ابو ظہبی میں اپنے ایک نہایت ہی خدا ترس پاکستانی انجینئر اسد جہانگیر کے ساتھ ایک سٹور میں خریداری کرتے ہوئے جب سبزیوں اور پھلوں کے شعبے کی طرف آئے تو ایک کراہت انگیز آواز سنائی دی'' اوہ پاکستانی پیاج‘‘ اور ساتھ ہی اس نے وہ جالی دار بیگ جس میں پاکستان کا پیاز تھا زور سے پٹخ دیا‘‘ لیکن دوسری جانب میں دیکھ رہا تھا کہ اسی سٹور میں بہت سے پاکستانی ہندوستان کی اشیاء دھڑا دھڑ خرید رہے تھے ۔۔۔پاکستانی پیاز پھینکنے والا وہ شخص بھارت کے کروڑوں مودیوں میں سے ایک تھا جس نے پیاز پھینکنے کے بعد فوری طور پر سٹور کے اندر لگے ہوئے ہاتھ دھونے کیلئے نصب لیکوئڈ سے خود کو پاک کیا کیونکہ اس کے ہاتھ پاکستانی پیاز چھونے سے بھرشٹ ہو گئے تھے۔
مشرا نام کے ایک بھارتی نوجوان کو نریندر مودی خصوصی طور پر ملاقات کیلئے وزیر اعظم ہائوس بلاتا ہے اور اس ملاقات کی ویڈیو بھارت کا تمام میڈیا بڑی بڑی خبرو ں کے ساتھ دکھاتا ہے۔ مشرا کو وزیر اعظم ہائوس بلانے کا پس منظر یہ تھا کہ اس نے بھارت آن لائن ٹیکسی سروس کو کال کیا اور جب وہ گاڑی اسے لینے کیلئے اس کے بتائے ہوئے مقام پر پہنچی تو مشرا نے ایک مسلمان ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا کہ اس طرح اس کے پیسے ایک مسلمان کے پاس پہنچ جائیں گے۔ بھارت کے صوبے مہاراشٹر اور احمد آباد میں پاکستان سے آئی ہوئی چینی کے تھیلوں کو ہندو انتہا پسند تنظیمیں گوداموں سے نکال نکال کر چھریوں اور تلواروں سے کاٹ کاٹ کر سڑکوں اور نالیوں میں اس لیے پھینک رہی ہیں کہ پاکستان کی چینی سے ہمارے کسان بھوک سے مر جائیں گے اور پاکستانی چینی ضائع کرنے کے مختلف جگہوں پر کیے جانے والے یہ آپریشنز بھارت کے تمام مشہور ٹی وی چینلز براہ راست دکھا رہے ہیں۔ نریندر مودی نے نوجوان کو اس لیے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا کہ اس نے ایک مسلمان کے قریب بیٹھنا بھگوان کو ناراض کرنے کے برا بر سمجھا۔ پھر کیا کہیں گے اس ملاقات کے بارے میںجب وہی مودی وزیر اعظم میاں نواز شریف کا خصوصی مہمان بن کر غیر سرکاری طور پر رائے ونڈ پہنچتا ہے تاکہ ان کی سالگرہ اور نواسی کی شادی کی تقریب میں شرکت کرے؟۔مریم صفدر بار بار اپنے قریبی لوگوں سے یہ کہتے ہوئے سنی گئی ہیں کہ مودی انکل کو وہ کس طرح برا بھلا کہہ سکتی ہے جو ان کی بیٹی کی شادی میں پاکستان آئے تھے۔ مریم صفدر سے جب سوال کیا گیا کہ بھارتی سٹیل ٹائیکون سجن جندال کے بارے میں وہ کیا کہتی ہیں جو بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کو بیرون ملک فنڈز مہیاکرتا ہے تو وہ برا منا گئیں۔۔۔شاید اس لیے کہ اسی سجن جندال نے جدہ کی سٹیل مل لگانے کیلئے اپنے ماہرین کی خدمات مہیا کی تھیں۔ ایک ماہ قبل ممبئی کے ابھیشک مشرا نامی نو جوان نے آن لائن ٹیکسی سروس کو پیغام بھیجا اور جب ٹیکسی آء اور وہ اس میں بیٹھنے لگا تو یک لخت یہ کہتے ہوئے باہر کود گیاکہ وہ اس گاڑی میں نہیں بیٹھے گا کیونکہ اس کا ڈرائیور مسلمان ہے اور پھر اس نے بڑے فخر سے ٹویٹ کیا کہ اس نے اس لیے وہ کیب چھوڑ دی کہ اس کا ڈرائیور ایک مسلا تھا۔ اس کو شاباش دینے کیلئے مودی نے خصوصی طور پر اپنے پاس بلایا اور اس انتہا پسند ہندو نوجوان کی بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی سے ہاتھ ملاتے ہوئے تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے۔
یہ سب لکھنے کے بعد دھیان شریف فیملی کی جانب چلا جاتا ہے جنہوں نے اسی نریندر مودی کو اپنی آنکھوں کا تارا بنایا ہوا ہے یہ مشرے، جندل اور راشٹریئے دوست ہیں اور اپنی ہی فوج کو دشمن سمجھ رکھا ہے۔ چند برس ہوئے شبانہ اعظمی چند روزکیلئے پاکستان تشریف لائیں تو انہوں نے ہمارے مختلف ٹی وی چینلز اور سیفما والوں کے ارد گرد بیٹھ کر بھارت کی فراخ دلی اور سیکولرازم کے ان گنت گیت گائے۔ جب وہ امن کی بھاشا کے گیت گا رہی تھیں تو ان کی آنکھیں اس بات کی چغلی کھا رہی تھیں کہ بھارت میں مذہبی آزادی کی جو کہانیاں وہ پاکستان کی سول سوسائٹی اور میڈیا کے سامنے ترنم سے گا رہی ہیں وہ سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ 12 ستمبر 2012ء کی شام شبانہ اعظمی ایک بھارتی ٹی وی چینل پر میڈیا کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر یہ کہتے ہوئے رو رہی تھی کہ مجھے اور میرے شوہر جاوید اختر کو ممبئی کی پوش آبادیوں کی کسی بھی ہائوسنگ سوسائٹی نے صرف اس لیے فلیٹ خریدنے یا کرایہ پر دینے سے صاف انکار کر دیا کہ آپ مسلمان ہیں!! شبانہ اعظمی بتا رہی تھیں: ان کو لاکھ کہا کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم تو صرف نام کے مسلمان ہیں لیکن انہیں کہا گیا کہ چاہے کچھ بھی ہو، ہیں تو آپ مسلمان خاندان سے۔ شبانہ اعظمی نے بھارتی اخبارات کو اپنا دستخط شدہ آرٹیکل بھیجا جس کے آخر میں لکھا تھا'' میرا خیال تھا کہ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ ہی ہوا ہے لیکن یہ وبا تو پورے ہندوستان میں پھیلتی جا رہی ہے کہ نئی بننے والی کسی بھی آبادی میں مسلمانوں کو رہنے کیلئے کوئی جگہ نہیں دی جا رہی اور میرے علاوہ سیف علی خان، زینت امان ، صوفی چوہدری اور عمران ہاشمی کو بھی اسی تعصب کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر شبانہ اعظمی، جاوید اختر، سیف علی خان اور عمران ہاشمی جیسے لوگوں کو ممبئی کے پوش علاقوں میں گھر خریدنے کی اجازت نہیں تو ہندوستان بھر میں عام مسلمانوں کا کیا حال ہو گا؟۔۔شکر ہے کہ شبانہ اعظمی اور جاوید اختر کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب انہیں پراپرٹی ڈیلروں کی طرف سے یہ انکار سننا پڑا۔ خدا جانے ہمارے ترقی پسند دانشوروں اور نواز شریف کی آنکھیں کب کھلیں گی کیونکہ انہوں نے مودی سے بھی بڑھ کر لاہور کے پنج ستارہ ہوٹل میں سیفما کے اجلاس میں ملک کی سرحدوں کو صرف ایک لکیر کا نام دے دیا ۔ بوہرہ فرقے کے علی اصغر زویری ،جو سکریپ میٹل ڈیلر ہیں ،نے بھون نگر سینی ٹوریم روڈ پر ایک بہت ہی پرانی حویلی نما کوٹھی خریدنے کے بعد جب اس کی مرمت اور رنگ و روغن کا ارادہ کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ساتھ کی کرشن نگر آبادی اور بھون نگر کے ہندوئوں نے کام کرنے والے مزدوروں کو مار پیٹ کر بھگا دیا۔ کئی دنوں تک اس پرانی حویلی کے سامنے بی جے پی، آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے کارکن پیتل کی تھالیاں ،گڑویاں لیے بیٹھے رہے اور دن رات مختلف قسم کی پراتھنائیں کرتے اور ساز بجاتے رہے۔ مودی کے نائب پراون گاڈیا نے اس حویلی کے سامنے تقریر کرتے ہوئے ہندوئوں کو کہا کہ پتھر اور ٹائر لے کر اس حویلی پر حملہ آور ہو جائو کسی سے مت ڈرو کسی مسلے کو اس کے اندر مت گھسنے دو۔ جب میڈیا کے لوگوں کو خبر ہوئی تو وہاں پر چار پولیس والے تعینات کر دیئے گئے لیکن یہ خبر میڈیا کے ذریعے عام ہونے پر ہندوئوں کا ہجوم مزید اکٹھا ہونا شروع ہو گیا اور اب زویری اور ان کی فیملی کو بھون نگر کے لوگوں نے یہ کہتے ہوئے بھگا دیا کہ کسی بھی قسم کے مسلمان کو یہاں نہیں رہنے دیا جائے گا
میاں نواز شریف کی فلاسفی کے مطابق ہم کیسے مان لیں کہ ہمارا اور مودی کا بھگوان ایک ہے۔۔۔کیسے مان لیں کہ جو آلو گوشت ہم کھاتے ہیں وہی آلو گوشت مودی بھی کھاتا ہو گا ؟
چند برس ہوئے شبانہ اعظمی چند روزکیلئے پاکستان تشریف لائیں تو انہوں نے ہمارے مختلف ٹی وی چینلز اور سیفما والوں کے ارد گرد بیٹھ کر بھارت کی فراخ دلی اور سیکولرازم کے ان گنت گیت گائے۔ جب وہ امن کی بھاشا کے گیت گا رہی تھیں تو ان کی آنکھیں اس بات کی چغلی کھا رہی تھیں کہ بھارت میں مذہبی آزادی کی جو کہانیاں وہ پاکستان کی سول سوسائٹی اور میڈیا کے سامنے ترنم سے گا رہی ہیں وہ سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں۔