2012ء میں سونیا گاندھی کسی کواطلاع دیئے بغیر خاموشی سے امریکہ روانہ ہو ئیں تو بھارت بھر میں افواہوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا کہ وہ کس مقصد کیلئے امریکہ گئی ہیں اور تو اور اس وقت بھارت میں ان کی بر سر اقتدار جماعت کانگریس پر میڈیا نے یہ جاننے کیلئے یلغار کر دی کہ کیا وہ کسی خاص مشن پر امریکہ گئی ہیں، لیکن کانگریس کے عہدیداروں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور وہائٹ ہائوس میں بھی ان کی کسی قسم کوئی مصروفیت کی اطلاع نہیں تھی ۔بھارتی اور امریکی دفتر خارجہ ان کی اچانک امریکہ آمد پر خاموش تھا، جب ہر طرف سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں تو گاندھی خاندان کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا کہ سونیا گاندھی اپنی سرجری کروانے کیلئے امریکہ آئی ہیں، لیکن اس وضاحت میں کوئی ذکر نہیں تھا کہ انہیں کیا تکلیف ہے ؟ کون سے بیماری ہے اور کون سے ڈاکٹر کے پاس وہ سرجری کروانے کیلئے آئی ہیں؟ بھارتی میڈیا پوچھ رہا تھا کہ بھارت میں وہ کون سا ڈاکٹر ہے، جس نے انہیں امریکہ جا کر سرجری کروانے کا مشورہ دیا ہے، لیکن کانگریس کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔۔ہر طرف سے پوچھا جا رہا تھا کہ بھارت جہاں دور دور سے لوگ اپنے علاج کیلئے آ تے ہیں ،کیا سونیا گاندھی کا علاج بھارت میں نہیں ہو سکتا تھا؟ نرسیما رائو اوراٹل بہاری واجپائی نے بحیثیت وزیر اعظم اپنے گھٹنوں کا علاج بھارتی ڈاکٹروں سے ہی کرایا تھا۔ اس وقت کے کانگریسی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپنی سرجری بھارت سے ہی کرائی حالانکہ اگر وہ چاہتے تو ورلڈ بینک کے سابقہ عہدیدار ہونے کے ناطے ان کے کھاتے سے وہ دنیا کے بہترین ڈاکٹروں اور ہسپتالوں سے علاج کروا سکتے تھے ۔تحقیق کرنے پر بھید کھلا کہ ڈاکٹر سبرامینیم سوامی سونیا گاندھی کے زیورچ میں کروڑوں ڈالر کے بینک اکائونٹس کی تفصیلات مکمل ثبوتوں کے ساتھ بھارتی میڈیا میں لے کر آ رہے اور وہ اپنے ان بیرونی اکائونٹس کی '' لانڈرنگ ‘‘کیلئے گئی ہیں اور یہی وجہ تھی کہ ان کے ساتھ صرف ان کے خاندان کے چند لوگوں کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔
منی لانڈرنگ آج صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے جسے اب دہشت گردی سے منسلک کرتے ہوئے امریکہ سمیت دنیا بھر میں انتہائی سختی سے نمٹا جا رہا ہے۔ منی لاندرنگ حکومتی اور ریاستی فنڈز کے علا وہ منشیات اور اسلحہ سمگلنگ سے حاصل کردہ دولت کیلئے بھی استعمال کی جا رہی ہے ۔منی لانڈرنگ کے الزمات کا شور ہمارے ملک کی سیاسی فضا میں جو پندرہ بیس سال پہلے شدت سے گونجتا تھا،میثاق جمہوریت کی شرم کی وجہ سے تھم گیا، لیکن برا ہوا کہ عمران خان کی صورت میں ابھرنے والی تیسری سیا سی قوت نے کر پشن اور اور ملکی خزانہ لوٹنے والوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ۔ میثاق جمہوریت نے زبان بندی تو کر دی ،لیکن گذشتہ تیس برسوں سے مسلسل ایک دوسرے پر کی جانے والی لفظی گولہ باری اخبارات کے صفحات پرموجود تھی سچی بات ہے کہ پاکستان کی سیا ست پر قابض رہنے والے اگر بھٹو اور شریف خاندان ایک د وسرے کا کچا چٹھا سامنے لے کر نہ آتے تو کیسے پتہ چلتا کہ ہمیں لوٹنے والے کون ہیں؟ اور پھر پانامہ نے تو سب کا ایسا سیا کچا چٹھا کھول کے سامنے رکھ دیا کہ ہر کوئی اپنی برہنگی چھپانے کیلئے ادھر ادھر بھاگ رہا ہے۔ اگر نواز شریف ہمیں نہ بتاتے تو کیسے پتہ چلتا کہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے سوئٹرز لینڈ اور دوسرے ممالک میں کالے دھن کے بینک اکائونٹ ہیں اور اگر زرداری صاحب انکشاف نہ کرتے تو کیسے پتہ چلتا کہ جناب نوازشریف کے لندن، سوئٹزلینڈ اور دبئی میں اکائونٹس ہیں بہت سے لوگ سوچتے ہوں گے کہ یہ منی لانڈرنگ آخر کیا بلا ہے اور یہ جو لندن، سپین، دبئی ، سوئٹرز لینڈ میںکروڑوں اربوں کی بات کی جاتی ہے اس کا طریقہ کار کیا ہوتا ہو گا ؟
منی لانڈرنگ کے مختلف طریقہ کار ہوتے ہیں انہیں سمجھنے کیلئے آپ کو 90 کی دہائی میں لئے چلتے ہیں جب گلف آئل نے کوریا اور بولیویا کے سیا ستدانوں کو کمیشن اورر شوت پہنچانے کیلئے بہاماز کے ذریعے چار ملین ڈالر منتقل کئے ۔لاک ہیڈ کارپوریشن نے اٹلی کے سیا ستدانوں کو نقد اور بئیررڈرافٹس کی صورت میں ایک ٹرسٹ کو واسطہ بنا کر25 ملین ڈالر کا کمیشن دیا۔ لاک ہیڈ کی طرف سے جاپانی سیا ستدانوں کو رشوت دینے کیلئے امریکہ کے ایک مشہور فارن کرنسی ڈیلر'' ڈیک پریڈ‘‘ کو استعمال کیا گیا جس نے لاک ہیڈ کے کہنے پر8.3 ملین ڈالرکے کالے دھن کو ایک بڑے سودے کے معاملات کے ذریعے سفید کا چکر چلایا تاکہ کمپنی اکائونٹس میں اس سفید دھن کا ہی اندراج کیا جاسکے اور کسی قسم کا خطرہ باقی نہ رہے۔ دوسری طرف یہ رقم پندرہ ایسی ادائیگیوں کی صورت میں مطلوبہ افراد کو پہنچ گئی، جن کا کھوج لگانا انتہائی مشکل تھا۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ رقم ہانگ کانگ کے ایک اسپینی پادری کے فلائٹ بیگ اور سنگتروںکے کریٹوںکے ذریعے ٹوکیو میں لاک ہیڈ کے اہل کاروں کے حوالے کی گئی اور یہ اپنے من پسند سیاستدانوں،حکمرانوں اور بڑے بڑے اداروں کو خریدنے اورمحفوظ طریقوں سے کمیشن پہنچانے کی چند ایک مثالیں ہیں۔ ٹیکسوں کی چوری اور ہیرا پھیری کے ذریعے حاصل کردہ کالے دھن کو سفید کرنے کا عمل صرف انفردای حیثیت میں ہی نہیں بلکہ بڑی بڑی کارپوریشنیں، کمپنیاں اور بڑے بڑے کاروباری ادارے بھی ٹیکس سے بچنے کیلئے اپنے حصص یافتگان کو دھوکہ دینے، کرنسی کنٹرول کے قواعد و ضوابط سے بچنے اور اس سے پہلو تہی کرنے کیلئے متعلقہ اہلکاروں کو بھاری رشوت ور کمیشن کے نام پر ان کے مقرر کردہ ایجنٹوں یا اپنے ملک اور ملک سے باہر ان کے کھاتوںتک پہنچانے کیلئے یہی کالا دھن استعمال کیا جا تا ہے۔
منی لانڈرنگ کو تیسرے فریق کے کاروبار میں لگا کر با ضابطہ بنانے کا کام حکومتیں کیا کرتی ہیں۔ خواہ ان کا مقصد دہشت گردوں کا خاتمہ ہو یا حریت پسند اور مجاہدوں کے نام پر نئے دہشت گرد تیار کرنا، جس طرح امریکہ اور بھارت نے حزب الاحرار اور تحریک طالبان، لشکر اسلام کو تیار کیا بلکہ اسی طرح جیسے ایران کے ذریعے نکاراگوا کے باغیوں کو امریکی اسلحہ کی خفیہ فروخت اور سودے بازی کی گئی ،جس کی بعد میں امریکی صدر ریگن نے با قاعدہ تصدیق بھی کر دی تھی۔ اس سودے بازی کے بعض پہلوئوں پر کافی دیر پردہ پڑا رہا، لیکن یہ راز چھپا ہوا نہ رہ سکا کہ در پردہ اس میں امریکہ نے ایک عرب ملک کی مدد سے ادائیگیوںکے عوض ایران کو اسلحہ دیا اور رقم نکارا گوا کی مارکسی حکومت کے خلاف لڑنے والے کونٹرا با غیوں کو دی گئی اور یہ سب کچھ امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم کیسی کی نگرانی میں ہوتا رہا، جب امریکیوں کے ایران سے تعلقات خراب ہو گئے تو اس وقت عدنان خشوگی کا نام سامنے آیا۔یہ شخص گو کہ کوئی بڑا صنعت کار یا سرمایہ دار نہیں تھا لیکن چونکہ عدنان خشوگی اس عرب ملک کے سربراہ کا پروردہ تھا اس لیے سی آئی اے کو اس پر بھروسہ کرنے کا کہا گیا اور پھر اسے دنیا بھر میں ایک مالدار شخص کی حیثیت سے متعارف کرانے کیلئے سی آئی اے نے ایک بھر پور مہم چلائی اور پھر پاکستان سمیت سب نے دیکھا اور سنا ہو گا کہ ہر طرف عدنان خشوگی کے نام کا ڈنکا بجنا شروع ہو گیا کیونکہ یہ افواہ سازی سی آئی اے کی اپنی ضرورت تھی ۔
ہو سکتا ہے کہ یہ بات سب کو حیران کن لگے کہ امریکہ نے اسرائیل کی مدد سے ایران کو جو500TOW ٹینک شکن میزائل فروخت کئے تھے ،ان کی گارنٹی عدنان خشوگی نے ہی دی تھی !!