"MABC" (space) message & send to 7575

لاہور اوربہادر آباد

18 دسمبر2015 ء کو جب میں نے'' نواز لیگ اور ایم کیو ایم کا میثاق جمہوریت‘‘ کے عنوان سے اپنے آرٹیکل میں انکشاف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مسلم لیگ نواز اور متحدہ قومی موومنٹ میں جولائی2018 ء کے انتخابی معرکے کیلئے اتحاد ہو چکا ہے اور وہ کرا چی سندھ میں ایک دوسرے سے سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کرتے ہوئے الیکشن لڑیں گے اور اس میں لیاری سے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی کی دو نشستیں بھی شامل ہیںتو بہت سے تنقیدی پیغامات ملے اور اسے میاں نواز شریف کے خلاف مہم کا حصہ قرار دیتے ہوئے خوب تنقید کی گئی ۔ میں نے اپنے اس آرٹیکل میں لکھا تھا'' کہ ٹھٹھہ سے شیرازی برادران کی ضمنی انتخاب میں کامیابی ،کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ملیر سمیت کراچی کے مغربی حصوں میں نواز لیگ کی کامیابی ایم کیو ایم کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے تو وہ لوگ جنہوں نے میرا وہ آرٹیکل پڑھ کر اس پر تنقید کرتے ہوئے گھر بیٹھے خبریں گھڑنے کے الزامات لگائے تھے ان سے گزارش ہے کہ میرا وہ آرٹیکل اور اپنے بھیجے گئے پیغامات اور میئر کراچی وسیم اختر کے حالیہ دورۂ لاہور اور پھر میاں شہباز شریف کے جوابی بہادر آباد( نئے نائن زیرو) کے دورے کو غور سے دیکھنے کی زحمت کر لیں۔ یہ حقیقت ذہن میں رکھ لیجئے کہ جس طرح ناخن انگلیوں سے جدا نہیں ہو سکتے اسی طرح وسیم اختر کبھی بھی ایم کیو ایم لندن اور جناب الطاف حسین سے جدا نہیں کئے جا سکتے اور وسیم اختر کو اس لئے لاہور نہیں بلایا گیا تھا کہ وہ کراچی کے میئر ہیں بلکہ اس لئے بلایا گیا کہ وہ الطاف حسین کے با اعتماد اور معتمد خاص ہیں۔ مسلم لیگ نواز کو یاد ہو گا کہ جب انہوں نے کوئی8برس قبل الطاف حسین کے بارے میں کچھ نا زیبا الفاظ استعمال کئے تھے تو یہ وہی وسیم اختر ہیں جنہوں نے میاں شہباز شریف کے بارے میں کچھ ممنوعہ ادویات اور بہت سے نا مناسب قسم کے الفاظ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ'' پنجاب کے ہر گھر میں مجرا ہوتا ہے‘‘ ۔ خیر سے وہی میاں شہباز شریف لندن سے آئی ہوئی کچھ طاقت بخشنے والی ادویات وصول کرنے کیلئے انہی وسیم اختر کی دعوت پر ایم کیو ایم بہادر آباد تشریف لے گئے اور ان کے بائیس اپریل کے کراچی جلسہ کیلئے ایم کیو ایم لندن نے بھر پور تعاون کیا۔
میاں شہباز شریف کو جب مسلم لیگ نواز کا صدر منتخب کیا گیا تھا تو ان کا اس موقع پر یاد گار خطاب سننے والوں کو یاد ہو گا کہ ا نہوں نے اپنے بڑے بھائی میاں نوازشریف کو قائد اعظم ثانی کا خطاب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس وقت قائد اعظم کا پیغام گھر گھر پہنچا رہے ہیں۔ اگر تو میاں شہباز شریف کے ان الفاظ کو بڑے بھائی کی محبت اور عقیدت کے تنا ظر میں لیا جائے تو پھر یہ کہہ کر خاموشی اختیار کی جا سکتی ہے کہ بڑے بھائی کا احترام ان پر واجب ہے اور اپنے بھائی کی محبت اور عقیدت میں وہ کسی سے بھی انہیں تشبیہ دے سکتے ہیں ،ان کا کسی بھی شخصیت سے موازنہ کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے چونکہ یہ الفاظ ایک سیا سی پلیٹ فارم پر بولے تھے اس لئے ان سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ جناب آپ کو مسلم لیگ نواز کی صدارت مبارک ہو لیکن کیا آپ نے تاریخ کا مطا لعہ کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح کی پاکستان موومنٹ کا بغور مطالعہ کیا ہے؟۔ کیا قائد اعظم نے شمال مغربی سرحدی صوبے( کے پی کے) کو بھارت کے ساتھ شامل کرنے کی تحریک کا ساتھ دیتے ہوئے یا اس کے ساتھ کسی قسم کا اتحاد کرتے ہوئے سرحدی گاندھی خان عبدا لغفار خان یا ان کے حواریوں کا ساتھ دیا تھا؟۔کیا قائد اعظم محمد علی جناح نے میانوالی اور اٹک کو شامل کرتے ہوئے کے پی کے اور پاکستان کے تمام قبائلی علا قوں پر مشتمل افغانیہ نام کے نئے ملک کے قیام کیلئے تحریک چلانے والے محمود خان اچکزئی کا ساتھ دیا تھا؟۔ کیا قائد اعظم محمد علی جناح محمود خان اچکزئی جیسے شخص کو اپنا مشیر خاص مقرر کر سکتے تھے؟۔ کیا قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے مقرر کئے گئے کسی گورنر کی طرف سے منظور پشتین کو پاکستان مخالف تحریک چلانے اور افواج پاکستان کے خلاف نعرے لگانے کیلئے کندھا استعمال کرنے کی اجا زت دی جا سکتی تھی؟۔کیا قائد اعظم کسی بھی ایسے شخص کے ساتھ ا تحادکر سکتے تھے جو فاٹا اور قبائلی علا قوں کو کے پی کے میں شامل کرنے کے احکامات کے خلاف تشدد اور نفرت کی تحریک چلا تا َ ؟۔ کیا قائد اعظم کسی ایسے شخص کو کے پی کے کا گورنر مقرر کر سکتے تھے جو منظور پشتین یا فاٹا کے لوگوں میں اس مقصد کیلئے مراعات بانٹے کہ وہ اپنے علا قوں کو کے پی کے میں شامل کرنے کے خلاف نفرت پھیلائیں ؟۔ کیامیاں شہباز شریف ثابت کر سکیں گے کہ قائد اعظم نے اپنی زندگی میں سرکار اور عوام کا ایک پیسہ بھی اپنے ذاتی استعمال اور ضروریات کیلئے خرچ کیا ہو؟۔بڑے ادب سے میاں شہباز شریف سے یہ سوال کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ'' اگر قائد اعظم محمد علی جناح آج پاکستان کے حکمران ہوتے تو کیا وہ بھارتی نیوی اور را کے بد نام زمانہ سٹیشن چیف کلبھوشن یادیو کی پاکستانی ایجنسی کے ہاتھوںگرفتاری پر اپنی نا راضی کا اظہار کرسکتے تھے؟۔ اگر قائد اعظم حکمران ہوتے اور وہ کلبھوشن یادیو کے کئے جانے والے اعترافات سے دنیا بھر کو بھارتی دہشت گردی سے آگاہ کرنے کی بجائے میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی طرح اپنی زبان بند رکھتے؟۔کیا وہ بھی شریف برادران کی طرح اپنی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران اس کا ذکر کرنے سے اس لئے احتراز کرتے کہ اس طرح نریندر مودی نے نا راض ہو جا ناتھا؟۔اس تقریر سے سجن جندال کی دوستی اور کاروباری مفادات میں فرق آ جا نا تھا؟۔
میاں شہباز شریف مسلم لیگ نواز کے صدر کی حیثیت سے ایم کیو ایم بہادر آباد نہیں بلکہ ایم کیو ایم الطاف حسین کے متوالوں کے پاس گئے اور کراچی کاجلسہ ان کے ہی تعاون اور مدد سے کیا اور میرے خیال میں ان دونوں جماعتوں کے درمیان لندن میں یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ کراچی کی قومی اسمبلی کی تین نشستوں اور سکھر، شکار پوراور میر پور خاص کی نشستوں پر ایم کیو ایم بہادر آباد اور میاں شہباز شریف کی مسلم لیگ کے درمیان سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کا فیصلہ ہو چکا ہے اور فاروق ستار کے سب سے بڑے غصے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شریف برادران نے ان سے جو وعدے وعید کئے تھے ان سے انحراف کرتے ہوئے ان کے سب سے بڑے مخالف وسیم اختر سے اتحاد کرتے ہوئے پیار و محبت کی پینگیں بڑھا لی ہیں ؟۔
میاں نواز شریف کے مختصر دورہ لندن کے دوران حسین حقانی کی اچانک لندن آمد اور میاں نواز شریف سے ان کی ملاقات کی خبریں اور پھر میاں صاحب کے خود کو شیخ مجیب کی حد تک نہ لے جانے کی باتوں کے تنا ظر میں حسین حقانی کی جانب سے 47 برس بعد مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے خلاف بنگالیوں کے قتل عام کی بے بنیاد کہانیوں پر مشتمل کتاب کاشوشہ چھوڑنا( جس کا اپنے علیحدہ مضمون میں تفصیل سے ذکر کروں گا) اتفاقات نہیں کہے جا سکتے۔میاں نواز شریف کے وہ الفاظ بے معنی اوراچانک نہیں کہ'' اگر مجھے سزا دی گئی تو اس کے رد عمل میں ملک میں بہت بڑا انتشار دیکھ رہا ہوں؟۔‘‘ملک کے تمام حساس اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو امیر مقام اور محمود خان اچکزئی کی پختون تحفظ موومنٹ کیلئے منظور پشتین کی مدد کرنے والی سرگرمیوں اور مصروفیات پر نظر رکھنا ہو گی؟۔یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس تحریک سے وابستہ نوجوان لڑکوں کے پاس بے تحاشا فنڈز کہاں سے آ رہے ہیں؟۔ 
میاں نواز شریف اور شہباز شریف سمیت وزیر اعظم شاہد خاقان عبا سی جب عمران خان پر'' اپنے متفقہ امیدوار‘‘ رضا ربانی کی بجائے صادق سنجرانی کو چیئر مین سینیٹ بنائے جانے پر اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہیں تو ــ۔۔۔۔ان سے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ ایم کیو ایم لندن سے ان کا اتحاد کس کے حکم سے ہوا ہے؟۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں