"MABC" (space) message & send to 7575

امریکی مدا خلت شروع ہو گئی ؟

یہ جولائی 1996ء کی ایک شاندار صبح تھی جب مری میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میاں محمد نواز شریف کی کشمیر پوائنٹ گورنر ہائوس سے متصل عالیشان رہائش گاہ میں امریکہ کی خفیہ ایجنسی سے متعلقہ لوگوں کی ایک ٹیم اپنے ساتھ لائے ہوئے سکیورٹی آلات سے ایک ایک کونے کو چیک کرنے میں مصروف تھی یہاں تک کہ انہوں نے کافی کی تیاری کیلئے میاں نواز شریف کی مری کی اس رہائش گاہ کے کچن کی بھی صفائی کی اور پھر اپنی نگرانی میں آنے والے مہمان کیلئے ان کے پسندیدہ کھانوں کی تیاریاں دیکھنا شروع کر دیں۔ بہت سے کھانے قریبی فائیو سٹار ہوٹل سے منگوائے گئے۔۔۔۔میاں نواز شریف اور سید مشاہد حسین مری کے اس گھر میں آنے والے مہمان خصوصی کے استقبال کی آخری تیاریوں میں مصروف تھے کہ سخت سکیورٹی میں ایک بلٹ پروف کالی جیپ ان کی رہائش گاہ پہنچ گئی ۔۔۔میاں نواز شریف نے آگے بڑھ کر مہمان خصوصی کا انتہائی گرمجوشی سے مسکراتے ہوئے استقبال کیا اور یہ مہمان خصوصی امریکہ کی اس وقت کی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا مسز رابن رافیل تھیں جو اصل میں مری میں ہونے والی ملاقات کیلئے خصوصی طور پر وائٹ ہائوس اور سی آئی اے کی بریفنگ کے بعد بھیجی گئی تھیں۔ یہ ملاقات کھانے کے وقفے سمیت کوئی تین گھنٹے سے بھی زائد عرصے تک جاری رہی اور جب یہ ملاقات ختم ہو گئی تو اس کے چند دن بعد مری کے پی سی بھور بن ہوٹل میں اسلام آباد سے کوئی پانچ سے سات کے قریب با اثر اور مشہور صحافیوں کو میاں نواز شریف نے کھانے پر مدعو کیا جس میں چوہدری نثار اور خواجہ آصف بھی میاں نواز شریف کے ہمراہ وہاں موجودتھے۔ ان صحافیوں سے یہ کہتے ہوئے وعدہ لیا گیا کہ نواز لیگ جلد ہی اقتدار میں آنے والی ہے ۔۔۔آپ ہم سے اس بات کا وعدہ کر یں کہ پہلے چھ ماہ تک آپ ہم پر کوئی تنقید نہیں کریں گے اور ہمارا ساتھ دیں گے۔یہ سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا کیونکہ مرکز میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں اور ان کے فاروق لغاری بھائی صدر مملکت تھے اور ابھی ملک میں نئے عام انتخابات کا عرصہ مکمل ہونے میں دو سال کا عرصہ باقی تھا اور میاں نواز شریف صاحب یہ باتیں اس وقت کہہ رہے تھے جب ابھی محترمہ کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کا بہیمانہ قتل بھی نہیں ہوا تھا۔ مسزرابن رافیل کی ملاقات کے اگلے روز رائے ونڈ جاتی امراء میں مٹھائیاں بانٹنا شروع کر دی گئیں کہ'' ا ساں ایک واری فیر وزیر اعظم بن رئے آں‘‘۔ نہ جانے محترمہ بے نظیر بھٹو کی وہ کون سی خفیہ ایجنسیاں تھیں جنہیں ان سب خبروں کی بھنک بھی نہیں پڑ رہی تھی یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت کی آئی بی کے سربراہ یا ان کے خصوصی نائبین سب میاں نواز شریف یا امریکی سی آئی اے سے اندرونی اتحاد کر چکے تھے کہ محترمہ کو بے خبری میں ہی اس طرح مار دیا گیا کہ بہن وزیر اعظم پاکستان اور بھائی کا کلفٹن میں ان کے گھر کے نزدیک قتل اور پھر 6 نومبر1996 کو حکومت کا فاروق لغاری کے ہاتھوں ایسا دھڑن تختہ کہ آصف علی زرداری کو لاہور کے گورنر ہائوس سے گرفتار کرنا۔۔۔نوٹوں کی بوریاں نکلنا۔۔۔ ایئر کنڈیشنڈ اصطبل اور گھوڑوں کو جام مار ملیڈ کی خود ساختہ کہانیاں نجم سیٹھی، مشاہد حسین اور ارشاد حقانی کی زبانی سرکاری ٹی وی اور اخبارات میں گھومنا شروع ہو گئیں۔اور پھر سب نے دیکھا کہ مسز رابن رافیل کے اس دورئہ مری کے صرف تین ماہ بعد محترمہ کی حکومت ختم کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت تھماتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کر دیا جاتا ہے ۔ نائب امریکی وزیر خارجہ مسز رابن رافیل کے بارے میں یاد رکھیں کہ وہ پاکستان میں امریکی سفیر رافیل کی بیوہ تھیں جو جنرل ضیاالحق کے ہمراہ امریکہ کے دیئے جانے والے ٹینکوں کی آزمائشی مشقیں دیکھنے کیلئے ان کے ساتھ C-130 جہاز میں سوار تھے۔ عمران خان سمیت پاکستان کے سیا سی لیڈران کی سمجھ میں اب آ گیا ہو گا کہ '' دو بڑوں کی ملاقاتیں کیوں ہوئیں؟‘‘ لاکھ تردید کے با جود کچھ لوگ اس خبر یا افواہ پر کیوں قائم ہیں کہ میاں شہباز شریف کی انتہائی اہم عسکری حکام سے ملاقاتیں ضرور ہوئی ہیں؟۔لندن میں میاں شہباز شریف کے انتہائی قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ جب'' گھی سیدھی انگلیوں سے نہ نکلے تو پھر ٹیڑھی انگلیوں سے نکالنا ہی پڑتا ہے‘‘ اور شائد یہی ٹیڑھی انگلیاں دیتے ہوئے ایلس جے ویلز کو خاص طور پر ایسے وقت میں پاکستان بھیج دیا گیا ہے جب اس حکومت کے صرف دو ماہ باقی ہیں۔لیکن وہ جو کچھ نہ کچھ خبر رکھتے ہیں انہیں یقین ہے کہ میاں شہباز شریف کا لندن میں گیارہ روزہ قیام'' ایویں ای نئیں‘‘تھا۔
شاہد خاقان عبا سی کا '' نجی دورہ امریکہ‘‘ جس میں ان کے عہدے کی امریکی سٹاف نے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر عزت افزائی بھی کی اور جس میں وہ نائب صدر امریکہ اور کانگریس سمیت سینیٹ کے با اثر ارکان سے فرداً فرداً خفیہ ملاقاتوں کے نتیجے میں امریکہ کی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز برائے سائوتھ ایشیا کو پاکستان کے ہنگامی لیکن اپنے مطلب کے خصوصی دورے پر پاکستان لانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ۔ اب لاکھ کہا جائے کہ شاہد خاقان عبا سی تعلیم ‘صحت اور عدلیہ کے مسائل حل کرنے کیلئے چیف جسٹس سے ملے تھے لیکن کوئی بھی اس توجیح پر یقین کرنے کوتیار نہیں۔ سب جانتے ہیں اور امریکہ میں تو با خبر حلقے اور میڈیا ابھی سے کہنا شروع ہو چکے ہیں کہ لوگ نہ جانے کیوں کرید رہے ہیں کہ امریکہ کی نائب وزیر خارجہ پاکستان کن مقاصد کیلئے پہنچی ہیں اور ان کا ایجنڈا کیا ہے۔ اس طرح کے جھمیلوں میں پڑنے والوں کو مشورہ ہے کہ وہ ایلس ویلز کے دورہ پاکستان کو صرف اسی تنا ظر میں دیکھیں جس تنا ظر میں وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عبا سی کی ایک اہم شخصیت سے دو گھنٹہ تک ون ٹو ون ملاقات ہوئی ہے۔اس ملاقات میں جیسا کہ راقم نے اپنے پہلے کالم میں لکھا تھا کہ اس دوران ایک اہم غیر ملکی شخصیت کا مبینہ طور پر فون بھی موصول ہوا تھا اور کہا جا رہا ہے کہ اس فون کال میں بتادیا گیا تھا کہ ایلس ویلز ایک خصوصی پیغام اور درمیانی راستے کی تجویز لے کر پاکستان بھیجی جا رہی ہیں۔ 
نائب امریکی وزیر خارجہ برائے سائوتھ ایشیا 2017 اور پھر ابھی صرف دو ماہ ہوئے پندرہ سے سولہ جنوری 2018 میں پاکستان کا تفصیلی دورہ کر چکی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ 2017 کے دورہ پاکستان میں وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر براجمان میاں نواز شریف نے ان سے ایک اہم وعدہ کیا تھا اور جس کیلئے انہوں نے ایک شق کو خاموشی سے انتخابی اصلاحات کے نام سے اپنی عددی قوت کے بل بوتے پر قومی اسمبلی سے منظور بھی کرا لیا اور منظور کرائے گئے بل کے ذریعے آئین پاکستان سے اقرار نامہ کی صورت میں حذف کرا دیا ۔ 
تحریک انصاف اور عمران خان کیا ایلس جے ویلز کی اچانک آمد کے ایجنڈے سے آگاہ ہیں؟۔ کیا وہ پاکستان کا وائسرائے بن کر آنے والی ایلس جے ویلز کا مقابلہ کرنے کیلئے لاہور میں کھڑے ہو کر امریکہ کو للکارنے کی ہمت کرسکیں گے؟ کیا وہ ملک کی عدلیہ اور عسکری قوتوں کو میرٹ پر کاربند رہنے کا نعرہ مستانہ دینے کی ہمت اور قوت رکھتے ہیں۔۔۔ اب وقت ہے کہ امریکی غلامی سے نجات حاصل کر لی جائے ایسا نہ ہو کہ اس نئے امریکی این آر او اور پی پی پی کے گزشتہ دور حکومت میں آئی ایس آئی کے پر مکمل طور پر کترنے کے ادھورے ایجنڈے پر پھر سے عمل در آمد شروع کرا دیا جائے؟۔۔!! 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں