14 فروری 2006ء کو سینٹرل لندن میں رحمان ملک کی رہائش گاہ پر میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان طے کرائے جانے والے میثاق جمہوریت میں لکھوایا گیا کہ ''نیشنل سکیورٹی کونسل‘‘ ختم کر کے وزیر اعظم کی مرضی سے ایک نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر تعینات کیا جائے گا‘ جو ملک کے تمام حساس اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس کو مانیٹر کرے گا‘‘۔ اسی میثاقِ جمہوریت کی شق 16 کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے قائدین نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ جب کبھی ان دونوں میں سے کسی ایک سیاسی جماعت کی حکومت بنے گی تو ''پاکستان کی موجودہ کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کو ختم کر کے ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کے تحت ایک نئی نیوکلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی قائم کی جائے گی...‘‘۔ میرے خیال میں یہ وہ شق ہے جس پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کا نیوکلیئرپروگرام مکمل منجمد اور اس کے اثاثے ناکارہ بنا دیئے جانے تھے تا کہ جس کا جب دل چاہے انہیں ٹھوکر مار دے۔ میرا یہ بھی گمان ہے کہ برطانیہ اور امریکہ نے بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو باری باری حکومتیں سونپنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے حکم دیا تھا کہ ''میثاق جمہوریت میں یہ شق رکھی جائے کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس براہِ راست وزیر اعظم سیکرٹریٹ اور کیبنٹ ڈویژن کے تحت کام کریں گی‘‘۔ امریکہ اور برطانیہ نے اس وقت یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ مرکز میں پہلی حکومت پی پی پی کی بنائی جائے گی۔
میثاق جمہوریت پر دستخط ہونے کے بعد 2008ء میں پہلے قومی انتخابات منعقد ہوتے ہیں‘ جن کے نتائج کے بعد پنجاب میں نواز لیگ اور مرکز میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی مشترکہ حکومت قائم ہو جاتی ہے‘ جس کا حکمِ حاکم کے مطابق پہلا ہدف آئی ایس آئی تھی اور ابھی زرداری صاحب صدر پاکستان کے عہدے پر بٹھائے نہیں گئے تھے کہ 25 جولائی 2008ء کو دنیا بھر کے میڈیا میں ایک عجیب و غریب خبر نے سب کو چونکا کر رکھ دیا‘ جب بھارت کے مرکزی وزیر برائے توانائی اور تجارت جے رام رامیش نے پاکستان کی پی پی اور نواز پر مشتمل مشترکہ حکومت سے مطالبہ کر دیا کہ وہ ''آئی ایس آئی کو بحیرہ عرب میں غرق کر دے‘‘ اور اسی رات جب بھارتی وزیر تجارت اور توانائی جے رام رامیش پاکستانی حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے تھے‘ آصف علی زرداری کے حکم پر کیبنٹ ڈویژن آئی ایس آئی کے ہاتھ پائوں باندھنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیتا ہے‘ جس کے احکامات میں لکھا تھا کہ آج اور اسی وقت سے آئی ایس آئی صرف رحمان ملک (وزیرِ داخلہ) کو جواب دہ ہو گی۔ آئی ایس آئی کے لوگوں کی پوسٹنگ ٹرانسفر اور فنڈز کے معاملات کا تمام کنٹرول رحمان ملک یا جو بھی وزیر داخلہ ہو گا اس کے پاس چلا جائے گا۔ جیسے ہی یہ خبر باہر آئی دنیا بھر میں شور اٹھا‘ اور پاکستان کے اندر اور باہر مختلف شکلوں میں ملک کے لئے خفیہ خدمات سرانجام دینے والے حیران رہ گئے کہ یہ نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا گیا ہے؟ یہ کیسے جاری ہو گیا؟ جس کے تحت ملک کی پریمیئر خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو وزارتِ داخلہ کے سیکشن افسروں کی تحویل میں دیا جا رہا ہے؟ ان احکامات کے تحت ایجنسی کے تمام اندرون اور بیرون ملک اثاثے اور اس کے لئے کام کرنے والے تمام ایجنٹ وزیر داخلہ رحمان ملک کے نوٹس میں آ جانے تھے۔ ذرا سوچئے کہ جو مودی کو خوش رکھنے کے لئے آج کلبھوشن کا نام زبان پر نہیں لا رہے‘ انہوں نے آئی ایس آئی کے لئے کام کرنے والوں کی نشاندہی اسی طرح کر دینی تھی‘ جس طرح کشمیری مجاہدین کی آئی کے گجرال کو کی تھی؟ آئی ایس آئی کے پر کترنے کے اس نوٹیفکیشن کو جاری کرانے کے پس پردہ وہ لوگ تھے‘ جنہیں 24 مئی 2008ء دس بجے صبح
آئی ایس آئی نے اطلاع دی تھی کہ ایک سفید ٹویوٹا لینڈ کروزر جنوبی وزیرستان کی پہاڑیوں سے نکل رہی ہے‘ جس میں پاکستان کے ایک ہزار سے زائد بے گناہ شہریوں اور تین سو سے زائد (اس وقت تک) فوج، ایف سی کے افسروں اور جوانوں کا قاتل بیت اللہ محسود سوار ہے۔ آئی ایس آئی نے امریکی سینٹرل کمانڈ اور سی آئی اے کو یہ تک بتا دیا تھا کہ بیت اللہ محسود اس وقت جنوبی وزیرستان کی پہاڑیوں میں کس رینج اور فریکوئنسی میں سفر کر رہا ہے۔ آئی ایس آئی بار بار میسیج کرتی جا رہی تھی کہ امریکی اپنے سیٹلائٹ کے ذریعے اسے نشانہ بنائیں‘ لیکن ڈرون کو کنٹرول کرنے والے امریکی ٹس سے مس نہیں ہو رہے تھے۔ یہاں تک تحریکِ طالبان پاکستان کا امیر بیت اللہ محسود اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا‘ جہاں اس نے میڈیا سے بات چیت کے لئے کچھ منتخب لوگوں کو بلوایا ہوا تھا۔ پریس کانفرنس کے بعد جب بیت اللہ محسود واپسی کے لئے روانہ ہوا تو آئی ایس آئی نے ایک بار پھر امریکیوں کو اس کی نقل و حرکت کی اطلاعات دینا شروع کر دیں‘ لیکن امریکیوں نے اس بار بھی کوئی ایکشن نہ کیا‘ جس پر آئی ایس آئی سٹپٹا کر رہ گئی۔ اس وقت جنرل مشرف صدر تھے۔ انہوں نے امریکیوں سے سخت لہجے میں بات کی‘ اور ساتھ ہی امریکہ اور نیٹو کے لئے دی گئی سہولیات واپس لینے کی دھمکی دے دی۔ اس دھمکی کے دو دن بعد کابل میں بھارتی سفارت خانے پر اچانک حملہ ہو گیا‘ تو امریکی فوج کے چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف ایڈمرل مائیکل مولن اور سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر سٹیفن آر کیپز سمیت بھارتی حکومت اور میڈیا جنرل مشرف اور آئی ایس آئی پر دہشت گردی کرانے کے بھونڈے الزامات لگاتے ہوئے اسے اپنے نشانے پر لے لیتے ہیں اور جب سخت غصے میں اگلے ہی دن امریکی جنرل آرمی ہائوس پہنچتے ہیں تو انہیں دوویڈیو فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ ایک فلم میں براہمداغ بگٹی کو نئی دہلی ایئر پورٹ سے بھارتی ''را‘‘ کے سیف ہائوس تک جاتے دکھایا جاتا ہے۔ ابھی مائیک مولن اور سٹیفن اس حملے سے سنبھلتے بھی نہیں کہ ''را‘‘ کے افغانستان کے مشن ہیڈ کے ساتھ براہمداغ بگٹی کی ایک اور فلم دکھا دی جاتی ہے۔ امریکہ کو یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ ہمارے پاس مکمل ثبوت موجود ہیں کہ بیت اللہ محسود امریکہ کا آدمی ہے‘ جسے بھارت کی بھی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ چند دن بعد اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کو امریکی فوری طور پر دورۂ امریکہ کی دعوت دیتے ہیں‘ جو پی پی پی کی حکومت کے لئے بہت بڑی بات تھی‘ لیکن امریکیوں نے اس دورے سے مشروط حکم دیا کہ آئی ایس آئی کا بندو بست کرکے امریکہ آنا ہے‘ اور جونہی یوسف رضا گیلانی امریکی دورے کے لئے ان کی سرزمین پر اترتے ہیں‘ آصف علی زرداری کے حکم سے آئی ایس آئی کے پر کترنے کے احکامات جاری کر دیئے جاتے ہیں۔
آئی ایس آئی جیسے ادارے‘ جو ملک کے اندر اور باہر ملکی سلامتی کے لئے ہزاروں آنکھیں‘ دماغ اور کان استعمال کر رہا ہے‘ کو لاوارث بنا دینا میری نظر میں نواز اور زرداری کا مشترکہ ایجنڈا ہے‘ پاکستان کا ہرگز نہیں۔ پی پی کے جاری کردہ آئی ایس آئی والے نوٹیفکیشن کے بعد یکم اگست 2008ء کو آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں نیوکلیئرمعاملات کے متعلق پی پی پی اور نواز شریف کی مشترکہ حکومت بھارت کے حق میں ووٹ دے دیتی ہے... اور اگر دس برس قبل کے قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ٹکر دیکھنے کی زحمت کی جائے تو بھارت کو ووٹ دینے کے بعد جناب نواز شریف نے ایسے ہی نہیں کہا تھا 'بھارت اور پاکستان کے درمیان ویزہ سسٹم ختم کر کے سرحدوں کو آمد و رفت کیلئے کھول دینا چاہئے‘۔