اپنے کالم کے عنوان میں ذکر بھوٹان، نیپال اور مالدیپ کا کیا ہے کیونکہ بھارت کے اردگرد‘ سارک ممالک میں سے بنگلہ دیش اور میانمار پہلے ہی اپنی خود مختاری بیچ کر‘ مکمل طور پر خود کو بھارت کے حوالے کر چکے ہیں۔ اب خطے کے دو ممالک پاکستان اور سری لنکا ہی ایسے ہیں‘ جنہیں بھارت اپنے چوہوں کے ذریعے‘ کہیں اخلاقی‘ کہیں لسانی تو کہیں فرقہ پرستی اور دہشت گردی کے ذریعے آہستہ آہستہ کترنے میں مصروف ہے۔ بھارت نے اپنا ہدف ہمیشہ کی طرح ان ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو بنا رکھا ہے۔ پہلے میانمار (برما) میں بدھسٹ دہشت گردوں کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کی نسلیں مٹانے اور انہیں ذبح کروانے کا سلسلہ جاری تھا مگر اب تو سری لنکا میں بھی بدھسٹ انتہا پسند مسلم مساجد اور وہاں عبا دت کیلئے آنے والے مسلمانوں پر بم حملے کرنے اور نمازیوں کو زندہ جلانے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ اس سے قبل بھارت‘ کوئی بیس برس تک اپنے تیار کئے گئے تامل ٹائیگرز کے ذریعے سری لنکا کو اپاہج کرکے ہڑپ کرنے کی لگاتار کوششوں میں ناکامی کا منہ دیکھ چکا ہے، اسی ناکامی کے باعث اب وہ مذہبی منافرت کے ذریعے اسے تقسیم کرنے پر لگا ہوا ہے‘ جس کا مظاہرہ اس نے برما اور بنگلہ دیش کی صورت میں کیا ہے۔
نیپال اپنی خود مختاری کی حفاظت کے نام پر نہ جانے کب سے بھارت کی آنکھوں میں ایک کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ ایک وقت میں بھارت کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے نیپال میں اپنے ڈھب کے لوگ برسراقتدار لا کر کامیابیاں ملنا شروع ہو جاتی ہیں لیکن جلد ہی اس کا ٹارگٹ اس سے کچھ دور ہو جاتا ہے کیونکہ نیپال کی جغرافیائی صورت حال اگر بھارت کے لئے دلکش ہے تو اس کے ساتھ جڑا ہوا جمہوریہ چین بھی اس کی اہمیت سے واقف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں ملک نیپال میں اپنے قدم مضبوط جگہ پر جمانے کیلئے ایک دوسرے کے مد مقابل رہتے ہیں لیکن ان دونوں ملکوں کی نیپال میں دلچسپی اس وجہ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے کہ چین کی خواہش ہے کہ نیپال ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے قائم رہتے ہوئے ترقی کرے جبکہ اس کے مقابل بھارت اس کو اپنے ایک صوبے سے زیا دہ اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ بھارت کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ نیپال اگر سوتا اور جاگتا ہے تو بھی یہ سب اس کی مرضی اور خواہش کے مطا بق ہو مگر نیپال کے لوگ اس حد تک بھارت یا کسی بھی اور ملک کی غلامی کو اپنے لئے ذلت کے سوا کچھ نہیں سمجھتے۔ نیپال نے کئی مرتبہ بھارت کےOctopus Squeeze کو توڑتے ہوئے اس سے نکلنے کا سوچا لیکن اس کے جغرافیائی حدود کے لینڈ لاکڈ ہونے کی مجبوری اس کے آڑے آتی رہی۔ اس کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ باقی دنیا سے اپنے تجارتی سلسلوں کو برقرار رکھنے کیلئے بھارتی جبر اور دبائو کو قبول کرتا رہے۔
نیپال کے سر پر‘ اپنے سے کئی گنا بڑی‘ دیو ہیکل اور طاقتور ملک کی حیثیت سے بھارتی مداخلت سوار ہے جس نے کئی دہائیوں کی جمہوری جدوجہد کے باوجود نیپال کو اب تک ایک متفقہ آئین سے محروم کیا ہوا ہے، نیپال کی خود مختاری بھارتی بوجھ تلے دبی رہتی ہے۔ جس طرح بھارت کراچی اور بلوچستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مداخلت کرتا چلا آ رہا ہے‘ اسی طرح بھارت نے نیپال کے ترائی ریجن میں رہنے والے Madheshi اور Janjati قبائل کو ایک فاسد منصوبے کے تحت بھارت کی بہار اور اتر پردیش ریاستوں سے نیپال میں لا بسایا۔ بعد ازاں انہیں لسانی طور پر نیپال کی وحدت کے خلاف بھڑکانے کے عمل کا آغاز بھی کیا گیا جس کے باعث ایک عرصے سے نیپال میں گڑ بڑ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مدھیشیا اور تھارو قبائل وقفے وقفے سے نیپال حکومت کے خلاف پر تشدد مظاہرے کرتے ہیں جس کی آڑ میں بھارت نیپال کی سمندر سے محرومی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی تجارت پر پابندیاں عائد کر دیتا ہے۔ بھارت کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ نیپال میں خوراک، ادویات اور اشیائے خوردنی کی ترسیل نہ ہونے سے نیپالی عوام بھوک اور بدحالی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی‘ دودھ اور معیاری غذا نہ ملنے سے اموات ہو رہی ہیں مگر اس دوران بھارت کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کے پروردہ قبائل نے جو بھی مطالبہ کیا ہے‘ فوری تسلیم کیا جائے، یہ کوئی ایک دفعہ نہیں ہوا بلکہ ہر تین چار ماہ بعد ان قبائل کی جانب سے کوئی نیا مطالبہ سامنے آ جاتا ہے۔ کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ ان کے مطالبات تسلیم کرنے کی صورت میں نیپال کا بطور ایک آزاد سلطنت کوئی وجود ہی نہیں رہتا۔ اس سلسلے میں 2015ء میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ نے‘ جو ان دو قبائل کے لیڈران کو بے پناہ فنڈز مہیا کرتی ہے، نیپال کو اپنے سامنے جھکانے کیلئے پر تشدد ہنگامے شروع کرا دیئے تھے‘ جن سے نمٹنے کیلئے نیپال کی پولیس اور فوج کو مداخلت کرنا پڑی۔ بھارت کو تو ایک بہانہ چاہئے تھا‘ اس نے فوری طور پر مدھیشی اور جنجاتی قبائل کے خلاف طاقت استعمال کرنے پر‘ نیپال کی طرف ہر قسم کی ٹرانسپورٹس بند کر دیں، جس سے نیپال کے تمام زمینی رستے بند ہو کر رہ گئے۔ اس کے چند دن بعد نیپال میں اشیائے خوردنی، ادویات اور ہر قسم کے تیل کی آمد بند ہو گئی، نیپالی عوام بیماریوں اور غذائی قلت سے مرنے لگے اور قحط کی سی صورت حال کے اس قدر خوفناک مناظربین الاقوامی میڈیا نے دکھائے کہ پورا عالم کانپ اٹھا لیکن اگر نہ کانپا تو انتہا پسند ہندو۔ ہر قسم کی ٹرانسپورٹ کی نیپال میں آمد بند ہونے سے‘ 2015ء میں بھارت کے مسلط کردہ قحط کو سامنے لاتے ہوئے روح کانپ جاتی ہے۔ اس پر بین الاقوامی دنیا بھی بھارت کی گھٹیا مداخلت پر چیخ اٹھی تھی۔ اس وقت نیپال میں اس بلا کا قحط پڑا کہ لوگ خوراک کے ایک ایک دانے کیلئے ترسنے لگے تھے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے ظلم و بر بریت کی انتہا دیکھئے کہ نیپال میں کسی بھی قسم کی ٹرانسپورٹ اور سامان کی بندش ایسے وقت میں کی گئی جب نیپالی عوام ایک خوفناک اور قیامت خیز زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹ رہے تھے۔ نجانے وہ کون سے ملک ہیں‘ جو نریندر مودی کو انسانیت کے درجے پر فائز سمجھتے ہیں، نجانے وہ کون لوگ‘ وہ کیسے حکمران ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں سے نیپال میں زلزلے کی تباہ کاریاں دیکھنے کے بعد‘ اس کی نیپال کو خوراک، ادویات اور تیل کی بندش کرنے پر بھی اسے ایوارڈ سے نوازا ہے۔ نجانے وہ کون سی جمہوری قوتیں‘ وہ کون سے انسانی حقوق کے چیمپئن ممالک ہیں، وہ کون سی ہیومن رائٹس کی تنظیمیں ہیں، وہ کون سے تھنک ٹینکس ہیں جو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے خوراک، ادویات، پٹرول، ڈیزل اور ہر قسم کے خوردنی تیل اور سبزیوں سے لے کر نیپال جانے والے راستوں کے سامنے بند باندھنے کے احکامات کی وجہ سے نیپالی بچوں کی بھوک اور دودھ کی محرومی سے اکڑی ہوئی لاشیں دیکھنے کے بعد بھی اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے نام سے پکارتے ہیں۔
نیپال کی غیرت مند قوم کی لیکن جتنی بھی تعریف کی جائے‘ وہ کم ہے کیونکہ انہوں نے بھوک برداشت کی لیکن اپنے بچوں کی لاشوں کو ہاتھوں پر اٹھاتے ہوئے دنیا بھر کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھانے کیلئے کٹھمنڈو کی سڑکوں پر بھارتی فسطایئت مردہ باد، بھارتی بالا دستی نیپال کی موت ہے، نریندر مودی مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے مارچ کیا۔ زلزلے کی تباہ کاریوں کی کوریج کیلئے نیپال آیا ہوا میڈیا حیران ہو رہا تھا کہ کیا بھارت میں انسانی قدریں مر چکی ہیں کہ ابھی تو نیپالی عوام اور حکومت ہولناک زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹ رہے تھے کہ نریندر مودی نے ان پر قحط مسلط کر دیا۔