امر جیت سنگھ دلت جنہیں مقبوضہ کشمیر کے امور پر ماہر کی حیثیت حاصل ہے ‘ان کاتعلق بھارتی پولیس سے ہے۔1999ء میں'' را‘‘ کی قیا دت سنبھالنے سے پہلے وہ سینٹرل انٹیلی جنس بیورو میں سپیشل ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے رہے ۔''را‘‘سے ریٹائر ہونے کے بعد2001ء میں وہ وزیر اعظم واجپائی کے مشیر مقرر کئے گئے اور کچھ عرصہ بھارت کی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزری بورڈ کے رکن بھی رہے۔ان دنوں زبان زد عام ہونے والی امر جیت سنگھ دلت اور جنرل اسد درانی کی مشترکہ کتاب اصل میں پاک فوج پرایک نفسیاتی حملے کا پیغام ہے کہ بھارت جب چاہے ‘جس کو چاہے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔ ہم سب کو بحیثیت قوم یاد رکھنا ہو گا کہ نظریاتی تخریب کاری‘ اعصابی جھٹکے5th جنریشن وار(5GW)محاذ کے سب سے خطرناک ہتھیاروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اس تنا ظر میں سیرل المیڈا ہو یا مشرف زیدی کی ڈان لیکس‘ نواز شریف کے حملے ہوں یا دلت اور درانی کی کتاب‘ سب ایک ہی بیرل سے نکلنے والے گولے ہیں۔کسی پراپیگنڈہ اور جھوٹ کا شکار ہونے سے پہلے‘ آپ کو اگر یہ معلوم ہو جائے کہ یہ کتاب اپنی تقریب رونمائی سے بہت پہلے ‘دنیا بھر میں اور پاکستان میں ہر ایک کو خصوصی طور پر مفت میں رسائی دینے کیلئے ایک واٹس ایپ گروپ کے ذریعے اس کیPDF ایک منظم طریقے سے پھیلا ئی جاتی ہے‘ تو ایک با شعور شہری ہونے کی حیثیت سے کیا آپ پر یہ بات واضح نہیں ہو جاتی کہ مصنفین اس کتاب سے پیسہ کمانے کے خواہش مند نہیں۔ تو پھر ظاہر ہے کہ ا س کا ایک ہی مقصد ہے '' پاک فوج کو بدنام کرو ‘‘۔ ورنہ کہاں درانی اور دلت 1990 ء میں'' را‘‘ اور آئی ایس آئی کے سربراہ تھے اور کہانیاں بیان کر رہے ہیں 2011 ء کی۔اور اطلاع یہ بھی ہے کہ ادیتا سنہا‘ جس نے ان دونوں کے انٹرویوز پر مبنی یہ کتاب لکھی ہے‘ وہ جنرل درانی ا ور اے ایس دلت سے اتفاقیہ طور پر ترکی کے شہر استنبول میں ملے تھے ۔
بے نظیر بھٹو اور جنرل درانی کی گاڑھی چھننے کی سب سے بڑی وجہ ان کا یہ انکشاف تھا کہ 1990 ء میں بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں نواز شریف کو کامیاب کرانے کیلئے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو کروڑوں روپے دیئے اور اس مقصد کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد آئی ایس آئی نے تشکیل دیا تھا۔ اس انکشاف پر جنرل درانی کو بے نظیر بھٹو نے انعام کے طور پر جرمنی میں پاکستانی سفیر مقرر کیا تھا ۔ جنرل درانی اور اے ایس دلت کا آپس میں ٹیلیفونک رابطہ 2015ء میں ہوتا ہے جب ان کا بیٹا عثمان‘ جسے دورانِ سفارت اپنے تعلقات کی بنا پر جرمنی کی ایک کمپنی میں ملازمت دلوائی گئی تھی۔اس جرمن کمپنی کی جانب سے بھارت گیا اور ویزے کی حدود کی خلاف ورزی پر اسے خفیہ پولیس نے حراست میں لے لیا۔ ذہن میں رہے کہ اس وقت جنرل درانی کو فوج سے جبری ریٹائر ہوئے22 برس گزر چکے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی رہائی کیلئے اس وقت کے '' را‘‘ کے چیف اے ایس دلت سے مدد کیلئے رابطہ کیا ۔
The Spy Chronicles; RAW,ISI and the illusion of Peace اے ایس دلت اور جنرل درانی کی یہ کتاب تفصیل سے پڑھنے کے بعد میرے استاد گوگا دانشور نے ٹویٹ کیا ہے کہ '' جنرل درانی کی کتاب کے کچھ مخصوص صفحات میاں محمد نواز شریف کی لاہور کے پنج ستارہ ہوٹل میں بھارت سے آئے ہوئے ایڈیٹروں‘ دانشوروں اور صحافیوں کے اعزاز میں سیفما کے زیر اہتمام بلائی گئی تقریب میں بطور مہمان خصوصی کی جانے والی تقریر کا انگریزی ترجمہ ہے ‘جس میں انہوں نے سرحدوں کو نرم کرنے‘ آلو گوشت کو ہندو مسلم کی ایک خوراک اور ہندو مسلم دونوں کا ایک ہی رب ہونے کا فتویٰ جاری کیا تھا‘‘۔
کسی بھی قتل کی تفتیش کرتے ہوئے سب سے پہلے اس کے پس پردہ محرکات معلوم کئے جاتے ہیں کہ اس قتل سے کس کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔اسی طرح اس کتاب کی ٹائمنگ کو سامنے رکھیں تو دیکھنا ہو گا کہ اس سے پاکستان میں کون کون فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے؟ ایک ایسے وقت میں جب نواز شریف پانامہ اور اپنی کرپشن کی بنا پر نا اہل ہونے کے بعد مقدمات میں اپنے بچوں سمیت چاروں جانب سے بری طرح گھر ے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنی مرکزی اور پنجاب حکومت کی طاقت کے ذریعے فوج کو للکارنا شروع کیا اور اسی نشتر کو لئے ملک کے چاروں جانب جلسوں میںفوج کو براہ راست دھمکیاں دینا شروع کر دیں‘ لیکن چند دنوںبعد ہی انہیں محسوس ہوا کہ ان کے قریبی ساتھی ان سے دور ہونا شروع ہو گئے ہیں ‘جس پر ایک اور بھر پور وار کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے26/11 کا بم پاکستانی فوج پر پھینک کر دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ ممبئی حملوں کیلئے ہم نے دہشت گر بھیجے تھے ۔جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی ان کے جلسوں میں حاضرین کی تعداد نہ ہونے کے برا بر رہنا شروع ہو گئی‘ جس کا نظارہ سب نے جہلم‘ چشتیاں‘ اٹک میں اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ بھیرہ کی مثال سب کے سامنے ہے‘ جہاں لوگوں کی حاضری اس قدر کم تھی کہ شرمندگی سے دونوں باپ بیٹی نے وہاں جانا ہی منا سب نہ سمجھا۔
اب نواز شریف سیا سی طور پر بھی کمزور ہو چکے اور انہیں فوج کے خلاف عوام کو بھڑکاکر اپنے ساتھ ملانے میں ناکامی ہو رہی تھی ‘سوائے تین چار میڈیا چینلز کے جو انہیں سہارا دے رہے تھے۔ انہیں لگ رہا تھا کہ خلائی مخلوق کی کردار کشی کیلئے اب ان کے پاس کوئی شے بیچنے کیلئے نہیں رہ گئی اور یہ تبدیلی بھارت کیلئے سخت نقصان دہ ہو چکی تھی کیونکہ نواز حکومت ختم ہونے میں بھی صرف دس دن باقی تھے اور بھارت کا پاکستان کی فوج اور پاکستانی عوام کے درمیان نفرت پیدا کرنے کا مشن ناکام ہوتا دکھائی دے رہا تھا ۔ RAW گھبرا گئی کہ پاکستان میں نواز شریف کی کمزوری سے ان کے پاکستان کی فوج‘ آئی ایس آئی اور ایٹمی اثا ثوں کے متعلق تمام منصوبے خاک میں مل جائیںگے ۔اب اس نے آگے بڑھ کر نواز شریف کی مدد کا فیصلہ کیا اور پھر اچانک ایک دن ادیتا سنہا کی مرتب کردہ کتاب کو مارکیٹ میں زبر دست پبلسٹی دیتے ہوئے لانچ کر دیا گیا‘لیکن غلطی ان سے یہ ہو گئی کہ اس کتاب کی تقریب رونمائی سے بھی پہلے اسے بھارتی RAW کے سب سے قریبی سمجھے جانے والے انگریزی اخبار THE HINDU اور نواز شریف کے سوشل میڈیا سیل کی نذرکر دیا گیا ۔مریم صفدر کے سوشل میڈیا سیل نے کتاب کی لانچنگ سے بھی پہلے سوشل میڈیا پر بھر مار کرتے ہوئے فوج کے لتے لینے شروع کر دیئے۔
جنرل درانی اور اس قبیل کے لوگ کسی طور بھی معافی کے قابل نہیں وقت آ گیا ہے کہ قوم کو یہ بھی کھل کر بتا دیا جائے کہ درانی کو کن وجو ہات کی بنا پر جنرل وحید کاکڑ نے فوج سے قبل از وقت ریٹائر کیا تھا؟ اس کتاب کے مندرجات اور انکشافات کو کس طرح سچ ما نا جا سکتاہے کہ ایک ایسا شخص‘ جو1993 ء میں فوج سے KICKED OFF ہوا ہو‘ وہ 2011ء کے قصے سنائے ؟۔
جنرل درانی اور اسلم بیگ دونوں کے متعلق کسی کو شک نہیں کہمارچ2007 ء میں جنرل مشرف کے خلاف میاں نواز شریف کی شروع کرائی جانے والی '' آزاد عدلیہ‘‘ تحریک میں سب سے آگے تھے بلکہ ان کے جملوں سے ایسا لگتا تھا کہ ان کی جنرل مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی ہے اور جب بھی انہیں موقع ملا ٹی وی چینلز پر اس پر تبرے بھیجتے رہے بلکہ ان دنوں الیکٹرانک میڈیا جنرل درانی کو سب سے معتبر سمجھتے ہوئے ہر وقت اپنے پاس بٹھائے رکھتا تھا ۔یہی دونوں کردار اپنے دور میں بحیثیت آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نواز شریف سمیت اپنی پسند کے لوگوں کو خفیہ فنڈز اور سپورٹ مہیا کرتے رہے ۔