میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے 26/11 ممبئی حملوں کی ذمہ داری ملک کے سپریم ادارے پر عائد کرتے ہوئے عالمی سطح پر بھارت کی جو بھر پور وکالت کی‘ اس کے تیسرے دن ملتان‘بونیر اور پھراسلام آباد میں اسی پر کارگل بم گراتے ہوئے کہا کہ جرنیلوں کے منتیں ترلے کرنے پر ہم نے انہیں کارگل سے بچایا اور اس کیلئے امریکی صدر بل کلنٹن کو بڑی مشکل سے راضی کیا تھا ‘ورنہ بھارت نے ان کا حشر کر دینا تھا۔
اس طرح کے بے بنیاد الزامات لگا کر شریف فیملی اپنی رہی سہی کسر نکال رہی ہے‘ جو اس کی پاناما کی کرپشن پکڑے جانے پر نکلی تھی۔ بے بسی کا عالم یہ ہے کہ شریف فیملی خود پر سے توجہ ہٹانے کے لئے ملک کے اداروں پر بھونڈے اور گھٹیا الزاما ت لگا رہی ہے۔ ملک کے ایک سابق وزیراعظم اس طرح کی تقریریں کریں گے‘ تو وہ خود اپنے آپ کو تاریخ کے گڑھے میں دفن کر دیں گے۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ عوام پاک فوج سے کس قدر محبت کرتے ہیں اور جو کوئی بھی اس کے خلاف بات کرتا ہے‘ وہ دراصل اپنے آپ کو دشمن کا ایجنٹ ثابت کرتا ہے۔
ایسے الفاظ استعمال کرنے سے پہلے کارگل جنگ کے دوران بھارتی فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر کی جاری کردہ یہ رپورٹ اپنے دوست نریندر مودی سے منگوا کر ایک دفعہ ذرا غور سے پڑھ لینی چاہئے تھی ‘جس میں لکھا ہے ''انڈین آرمی کو سب سے بڑی مشکل یہ پیش آ رہی تھی کہ ہمارے پاس وہ ریڈار ہی نہیں تھے‘ جن سے ہم پاکستان کی ان توپوں کی لوکیشن معلوم کر کے انہیں تباہ کرنے کی کوشش کرتے ‘جو ہم پر مسلسل شدید گولہ باری کرتے ہوئے سخت نقصان پہنچا رہی تھیں‘‘۔
لیفٹیننٹ جنرل کرشن پال‘ جو کارگل جنگ کے دوران 15th کور کے کمانڈر تھے‘ کا چار جون 2010ء کوNDTV کو دیا جانے والا انٹرویو شریف فیملی ایک بار پھر سن لے ‘جس میں جنرل پال نے تسلیم کیا ہے کہ ''میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہم نے یہ جنگ بالکل نہیں جیتی بلکہIndia lost Kargil war ‘‘۔
کارگل جنگ کے دوران بھارت کے وائس چیف آف آرمی سٹاف کی رپورٹ دیکھئے '' ہم دشمن کے زیر قبضہ آنے والی کارگل کی تمام چوٹیاں واپس لینے میں نا کام رہے‘‘۔
جنرل پدمنا باہن جو بعد میں بھارت کے آرمی چیف مقرر ہوئے‘ ان کا ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کو دیا جانے والا تحریری جواب ملاحظہ کیجئے '' Our most of the small arms were without Passive night sights ‘‘۔
پاکستانی فوج نے کس طرح انڈین فوج کو دبوچا ‘اس کی داد دینے کی بجائے آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے کلنٹن کی منتیں کر کے فوج کی عزت بچائی۔ کارگل جنگ کے وقت انڈین آرمی چیف جنرل دیپک کپور کے کارگل ریو یو کمیٹی کے سامنے دیئے گئے اس بیان کو اگر آپ نے اور آپ کے والد محترم نے ابھی تک نہیں پڑھا تو اسے ذرا غور سے پڑھئے جس میں بھارت کے آرمی چیف جنرل کپور نے کہا '' دشمن کے مقابلے میں ہماری یہ حالت تھی کہ کارگل میں ہتھیاروں کے علا وہ ہمارے پاس گولہ بارود کی بھی بے حد کمی ہو چکی تھی۔ لاجسٹک کہیں پر کم تھی تو کہیں پر انتہائی پرانی اور نا کارہ ہو چکی تھی اور تو اور ہماری وہاں موجو د فوجی وہیکلز کیلئے پٹرول نہ ہونے کے برا بر تھا اور یہ بھی ہوا کہ پٹرول کے علا وہ گریس اور ان کے انجنوں کیلئے درکار انتہائی ضروری لبریکٹنس بھی ختم تھے‘‘۔
الزامات کی بھر مار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے یہ لوگ کتنے نا اہل ہیں کہ انہوں نے امریکی ''سی آئی اے‘‘، روس کی ''کے جی بی‘‘، بھارت کی '' را‘‘ اور برطانیہ کی '' ایم آئی سکس اور فائیو‘‘ اسرائیل کی ''موساد ‘‘سب کو اس طرح چکرا کر رکھ دیا کہ کارگل کو دشمن کے قبضے سے واپس لینے کیلئے تیار کئے گئے ''آپریشن البدر‘‘ کی کسی کو کانوں کان خبر تک نہیںہونے دی۔ انہیں اس وقت پتہ چلا جب پاکستان وہاں قبضہ کر چکا تھا۔
کارگل اور بٹالک میں تعینات بھارتی فوج کے جنرل دیپک کپور کا وزارت دفاع اور وزیر اعظم واجپائی کو لکھا گیا یہ خط آج بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے‘ جنگی محاذ کی الف ب سے واقف کیپٹن صفدر یا اپنے وزیر جنرل عبدالقادر سے پوچھ لیجئے کہ '' جس فوج کی لاجسٹک سپورٹ ہی نہ ہو اس کے مقابل فوج کس طرح کہہ سکتی ہے کہ ہماری عزت بچائو؟‘‘۔
وقت ملے تو جنرل دیپک کپور کی کارگل پرلکھی گئی کتاب''فرام سرپرائز ٹو وکٹری‘‘ کے صفحہ288 پر ان کا پاک فوج کی برتری بارے کیا گیا‘ اعتراف ان الفاظ میں ضرور پڑھ لیجئے گا '' Beside weapons and equipment the ammunations reserves for many important weapons were low‘‘ ۔
بھارتی حکومت کو پیش کی گئی '' کارگل ریویو کمیٹی‘‘ میں پاکستانی فوج کے جرنیلوں کی ذہانت کو اس طرح تسلیم کیا گیا ہے ''ہمیں جو سب سے بڑا دھوکہ دشمن ملک کی فوج سے ملا اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کارگل کا یہ سیکٹر ایک عرصے سے خاموش رہا یہاں سے کبھی ایک لمحے کیلئے بھی دشمن کی جانب سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش نہیں کی گئی‘ اس لئے ناردرن کمانڈ اس طرف سے کوئی زیا دہ الرٹ نہیں تھی اور شدید برف باری اور مائنس تیس جیسی سردیوں میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا‘‘۔
کارگل جنگ میں بھارت کی طرفداری کرنے والوں نے تو ہمارے دوست چین کی پیٹھ میں بھی چھرا گھونپ دیا تھا،جیسے ہی معرکہ کارگل شروع ہوا چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے کارگل سے ملحقہ صوبے لداخ میں ''ٹرگ ہائٹس‘‘ کے اس علاقہ میں سڑک کی تعمیر شروع کر دی جسے بھارت متنازعہ سمجھتا ہے بھارتی صوبے ارونا چل پردیش کے مغربی جانب کیمنگ ضلع میں جمہوریہ چین کی جانب سے PROVOCATIVE FORCE تعینات کر دی گئی اور پھر چند روز بعد ہی چینی فوج نے اس حصے میں اپنی پہلے سے موجود نفری کو دوگنا کر تے ہوئے مشرقی لداخ میں دمچوک کے گرد تعینات کر دیا جس سے بھارت بلبلا کر سجن جندال فیملی کے ذریعے نواز شریف کی مدد لینے پہنچ گیا ۔شریف فیملی سن لے کہ کلنٹن کی منتیں اور ترلے نواز شریف نے پاکستانی فوج کیلئے نہیں بلکہ واجپائی اور بھارتی فوج کو کارگل میں مزید تباہی سے بچانے کیلئے کی تھیں ۔
آج جس کو دیکھو اپنے اندر کا گند وطن عزیز کی خاطر قربانیاں دینے والے سکیورٹی اداروں پر پھینکتا دکھائی دے رہا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہیں احساس ہی نہیں کہ فوج بھی اپنے اندر ایک وجود رکھتی ہے۔
سر ونسٹن چرچل نے شاید ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کسی بھی فوج کے متعلق کہا تھا:
"The army is not like a limited liability company, to be reconstructed, remodelled, liquidated and refloated from week to week as the money market fluctuates. It is not an inanimate thing, like a house, to be pulled down or enlarged or structurally altered at the caprice of the tenant or owner; it is a living thing . if it is sufficiently disturbed, it will wither and dwindle and almost die; and when it comes to this last serious condition, it is only revived by lots of time and lots of money.''