آج جب نریندر مودی کا سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول ایک وائسرائے کی حیثیت سے افغانستان میں اپنی شطرنج کے مہرے پھیلا رہا ہے تو اس میں حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ صدیوں پرانی تاریخ سامنے رکھیں تو افغانستان میں اس سے پہلے 8 حکمران برطانوی حکومت نے مقرر کئے تھے جبکہ ببرک کارمل کے نام سے ایک حکمران سوویت یونین نے بٹھایا تو چار حکمران جن میں برہان الدین ربانی سے حامد کرزئی اوراشرف غنی سمیت سب کو کابل کے صدارتی محل میں امریکی ہی لے کر آئے، ان سب کی ڈوریاں امریکی اور بھارتی ایجنسیوں کے لوگ مل کر ہلارہے ہیں۔ جیسا کہ اپنے ایک گزشتہ مضمون میں تحریر کیا تھا کہ بھارت اور امریکہ پاکستان کو سی پیک کی سزا دینے کیلئے ایک بار پھر ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ کھڑا کرنے کیلئے افغانستان اور پاکستان کو ایک دوسرے کے سامنے لانا چاہتے ہیں اور اس کا آغاز مہمند ایجنسی اور افغانستان سے پاکستانی سرحدوں کے اندر حملوں سے شروع کرا یا جا رہا ہے۔ افغانستان جو ظاہر شاہ سے اب تک ڈیورنڈ لائن کے نام پر پاکستان کو بلیک میل کئے ہوئے ہے اس کے متعلق پاکستان کی نئی نسل کو ڈیورنڈ لائن کے بارے میں آگاہ کرنابہت ضروری ہے تاکہ آج کی سوشل میڈیا کی جنگ میں وہ اپنے ملک پر ہونے والے سائبر حملوں کا دفاع کر تے ہوئے جوابی وار کر سکیں۔۔۔ جس طرح بھارت اپنے عیار سفارت کار راجیو چوپڑہ کی کتاب کی آڑ میں افغانستان کے مقدمے کو مضبوط بنانے میں لگا ہے کاش ہماری حکومتیں بھی سفارتی اور میڈیا محاذ پر اقدام کرتیں کیونکہ اگر وطن دوست اخبارات میں اس پر لکھنا بھی چاہیں تو سب جانتے ہیں کہ ان مضامین کیلئے الفاظ کی ایک حد مقرر ہوتی ہے ا س لئے اس پر بہت زیا دہ تفصیل سے لکھا بھی نہیں جا سکتا۔
ڈیورنڈ لائن کی تاریخی حیثیت کچھ اس طرح سے ہے کہ امیر افغانستان عبد الرحمان خان اور برٹش حکومت کے نمائندے Sir Henry Mortimer Duarand کے درمیان 12 نومبر1893 کو ہندوستان اور افغانستان کی سرحدوں کا تعین کرتے ہوئے '' ایک صفحے‘‘ کا جو معاہدہ ہوا اسے برطانوی سول سروس کے نمائندے سر ہنری ڈیورنڈ کی منا سبت سے ''ڈیورنڈ لائن‘‘ کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ انگریزی میں لکھے گئے اس معاہدے کا دری زبان میں بھی ترجمہ کیا گیا تھا اور ڈیورنڈ لائن کے نام سے سات نکات پر مشتمل ایک صفحے کے اس تاریخی معاہدے میں واضح طور پر یہ الفاظ درج ہیں کہ '' باہمی اتفاق رائے سے دونوں حکومتوں کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کی رو سے آج کے بعد کوئی بھی فریق ڈیورنڈ لائن کی خلاف ورزی نہیں کرسکے گا‘‘۔ اس معاہدے کے بعد1894 میں دونوں فریقین نے خوست کے نزدیک پارا چنار میں کیمپ آفس قائم کیا جہاں افغان حکومت کی جانب سے خوست کے سابق گورنر صاحبزادہ عبد الطیف اور سردار شیریں دل خان اور برطانوی حکومت کی جانب سے ہنری موتمر ڈیورنڈ اور خیبر ایجنسی کے پولیٹکل ایجنٹ صاحبزادہ عبد القیوم نے برٹش اور افغان سرحدوں کے تعین کیلئے اپنے اپنے سٹاف کی ٹیکنیکل معاونت سے سروے شروع کر دیئے اور 1896 میں 20 صفحات پر مشتمل اس سروے رپورٹ کے تفصیلی جائزے اور بحث کے بعد ڈیورنڈ لائن کے نام سے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں کا تعین کرتے ہوئے اس معاہدے کونافذکر دیا گیا۔ دونوں حکومتوں کی منظوری کے بعد بین الاقوامی طور پر بھی اسے دنیا بھر میں تسلیم کیاگیا۔۔۔۔ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے سرکاری ریکارڈ گواہ ہیں کہ 8اگست 1919 کو بھی اس معاہدے کی شق 5کے تحت اس کی تجدید کی گئی اور پھر22 نومبر1921 کو شق2 کے تحت اور پھر1930 میں افغان سربراہان حکومت کی جانب سے راولپنڈی میں اس معاہدے کی تیسری مرتبہ باقاعدہ تجدید کی گئی۔
آزادی حاصل ہونے پرپاکستان کو 1893 کا ڈیورنڈ لائن معاہدہ برطانوی حکومت سے ورثے میں ملا اور اب تک پاکستان اور کابل کے درمیان کسی بھی سطح پر کسی بھی وقت اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی کیونکہ بین الاقوامی قانون یہ کہتا ہے کہ International Convention UTI possidetis juris supports the position that it should not be changed۔۔۔۔۔ دنیا کے بہت سے ممالک کے درمیان سرحدی تنازعوں پر کئے گئے مختلف عدالتی فیصلوں اور ویانا کنونشن کے طے شدہ اصولوں میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ
UTI possidetis ''passed down'' to juris that binding bilateral agreements are successor states.
ایک سوال جو محمود خان اچکزئی اور اسفند یار ولی خان سے مختلف حلقوں کی جانب سے کئی برسوں سے پوچھا جا رہا ہے‘ جناب والا جب بھارت اور پاکستان دو علیحدآزاد اور خود مختار ریاستوں کی صورت میں وجود میں آ رہے تھے تو خان غفار خان نے تو صوبہ سرحد کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے صرف متحدہ ہندوستان کی بات کی تھی نہ کہ متحدہ افغانستان کی‘ اس لحاظ سے کے پی کے پٹھانوں کو ہندوستان کے ہندوئوں کے ماتحت کرنے والے باچا خان اور ان کے خاندان کو پٹھانوں کاترجمان اور ہمدرد کس طرح کہا جا سکتا ہے؟۔ میری اس بات پر پاکستان کے ہر پٹھان کا فرض بنتا ہے کہ وہ 1946 میں ہونے والے تاریخی ریفرنڈم کی تاریخ سامنے رکھ کر اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی سے پوچھیں جناب سچ کیا ہے؟۔ کیونکہ آج کی نسل کو سچ سے آگاہ ہو نا چاہئے انہیں جان لینا چاہئے کہ غفار خان نے 1946 میں صوبہ سرحد کے غیور پٹھانوں کو ہندوستان کے ماتحت کرنے کی تحریک چلائی تھی ۔فلپ نوئل بیکر کی30 جون1950 کی رپورٹ میں بھی برطانوی حکومت نے کابل کے اعتراضات پر ایک بار پھر ان الفاظ میں واضح کیا '' ڈیورنڈ لائن ایک انٹرنیشنل بارڈر کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔
1956 میں کراچی میںCETO کی منسٹریل کونسل کا اجلاس منعقد ہوا تو اس وقت کونسل کی منظوری سے جاری کئے جانے والے مشترکہ اعلامیہ میں صاف طور پر واضح کر دیا گیا تھا کہ سیٹو کونسل کے ممبران کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ پاکستان کی بین الاقوامی سرحدیں ڈیورنڈ لائن تک قانونی اور تسلیم شدہ ہیں اور ڈیورنڈ لائن معاہدے کی شق 4 اور 8 بھی واضح کرتا ہے کہ معاہدے کی رو سے پاکستانی سرحدیں ڈیورنڈ لائن تک مشتمل ہیں لیکن شیطانیت سے لبریز بھارت اپنے ریموٹ سے وقفے وقفے سے ڈیورنڈ لائن کے نام سے اپنی افغان کٹھ پتلیوں سے اچھل کود شروع کرا دیتا ہے۔ کئی برس تک افغانستان نے بھارت کی شہ پر پختونستان کے نام پر پاکستان کو پریشان کئے رکھا لیکن ہر بار اسے اس میں بری طرح ناکامی ملتی رہی کیونکہ کے پی کے کے غیور پٹھان پختونستان کا شوشہ اس کے نام لیوائوں کے منہ پر مارتے رہے جس سے وہ پچاس سال بعد اپنی شکست خوردہ ذہنیت کو سمیٹنے پر مجبور ہو گئے۔
افغانستان پختونستان کے بعد اب بھارت کا اتحادی بن کر بلوچستان کی آزاد ریاست کے نام سے پاکستان پر اس طرح براہ راست حملہ آور ہے کہ دہشت گردوں کو اپنے پاس نہ صرف پناہ دیئے ہوئے ہے بلکہ انہیں بلوچستان میں محفوظ مقامات تک پہنچانا، انہیں اسلحہ گولہ بارود اور بھاری ہتھیار وں کی مسلسل فراہمی کیلئے دن رات ایک کئے جا رہا ہے۔ اشرف غنی اور اس کے ساتھی اگر چاہتے ہیں کہ افغانستان میں دیرپا امن قائم ہو افغان عوام سکون کی زندگیاں بسر کریں تو انہیں افغانستان کو پاکستان کے خلاف بھارتی اڈہ بنانے کی بجائے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کیلئے اپنی سرحدوں پر آہنی باڑ لگاتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کو دونوں ممالک کے درمیان بطور مستقل پاک افغان سرحد تسلیم کرنا ہو گا!!