلاحیتوں کے مالک ہیں کیونکہ دنیا کے امن کیلئے امریکہ کو پاکستان کے خلاف انتہائی اقدام اٹھانے سے گریز نہیں کرنا چاہئے۔ موصوف مزید لکھتے ہیں کہ تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا نام اُس پہلے امریکی صدر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس نے پاکستان کو کھل کر للکارا ہے۔
لیری پریسلر اپنے آرٹیکل میں مزید زہر افشانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو اپنے دوست اور اتحادی کی حیثیت دینے کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں اسے جو اہم کردار سونپا ہے‘ وہ نہ صرف ایک انقلابی قدم ہے بلکہ خطے کے دیر پا امن اور سلامتی کا واحد حل بھی ہے ۔ لیری پریسلر کے مضمون پر رائے دیتے ہوئے سابق اور موجودہ سفارتی شخصیات نے اسے متعصبانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس نے امریکہ کا ہمیشہ اور ہر حال میں ساتھ دیا ہے۔ سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت اور فوجی قبضے کے خلاف جنگ سے لر کر روسی کمیونزم کے طوفان کو دنیا بھر پھیلنے سے بچانے کیلئے جو مدد پاکستان نے فراہم کی ہے‘ اس کی قیمت امریکہ اگر پوری طاقت سے بھی ادا کرنے کی کوشش کرے تو کم ہو گی۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور دنیا بھر کو دہشت گردی سے محفوظ کرتے ہوئے اس آگ سے جس طرح اپنا گھر بار جلایا‘ ان سے انکار امریکہ سمیت اِن تمام قوتوں کی احسان فراموشی کے مترادف ہو گا کہ اگر پاکستان کو اس قربانی کی سزا دیتے اور بے دست وپا کرتے ہوئے بھارت کے حوالے کر دیا جائے۔ اس وقت تک جب پورا مغرب اور مشرق بعید روسی یلغار کو اپنے گھروں کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور بھارت کو اس روسی عفریت کے ہم رکاب دیکھتے ہوئے کانپ رہا تھا تو وہ کون سا ملک تھا جو اس عفریت کے راستے کی دیوار بنا؟ کیا امریکہ کے دبائو میں آ کر پوری دنیا کو احسان فراموش بنتے ہوئے پاکستان کی تمام قربانیوں کو بھلاتے ہوئے‘ اور روسی کیمونزم کے خلاف مدد کرنے پر سزا دینا مناسب ہو گا؟ کیا اس سے دیگر چھوٹے ملک یہ سوچنے پر مجبور نہیں ہوں گے کہ اپنا مطلب نکالنے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی انہیں بھی مکھن سے بال کی طرح نکال کر اپنے ان اتحادیوں کے حوالے کر دیں گے جو اس کی سالمیت کے درپے ہوں گے؟ دفاعی اور سفارتی ماہرین ڈونلڈ ٹرمپ کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے بلاجھجک کہہ رہے ہیں کہ امریکیوں کو یہ سمجھ کب آ ئے گی کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان کو اپنے ساتھ شامل کرنے سے مل سکتا ہے۔ امریکہ دنیا کو اپنا غلام یا سب کو کم عقل نہ سمجھے کیونکہ بھارت کو افغانستان میں پاکستان کے سر پہ سوار کر نے کے فیصلے سے سبھی جان چکے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں کسی بھی طور مستقل امن کا خواہاں نہیں بلکہ وہ چین کے خلاف اپنے دانت تیز کرنے کے علاوہ بھارت جیسے اپنے نئے اتحادی کو افغانستان میں چاقوچھریوں سے لیس کر رہا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں