جولائی میں ہونے والے عام انتخابات میں تحریک انصاف کا مقابلہ اس مشاہد حسین اینڈ گروپ کی میڈیا ٹیم سے ہونے جا رہا ہے جس نے1997 کے عام انتخابات میں عمران خان کی زندگی پر ذاتی حملے کراتے ہوئے انہیں ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ ۔میرے پاس وہ فہرست موجود ہے جس میں مشاہد حسین نواز شریف کی جانب سے مراعات تقسیم کرتے رہے جن میں معروف میڈیا گروپ شامل تھے۔۔چلتے چلتے مشاہد حسین سید کیلئے ایک مشورہ ہے کہ اگر اس مرتبہ بھی انہوں نے 1997 کی طرح مہم کا آغاز ذاتی حملوں سے کیا جیسا کہ طلال چوہدری نے سپریم کورٹ کے باہر کیا تو آج انہیں ایسے جوابات اور ثبوتوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے ۔۔۔ان کی او ر ان سے منسلک بہت سی اہم شخصیات کے بارے میں ایسے ایسے ثبوت تحریک انصاف سامنے لے کر آئے گی کہ آپ لوگ اپنے گھر والوں سے بھی منہ چھپاتے رہیں گے۔۔۔تھوڑے لکھے کو بہت سمجھئے گا۔سوچئے کہ اگر مشاہد حسین سید کو آج سے27 برس قبل مبینہ طور پر جو کچھ میڈیا میں تقسیم کرنے کیلئے دیا گیا ہو وہ آج کی مالیت میں ایک ارب کے قریب بنتا ہے ۔اس فہرست میں ایسے ایسے شرفاء اور میڈیا کی آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے عمران خان پر حملہ آور ہونے والوں کے نام ہیں کہ دیکھ کر ہوش اڑ جائیں ۔ شنید ہے کہ اس فہرست میں مشاہد حسین نے عمران خان کے کڑاکے نکالنے کیلئے مزید بیس شخصیات کے نام شامل کرلئے ہیں۔
عمران خان اور تحریک انصاف پر ذاتی حملوں کے علا وہ مخالفین یہ کہتے ہوئے گرجتے ہیں کہ تبدیلی کی بات کرنے والوں نے کیا کر لیا ہے؟ خیبر پختونخوا میں عمران خان کی جماعت نے کون سا تیر مارا ہے؟ تبدیلی کے نعرے پر ووٹ لینے والوں نے اس صوبے میں جہاں ان کی حکومت پانچ سال مکمل کرنے والی ہے کیا تبدیل کیا ہے؟ اس قسم کے بہت سے سوالات کی بھر مار ان لوگوں کی طرف سے کی جارہی ہے جو پانچ سال سے نہیں بلکہ تیس سالوں سے حکومت کر تے چلے آ رہے ہیں عمران خان اور اس کی جماعت پر اس قسم کے سوالات کی بوچھاڑکرنے والوں سے پوچھئے کہ انہوں نے تیس سال حکومت کرنے کے بعد کیا تبدیل کیاہے ؟۔ کیا عوام اندھی ہے جو نہیں جانتی کہ صرف لاہور میں سینکروں مرد و خواتین ڈاکوئوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں؟۔ قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔۔
مسلم لیگ نواز، ایم کیو ایم ، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی خان، پیپلز پارٹی ،جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمان پر مشتمل ایم ایم اے سمیت الیکٹرانک میڈیا کے پانچ سات اینکرز ہر وقت عمران خان کے خلاف لٹھ اٹھاتے رہتے ہیں عمران خان کی جانب سے ایک بہت بڑے میڈیا گروپ اور کشمیر ہر دو ٹوک بات کرنے کے بعد اعلیٰ پر کشش حکومتی عہدوں کے انتظار میں بیٹھا ہوا پندرہ سے زائد معروف صحافیوں کا گروپ جاتی امراء کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اور بھی شدت سے حملہ آور ہے ۔ تبدیلی کے سوال کی اس بات کا فیصلہ یقیناََ آنے والے انتخابات میں کے پی کے کے عوام کریں گے ۔۔۔جو یقیناََ یہ بھی مد نظر رکھیں گے کہ ان پانچ برسوں میں کے پی کے سے دہشت گردی کی لعنت کو بہت سی قربانیاں دینے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے بہت حد تک ختم کر دیا ہے۔
عمران خان کو احساس ہو چکا ہو گا کہ مخصوص میڈیااور دس سے زائد سیا سی اور مذہبی جماعتوں سمیت ان سے منسلک میڈیا کے انتہائی تجربہ کارتیز ترین لوگوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا جبکہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کا میڈیا سیل بہت ہی کمزور ہے جبکہ اس کے مقابلے میں لاکھوں روپے ماہانہ مشاہروں پر کام کرنے والا نواز لیگ کا سوشل میڈیا سیل انتہائی طاقتور ہو چکا ہے اور مقابلے میں عمران خان کا دفاع کرنے والا سوشل میڈیا رضا کارانہ طور پر اپنی اپنی جگہ عمران خان کا دفاع کر رہا ہے یہ چند بے لوث نہ ہوتے تو دولت کا طوفان تحریک انصاف کا سب کچھ بہا لے جاتا۔
اس ملک پر کن لوگوں کی حکومت رہی؟ کون لوگ اقتدار کی کرسیوں پر فائز رہے؟ اس ملک کی قسمت کے فیصلے کون لوگ کرتے رہے ؟یہ آج کے دور کے اہم ترین سوالات ہیں جس کا نئی نسل کیلئے جاننا ضروری ہے ۔۔۔۔چودہ اگست1947 کو یہ وطن عزیز معرض وجود میں آیاتو حضرت قائد اعظم ؒ بطور گورنر جنرل 15 اگست1947 سے11 ستمبر 1948 تک حکمران رہے اور لیاقت علی خان بطور وزیر اعظم پندرہ اگست 1947 سے سولہ اکتوبر1951 تک وزیر اعظم رہے ان کے بعد وقفے وقفے سے گورنر جنرل اور وزیر اعظم بنتے بگڑتے رہے اور پھر جنرل ایوب خان کا بھر پور پہلا مارشل لاء نافذ ہو گیا اور28 اکتوبر1958 کو ان کی فوجی حکومت کی پہلی وزارت میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر تجارت، اطلاعات ، وزیر سیاحت، صنعت، ایندھن پانی اور بجلی اور پھر وزیر خارجہ کے علا وہ مسلم لیگ کنونشن کے سیکرٹری جنرل کے طور پر اقتدار اعلیٰ سے منسلک رہے جنرل ایوب خان کے بعد جنرل یحییٰ خان 25 مارچ1969 سے20 دسمبر1971 تک اس ملک کے صدر رہے اور ان کے دور میں ہی سات دسمبر سے بیس دسمبر تک ذوالفقار علی بھٹو نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ رہے اور یہی بھٹو صاحب 21 دسمبر1971 کو پاکستان کے با اختیار صدر مقرر کئے گئے 13 اگست1973 تک وہ پاکستان کے صدارتی عہدے پر فائز رہے اور پھر آئین کی منظوری کے بعد پارلیمانی طرز حکومت کی منظوری سے وہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے اور ان کے اقتدار کا یہ عرصہ پانچ جولائی1977 کو جنرل ضیاالحق کے مارشل لا سے ختم ہوااور جب جنرل ضیاء پانچ جولائی1978 کو اپنی بائیس رکنی کابینہ سے حلف لیاتو اس میں خواجہ محمد آصف کے والد خواجہ صفدر نے بطور خوراک و زراعت اور امداد باہمی کے وزیر کا حلف اٹھایااور جناب نواز شریف پنجاب میں بطور وزیر خزانہ کام کرتے رہے۔
اب آتے ہیں جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کی طرف جس کی طاقت سے وہ16 ستمبر 1978 سے23 مارچ1985 تک پاکستان کے انتہائی با اختیار صدر رہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس دوران ان کے شریک اقتدار میاں نواز شریف نہیں تھے جو سب سے بڑے صوبے کے مطلق العنان وزیر اعلیٰ رہے ۔۔۔۔محمد خان جونیجو23 مارچ1985 سے29 مئی1988 تک تین سال اس ملک کے اس قدر با اختیار وزیر اعظم بنے کے انہوں نے جرنیلوں سے بڑی گاڑیاں لے کر ان کو چھوٹی گاڑیوں پر بٹھا کر اس ادارے کا مزید بیڑہ غرق کر دیا ۔جونیجو کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو 2 دسمبر1988 سے6 اگست1990 اور پھر19 اکتوبر1993 سے پانچ نومبر1996 تک اس ملک کی وزیر اعظم رہیں۔۔۔اور اگر منظور وٹو کے ساتھ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا عرصہ شامل کرنے کے بعد ان کی سندھ کی حکومت شمار کی جائے جو2008 سے آج تک جاری ہے تو تحریک انصاف کے یہ پانچ سال پی پی پی اور نواز لیگ کو بھاری کیوں لگ رہے ہیں؟۔ پی پی پی نے سندھ میں اپنی پندرہ سال سے زائد وزارت اعلیٰ میں کون سا تیر مارا ہے؟