"MABC" (space) message & send to 7575

پولیس کے مجاہدو!

وہ جان چکے تھے کہ اجتماع گاہ کی جانب بڑھنے والا یہ شخص خود کش حملہ آور اور ایک دہشت گرد ہے۔ اس شخص کو اپنے جسم سے بندھی ہوئی جیکٹ سمیت اگر یہاں سے گزرنے دیا گیا تو یہ اپنے مطلوبہ ٹارگٹ کو نشانہ بناتے ہوئے خوفناک قسم کی تباہی مچائے گا‘ جس سے درجنوں ہلاکتیں ہو ں گی، بے تحاشا افراد زخمی ہو جائیں گے، جن میں سے بہت سے عمر بھر کے لئے معذور ہو کر جیتے جی مر جائیں گے۔ وہ چاہتے تو اپنی جانیں بچا سکتے تھے‘ وہ بھاگ بھی سکتے تھے جس کی سزا انہیں چند ماہ کی معطلی کی صورت میں برداشت کرنا پڑتی لیکن فرض ان پر غالب آ گیا۔ خود کش جیکٹ پہنے ہوئے دہشت گردکو اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ کر ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے معصوم بچوں کی شرارتیں کرتے ہوئے فرشتوں جیسی صورتیں گھومنے لگیں‘ انہیںجھکی ہوئی کمر والے اپنے بوڑھے ماں باپ کی شفقت اور پیار بھری دعائیں دیتی ہوئی شکلیں تڑپانے لگیں‘ انہیں اپنے معصوم بچوں کو اپنی گود میں سلاتی ہوئی سہاگنوں کی انتظار کرتی ہوئی شرم و حیا سے بھر پور نظریں دکھائی دینے لگیں لیکن اسی لمحے انہیں اپنی یونیفارم کے بائیں کندھے کے ساتھ چپکے ہوا پاکستان کا پرچم ان سب سے زیا دہ مقدم اور خوبصورت محسوس ہوا۔ انہیں اپنے بچوں کیلئے محفوظ پاکستان کی بنیاد رکھنے کے لئے اپنے جسموں کو دہشت گرد کی تباہ کن خود کش جیکٹ کو پھٹے ہوئے‘ اپنے چیتھڑے اڑاتے ہوئے دیکھنا سب سے بہتر لگا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ پاکستان اور پاکستانیوں کو بچانا ان کیلئے فرض کر دیا گیا ہے اور جسموں پر پہنی ہوئی وردی کا تقدس ہی ان کی زندگی ہے۔ ان کی اس چیک پوسٹ سے آگے ایک نیک مقصد کیلئے اللہ کی یاد میں آئے ہوئے لوگ ہی ان کا خاندان ہیں۔ ان میں بیٹھے ہوئے پاکستان کے کونے کونے سے آئے ہوئے عمر رسیدہ لوگ ہی ان کے بزرگ اور ان سے چند قدم دور بیٹھے ہوئے نوجوان ہی ان کے بھائی ہیں۔ پولیس کے ان مجاہدوں نے اپنے گوشت پوست کے جسموں کو تباہی ا ور بربادی پھیلانے کی نیت سے‘ دشمنِ پاکستان کے بھیجے گئے گولہ بارود کے ڈھیر کے سامنے حائل کر دیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگلے ہی سیکنڈ میں وہ زندگی کی تمام لذتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم ہو جائیں گے۔ وہ یہ بھی بخوبی جان چکے تھے کہ خود کش حملہ آور کی جیکٹ جب ایک خوفناک دھماکے سے پھٹے گی تو ان کے گوشت پوسٹ کے جسم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، وہ اس خوبصورت جیتی جاگتی زندگی سے حرفِ غلط کی طرح مٹ جائیں گے مگر ان کے قدم نہ ڈگمگائے اور نہ ہی کسی قسم کا خوف ان کے فرض کی راہ میں حائل ہوا۔
30مارچ 2009ء کو لاہور پولیس اکیڈمی مناواں پر بارہ دہشت گردوں کے حملے میں 8 پولیس اہلکار شہید اور 95 زخمی ہوئے۔ پندرہ اکتوبر 2009ء کو دہشت گردوں کے ایک گروپ نے لاہور ٹیمپل روڈ پر ایف آئی اے بلڈنگ‘ دوسرے گروپ نے مناواں پولیس ٹریننگ سکول اور تیسرے گروپ نے ایلیٹ فورس کی اکیڈمی پر حملہ کیا۔ ان حملوں میں 38 اہل کار اور افسر شہید جبکہ 20 زخمی ہوئے۔ رائے ونڈ ضلع لاہور میں حالیہ حملے میں اب تک گیارہ پولیس اہکار اور افسر شہید اور 38 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ کراچی سے خیبر تک‘ پولیس فورس کی قربانیاں پاکستانی قوم کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ ان شہدا میں بنوں کا اعتزاز ہو یا کوئٹہ کا عبد الرزاق‘ کے پی پولیس کے شہداء ہوں یا سندھ کے چوہدری اسلم‘ پنجاب میں لاہور ہائیکورٹ کے سامنے شہید کئے گئے مجاہد ہوں یا چیئرنگ کراس پر دہشت گردوں کے نشانے پر آنے والے کیپٹن مبین شہید اور ان کے گیارہ ساتھی‘ رائے ونڈ کے تبلیغی اجتماع کے شرکاء کی حفاظت کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند جمے ہوئے پولیس کے یہ اہلکار ہی وہ شہداء ہیں جن کے بارے میں قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ نے یہ کہتے ہوئے بشارت دے رکھی ہے کہ ''جس نے ناحق قتل کئے جانے والے کسی بھی بے گناہ انسان کی جان بچائی تو گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا‘‘۔ رائے ونڈ میں بد بخت دہشت گرد نے انسانیت کو کچلنے کی جو قبیح حرکت کی‘ اس کیلئے وہ اس وقت دربارِ الہیٰ کے اس فیصلے کے تحت بدترین سزا بھگت رہا ہو گا جس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ ''ان کو ان کے کئے کی اس قدر سخت سزا دی جائے گی کہ وہ ذقوم کے پتے اور کھولتا ہوا پانی پئیں گے اور ان کی جب ایک کھال پک جائے گی تو انہیں دوسری کھال دے دی جائے گی اور ان پر صادر کیا گیا یہ عذاب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہو گا‘‘۔ اورا س کے مقابلے ان دہشت گرد کے ہاتھوں شہید ہونے والی ہر جان اللہ کے حضور زندہ ہے۔ وہ خدا کے ہاں سے کھاتے پیتے‘ اور بہترین زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن ہم لوگوں کو اس کی خبر نہیں ہو پاتی۔ اسی لئے ان شہداء کے بارے میں قران پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ ''اللہ کی راہ میں مارے جانے والے زندہ ہیں‘ انہیں مردہ مت کہو، ہم انہیں بہترین رزق دیتے ہیں‘‘۔
تبلیغی اجتماع کے قریب اس حساس ترین چیک پوسٹ کی ذاتی طور پر دن رات کی پروا کئے بغیر کڑی نگرانی کرتے ہوئے اے ایس پی زبیر احمد شیخ کا اگر ذکر نہ کیا جائے تو یہ ناانصافی ہو گی۔ بدبخت دہشت گرد کو اپنی جانب بڑھتا ہو ا دیکھ کر ان کے قدم ذرا بھی نہیں لڑکھڑائے‘ ان کے ذہن میں ایک لمحے کیلئے بھی یہ خیال وارد نہ ہو سکا کہ اپنی پولیس فورس کے جوانوں کو قربانی کا بکرا بنا کر خود چپکے سے دور کھسک لیا جائے۔ وہ اور ان کے ساتھ کھڑے ہوئے دو گن مین اپنے افسر کو سینہ تان کر تیزی سے دہشت گرد کی نشاندہی کرتے ہوئے آگے کی جانب بڑھتا دیکھ کر الرٹ ہو کر‘ اس دہشت گرد کو روکنے کیلئے جیسے ہی آگے بڑھے‘ ایک زوردار دھماکہ ہوا اور پولیس کے یہ مجاہد اپنے ایڈیشنل اے ایس پی زبیر احمد شیخ کی طرح شدید زخمی ہو گئے۔ زبیر احمد شیخ اور ان کے یہ دونوں گارڈ اپنے دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ اس وقت جناح ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ ان سب بیماروں کو جلد از جلد صحت اور تندرستی عطا فرمائے تاکہ وہ ایک بار پھر وطن دشمنوں کے خلاف اپنے اپنے تفویض کردہ محاذ پر پہنچ سکیں۔
ایک جانب ملک کی ہزاروں کلومیٹر پر محیط سرحدوں کی حفاظت کیلئے سر بکف پاک فوج کے جوان اور افسر کھڑے ہیں تو دوسری جانب پولیس، ایف سی اور رینجرز کے جوان اپنی جانیں ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ STD کی شکل میں کام کرنے والی پولیس فورس ان دہشت گردوں کی تلاش میں کس طرح اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے‘ دن رات سرگرداں رہتی ہے۔
لاہور قذافی سٹیڈیم میں PSL کے سیمی فائنل میچ سے پہلے رائیونڈ کو دشمن کی جانب سے ٹارگٹ بنانے کے کئی مقاصد تھے‘ جن میں غیر ملکی کھلاڑیوں اور ان کے ممالک کو پیغام دینا مقصود تھا کہ پاکستان میں سکیورٹی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کیونکہ سابق وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے گھر سے کچھ فاصلے پر بھی اگر دہشت گردی کی جا سکتی ہے تو پھر کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ اگر یہ حملہ آور اجتماع گاہ کے اندر پہنچ جاتا تو پیدا ہونے والی خوفناک تباہی نے وہاں موجود ہزاروں کی تعداد میں آئے ہوئے لوگوں کو مشتعل کر دینا تھا جس سے فرقہ وارانہ منا فرت پھیلائی جا سکتی تھی۔ دشمن ہر وقت ہماری تاک میں ہے جو ہمارے امن و امان اور تشخص کو دنیا بھر میں بدنام کرنے پر تلا ہوا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں