"MABC" (space) message & send to 7575

جلاد کا احتجاج

Pakistan The Way Forward 2017 کے نام سے SAATH (سائوتھ ایشیا میں دہشت گردی اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف جدو جہد) کے تحت کرائی جانے والی کانفرنس میں شرکت کیلئے خصوصی طور پر حسین حقانی اور ان کے دوست امریکی کالم نگار ڈاکٹر طارق کو مدعو کیا گیا تھا۔ خیر سے ڈاکٹر طارق بھی پاکستان کے عسکری اداروں کے بارے میں حسین حقانی کے رنگ میں مکمل طور پر رنگے ہوئے ہیں۔ 
''ساتھ‘‘ کے نام سے 2017 کی یہ کانفرنس اس سلسلے کی کڑی تھی جس کا آغاز اکتوبر2016 میں لندن سے کیا گیا تھا ۔ حالیہ کانفرنس میں حسین حقانی کے علا وہ براہمداغ بگٹی، مہران مری، احمر مستی خان، حمال حیدر اور بنوک کریمہ بلوچ جیسے انتہا پسندوں کو بطور مقرر بلایا گیا ۔ اکتوبر 2016 میں 'ساتھ‘ کے زیر اہتمام کرائی گئی پہلی کانفرنس کے شرکاء کی گفتگو سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ پس پردہ بھارت ہے جو بلوچ علیحدگی پسندوں کے پیغام کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کانفرنس میں دہشت گردی اور انسانی حقوق پر کم بات ہوئی لیکن سی پیک او ر گوادر کے خوب لتے لئے گئے ۔ 2017 کی اس کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا گیاکہ SAATH کے دو سیکرٹریٹ قائم کئے جائیں گے جن میں سے ایک اسلام آباد میں اور دوسرا کسی دوسرے ملک میں قائم کیا جائے گا جس کا فیصلہ بعد میں ہو گا لیکن اسلام آباد کے سیکرٹریٹ کیلئے انتظامات سب سے پہلے کئے جائیںگے۔ اسلام آباد کی نواز۔۔۔ عبا سی حکومت اگر '' ساتھ‘‘ کو اسلام آباد میں سیکرٹریٹ کھولنے کی اجا زت دیتی ہے تو اسے یقینا بھارت کی پاکستان کے خلاف بہت بڑی کامیابی سمجھا جائے گا۔ اس لئے پاکستان کی ہر محب وطن قوت کو اس فیصلے کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہونا پڑے گا ۔دہشت گردی اور انسانی حقوق کے نام سے کرائی گئی اس کانفرنس کے شرکاء کا سب سے بڑا نشانہ گوادر بندر گاہ اور چین کے تعاون سے سی پیک منصوبہ رہا جس پر وہاں موجود کچھ شرکاء بے ساختہ بول اٹھے کہ دہشت گردی اور انسانی حقوق کے نام سے سجایا گیا یہ سب ڈرامہ بھارت کے اس بغض کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ہے جو اسے اندر ہی اندر سی پیک کے نام سے جلائے جا رہا ہے۔ لندن پوسٹ کے ڈاکٹر شاہد قریشی لکھتے ہیں کہ انڈین لابی کی ہونے والی حالیہ تقریبات میں ایک پاکستانی صحافی کا دشکا سید کے ساتھ دیکھا جانا سب کی توجہ کا مرکزرہا ،جس کے بارے میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے صحافی اور میڈیا پرسن مشاہد حسین سید کی نئی سیا سی اڑان کے تنا ظر میں بہت سی کہانیاں سنا رہے ہیں۔۔۔ یہ سوال سب کی زبان پر تھا کہ کیا مشاہد حسین دشکا سید کی پاکستان کے خلاف شدید پراپیگنڈا کے راگ کے نیچے ہونے والی بھارتی کانفرنس میں شرکت سے آگاہ تھے؟۔
اس کانفرنس کی سب سے منظور نظر ایک خاتون صحافی تھیں اس لئے وہاں پر جب ان سے ''۔پس پردہ مصنف ‘‘کے عنوان سے روزنامہ دنیا میں شائع راقم کے مضمون کے حوالے سے پوچھا گیاتو خاتون نے کہا کہ وہ '' پاکستان کے اہم ادارے کے کردار پر ایک اور کتاب لکھ رہی ہیں جو جلد ہی مارکیٹ میں آ جائے گی‘‘ ۔ کہا جا رہا ہے کہ دشکا سید اور اس پاکستانی خاتون صحافی کی لندن میں گاڑھی دوستی اسی کتاب کے حوالے سے ہے ۔ لندن کے با خبر حلقوں کا کہنا ہے کہ ان دونوں کی بڑھتی ہوئی دوستی کی وجہ مشاہد حسین کی نواز میڈیا سیل کی نگرانی اور پاکستانی فوج سے متعلق میاں نواز شریف کے خیالات سے ہم آہنگی بتائی جا تی ہے۔
''ساتھ‘‘ کے عنوان سے قائم کرائی گئی اس تنظیم کا دہشت گردی سے نفرت اور انسانی حقوق کا احترام دیکھئے کہ '' بلوچستان میں وکلاء، مزدوروں، راہ چلتے مسافروں، مارکیٹس سے سودا سلف خریدنے کیلئے آنے والی خواتین اور ان کے ہمراہ چلتے ہوئے معصوم بچوں کو بم دھماکوں اور سنیپ فائرنگ سے اپنی گوریلا فورس کے ہاتھوں ہلاک کروانے والے والوں کا یہ گروہ خود پر دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کرنے کا لیبل لگائے ہوئے ہیں؟۔SOUTH ASIAN's AGAINST TERRORISM AND HUMAN RIGHTSـــــــ(ساتھ) کے نام کا لاحقہ کچھ عجیب سا لگ رہا تھا؟۔ کیا اس کانفرنس میں پاکستان پر گرجنے برسنے والوں کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی نظر نہیں آ تی؟۔ آسام اور دارجلنگ میں بھارتی فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی پر اس کانفر نس میں کسی کو بات کرنے کی اجا زت کیوں نہیں؟۔ SAATH کو میانمار میں انسانی حقوق کی پامالی کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ ساتھ کو بھارت بھر میں گائو کشی کے نام سے مسلمانوں کو زندہ جلائے جانے کے واقعات نظر کیوں نہیںآتے۔۔۔۔بنگلہ دیش میں اپنے نظریات سے اختلاف کرنے والے سیا سی مخالفین کو دی جانے والی پھانسیاں انہیں انسانی حقوق کی یاد کیوں نہیں آنے دیتیں ؟۔ 
SAATH کے بینر تلے اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کچھ مقررین نے حسب معمول پاکستان میں سیکولر اورpluralist سوچ اور پیغام کو مضبوط اور مربوط کرنے کی ضرورت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی تمام ذمہ داری پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر ڈالتے ہوئے یہ گردان شروع کر دی کہ وہ ا ن نظریات کے خلاف کام کرنے والی قوتوں اور انتہا پسندوں کی سرپرستی کرتی ہے۔ ''ساتھ‘‘ کے مقررین کے جھوٹ کا پول کھولنے کیلئے یہ بات اقوام متحدہ سمیت امریکہ اور یورپی یونین کے ریکارڈ میں موجو دہے کہ صوفی ازم کو فروغ دینے اور مذہبی رواداری کیلئے پاکستان کی عسکری قوتوں کی جانب سے جو توجہ دی گئی ہے اس کا ایک زمانہ معترف ہے۔پاکستانی فوج کے تعاون سے تیار کی جانے والی '' خد اکیلئے‘‘ جیسی مشہور اور تاریخی فلم ان تمام قوتوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستانی فوج انتہا پسند مذہبی سوچ رکھنے والوں کو تحفظ دیتی ہے۔ ''خد اکیلئے‘‘ کے نام سے ریلیز کی جانے والی فلم میں مذہبی جنو نیوں کو جس انداز سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا نوجوان نسل کے سامنے مذہبی انتہا پسندوں اور مذہب کی آڑ میں دہشت گردوں کے سرپرستوں کو جس طرح بے نقاب کیا گیا اس طرح تو آج تک امریکہ اور برطانیہ میں نہیں کیا جا سکا ۔ شمالی ا ور جنوبی وزیرستان سمیت سوات اور فاٹا میںراہ حق سے رد الفساد تک پاکستانی فوج کے یکے بعد دیگرے آپریشن کسی سیکولر کے خلاف نہیں کسیPluralist کے خلاف نہیں بلکہ ان مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف سینکڑوں جانیں قربان کرتے ہوئے کئے گئے جن کا ایک زمانہ معترف ہے۔ جس کانفرنس میں براہمداغ بگٹی اور بنوک کریما جیسی شخصیات کو خصوصی طور پرتقریر کرنے کیلئے لندن بلایا جائے اس کے بارے میں کسی کو شک ہی نہیں رہتا کہ یہ سب کس ملک کا سپانسرڈ پروگرام چل رہا ہے کیونکہ اس میں وہی کچھ کہا گیا جو بھارت کے عسکری لیڈر اور ان کا میڈیا کہے جا رہا ہے ۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بلوچ عسکری گروپوں کے سرپرستوں اور لیڈران کو لندن بلا کر ان سے جس قسم کی من گھڑت کہانیاں پاکستان بارے سنوائی گئیں اور جس طرح اس کانفرنس کو کوریج دی گئی اس سے را کی باچھیں کھلی جا رہی تھیں ۔ براہمداغ بگٹی مہران مری حمال حیدر جب بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کا درد ناک انداز میں ذکر کر رہے تھے تو ایسے لگ رہا تھا جیسے۔۔۔۔جلاد خود احتجاج کر رہا ہے!! جب حسین حقانی اور ڈاکٹر طارق تقریر کرنے کیلئے کھڑے ہوئے تو دشکا سید سمیت تمام بلوچ علیحدگی پسندوں نے کھڑے ہو کر جس طرح ان کا استقبال کیااس سے لگ رہا تھا کہSAATH کا یہ سٹیج حسین حقانی جیسے وطن فروشوں کیلئے سجایا گیا تھا۔۔!!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں