"MABC" (space) message & send to 7575

RAW کے سائبر حملے

A publication of Bureau of Political Research and Analysis کے نام سے RAW کا یہ مشہور میگزین پاکستان اوراس کی افواج کے بارے میں آئے روز نت نئی کہانیاں گھڑنے میں مصروف رہتا ہے بلکہ اب تو بھارت کے ہی بہت سے دانشور یہ میگزین پڑھ پڑھ کر بے ساختہ کہنے لگے ہیں کہ را کو چاہئے اس کا نام تبدیل کرتے ہوئےANTI PAKISTAN PUBLICATION رکھ لے۔جب بھارتی دانشور اس میگزین کی تعریف ان الفاظ میں کر نا شروع ہو گئے ہیں تو پھر کیا شک رہ جاتا ہے کہ اس میگزین کی اشاعت صرف پاکستان اور اس کی آئی ایس آئی اور فوج کو بدنام کرنے کیلئے ہی کی گئی ہے ۔ اس میگزین میں چن چن کر امریکی اور اسرائیلی دوست ایسے تھنک ٹینکس اور شخصیات کے مضامین کے علا وہ امریکی اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے پاکستان مخالف معلومات کو جگہ دی جاتی ہے جن میں سوائے پاکستان دشمنی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ آپ سوچئے کہ کیا پاکستان وہ تنہا ملک ہے جو اپنی حفاظت کیلئے ہر ممکن دفاعی اقدام کر رہا ہے؟۔ سوچئے کہ جب اس کے سر پر بیٹھا ہوا بھارت جیسا بد ترین دشمن دنیا بھر سے اسلحہ کی خریداری کا نیلام گھر سجائے ہوئے ہو۔۔جب بھارت آئے روز بیلسٹک میزائلوں کے تجربات کئے جا رہا ہو۔۔۔جب بھارت افغانستان سے پاکستان کے کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی اور علیحدگی کی تحریک پروان چڑھا رہا ہو۔۔جب بھارت ہر دوسرے دن لائن آف کنٹرول پر اندھا دھند گولہ باری کر رہا ہو، جب بھارت ہر چھ ماہ بعد اپنے دفاعی بجٹ میں 7 سے8 فیصد اضافہ کئے جا رہا ہو جب بھارت گوادر کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہو۔۔۔تو کیا پاکستان کو اپنے ان بازوئوں کو باندھ لینا چاہئے جن سے وہ بھارت کے اپنی جانب بڑھنے والے ہاتھوں کو روکنے کا کام لے گا؟۔ کیا دنیا کے تمام دفاعی اداروں، تجزیہ کاروں کی یہی خواہش ہے کہ پاکستان کے ہاتھ پائوں باندھ کر اسے بھارت جیسے دیو ہیکل اسلحہ کے ڈھیر کے آگے پھینک دیا جائے؟۔
پاکستان کے بارے میں غلط تاثر پھیلانے اور اسے اسلحہ کی دوڑ میں سرپٹ بھاگنے والے کے روپ میں پیش کرتے ہوئے گھنائونا تاثر دینے والے خوب نمک مرچ لگا کر ایسے ایسے مضامین شائع کر رہے ہیں جن کو پڑھ کر انہیں لکھنے والوں کی ذہنی حالت پر ترس آنے لگتا ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیRAW کے زیر انتظام شائع ہونے والے مذکورہ میگزین نے 22 فروری۔۔۔ 8 مارچ، 22 مارچ ( دو مضامین) اور پھر 29 مارچ کو بالترتیب پانچ مضامین شائع کئے ہیں اور ظاہر ہے پاکستان پر بھارت کی جانب سے بڑی منصوبہ بندی سے اس نوع کے سائبر حملوں کا سلسلہ جاری ہے جسے سیٹیلائٹ کے ذریعے دنیا بھر میں خوبصورتی سے پھیلایا دیا جاتا ہے ۔ 22 فروری کو شائع کئے جانے والے مضمون میں امریکہ کے DAN COATS کی امریکی کانگریس کے اراکین سے ورلڈ وائڈ تھریٹ کے عنوان سے بلائی گئی سوال و جواب کانفرنس میں ڈین کوٹس نے سینیٹ کی سیلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس کی ترتیب دی گئی کانفرنس میں بتایا کہ شمالی کوریا اور پاکستان عالمی امن کیلئے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ ڈین کوٹس کی اس بریفنگ کا حوالہ دیتے ہوئے راء کے میگزین نے لکھا ہے کہ پاکستان بالکل نئی قسم کے خطرناک ٹیکٹیکل بم نصب کرنے کے علاوہ شارٹ رینج کے ٹیکٹیکل بم تیار کر رہا ہے جن سے خطے کے حالات سنگین ہو جائیں گے۔۔۔اب اگر دکن ہیرالڈ کا ڈین کوسٹ کی اس بریفنگ پر تبصرہ دیکھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ اس کا مقصد کیا ہے‘‘ دکن ہیرالڈ لکھتا ہے کہ یہ ریمارکس جیش محمد کے جموں میں سنجوان کے فوجی کیمپ پر حملہ کے دو روز بعد سامنے آئے جس میں چھ بھارتی فوجی اور سات بارڈر سکیورٹی فورس کے لوگ مارے گئے تھے ؟۔Dan Coats نے سینیٹ سیلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس کو بتایا کہ پاکستانSea -based cruise missiles, air launched cruise missile and long range billastic missiles تیار کر رہا ہے۔
دوسرا آرٹیکل جو آٹھ مارچ کو لیفٹیننٹ جنرل بھٹ کے حوالے سے لکھا گیا اس میں ہمیشہ کی طرح الزام لگایا گیا کہ پاکستان بڑی تعداد میں انتہائی تربیت یافتہ دہشت گرد کشمیر میں بھیجنے والا ہے جنرل بھٹ کہتے ہیں کہ پاکستان سے تیس اور چالیس کے گروپس میں دہشت گردوں کی ٹیمیں اس انتظار میں ہیں کہ انہیں لیپا ویلی سے منڈل ایریا میں داخل کر دیا جائے جہاں رام پور کے قریب بھارت کا161 بریگیڈ تعینات ہے۔22 مارچ کے شمارے میں دو مضامین شائع کئے گئے ہیں جن میں سے ایک میںبھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پر پاکستانیوںکو چن چن کر جو نشانہ بنا رہی ہے اس سے پاکستان انتہائی پریشان ہو چکا ہے اسے اندازہ ہو چکا ہے کہ بھارتی فوج اب کشمیر سے اس پر اسی طرح کے جوابی حملے جاری رکھے گی۔جس شدت کی بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کی جا رہی ہے اگر اس کا صرف چوتھا حصہ پاکستان کی جانب سے شروع کر دیا جائے توپورے بھارت میں کہرام مچ جائے؟۔جنرل بپن راوت اور اس کے سٹاف سمیت انڈین ہائی کمیشن کو 1989 ء کے وہ منا ظر بھول چکے ہیں جب کشمیری مجاہدین نے آزادی کی ایسی تحریک شروع کی کہ پوری وادی کشمیر ہندوئوں سے خالی ہو کر رہ گئی تھی وہ کشمیری پنڈت جو اس وقت سب کو چھوڑ چھاڑ کر بھاگ گئے تھے انہیں اب فوج کے پہرے میں اس طرح بسایا جا رہا ہے کہ ان کے گھر اور کالونیاں کشمیری مسلمانوں سے دور دور جگہوں پر بنائے جا رہے ہیں؟۔جن کشمیری بچوں کو بپن راوت کی فوج پیلٹ گنوں سے اندھا کر رہی ہے کیا وہ سرحد پار سے بھجوائے گئے ہیں؟َ۔کاش کہ دنیا کا ضمیر زندہ ہوتا؟۔کاش اقوام متحدہ کے ہاتھوں میں جان ہوتی؟۔کاش کے ہیومن رائٹس تنظیموں کے احساسات مردہ نہ ہو چکے ہوتے تو پھر دیکھتے کہ جنرل بپن راوت اور بھارت کو کتنی پریشانی ہو رہی ہے؟۔
22 مارچ کوRAW کے اس میگزین نے بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے پاکستان پر ایک نئی الزام تراشی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘‘Islami Sangh Nepal کی سرگرمیوں پر انڈین انٹیلی جنس پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہے انڈین IB اور RAW کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہانی سامنے لائی گئی ہے کہ آئی ایس آئی انڈین مجاہدین کے نام سے کام کرنے والی دہشت گرد تنظیم کے سر کردہ ریاض بٹخل جس کا کوڈ نام خان بتایا گیا ہے جو انڈین مجاہدین جیسی تنظیم کو وجود میں لانا والا دوسرا اہم لیڈر مانا جاتا ہے اسے ویسٹرن اور ایشین ممالک میں پاکستان کی آئی ایس آئی پناہ دیتی رہی ہے اور ریاض بختل پاکستان میں بھی آئی ایس آئی کے پاس کچھ عرصہ رہ چکا ہے۔29 مارچ کو جو مضمون راء کے میگزین کے ذریعے مارکیٹ میں لایا گیااس میں بھارت کی وزیر دفاع نرملا کے دورہ ماسکو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھاگیا ہے کہ پاکستان نے چین سے ابھی حال ہی میں ایک بہت بڑا دفاعی سودا کرتے ہوئے میزائل ٹریکنگ سسٹم حاصل کر لیا ہے جس سے بھارت کی سکیورٹی کیلئے زبر دست خطرات لا حق ہو گئے ہیں اس مضمون کامطلب یہی ہوا کہ بھارت نے پاکستان کی سرحدوں کے ارد گرد اور پاکستان کی دیگر دفاعی تنصیبات کے قریب جو نیوکلیئر میزائل تیاری کی حالت میں چھپا رکھے ہیں اس کی جو ایٹمی سب میرین سمندروں میں گھوم رہی ہے اب ان سب کو ۔۔۔چین سے میزائل ٹریکنگ کی ملنے والی ٹیکنا لوجی سے پاکستان ان سب کی لوکیشن جان جائے گا؟۔سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے پاس یہ ٹیکنالوجی نہیں؟۔بھارت کا مقصد یہی ہوا کہ اس کا مقابل خالی ہاتھ اس کے سامنے کھڑا کر دیا جائے تاکہ وہ اسے ڈنڈوں سے مار مار کر ہلاک کر سکے؟!! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں