"MABC" (space) message & send to 7575

یہ ہیں‘ وہ سرنگیں !!

بارہواں روزہ تھا اور مئی2018ء کی28 تاریخ ۔میاں نواز شریف لاہور میں یوم تکبیر کے حوالے سے لیگی کارکنوں کو بتا رہے تھے کہ بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میںآپ کے قائد (نواز شریف) نے پانچ دھماکے کر کے بھارت کو جواب دیا .....میاں صاحب آپ نے بارہویں روزے کہا کہ میرے حکم سے سرنگیں چند دنوں میں کھدوائیں .....اگر سچ سننے کی ہمت ہے‘ تو حضور یہ سرنگیں تو79-80ء میں فوج ‘اُس وقت تیار کر چکی تھی‘ جب آپ کچھ بھی نہیں تھے .....میاں صاحب آپ نے ایٹمی دھماکے کرنے کے نعرے لگا لئے‘ صرف اتنا ہی بتا دیں کہ بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میںپاکستان نے 30 مئی کو چھٹا دھماکہ کہاں کیا تھا ؟
میاں صاحب اور مریم صاحبہ سنئے:77 ء میں کوئٹہ کی پانچویں کور کے بریگیڈیئر محمد سرفراز کوGHQسے پیغام ملا کہPAEC سے سائنسدانوں کی ایک ٹیم بلوچستان کے کچھ علا قوں کے سروے کیلئے آ رہی ہے‘ آپ نے ان کی رہنمائی‘ سکیورٹی اور آرمی ہیلی کاپٹرز کوOK رکھنا ہے۔ اس فون کال کے اگلے روز ڈاکٹر اشفاق اور ثمر مبارک مند کی سربراہی میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم کوئٹہ پہنچ گئی ۔ یہ ٹیم صبح سے شام تک تربت‘ آواران‘ خضدار‘ اور مشرقی حصے میں کھاران کے علا قوں کا زمینی اور فضائی دورے میں ایسا پہاڑی سلسلہ تلاش کر رہی تھی ‘جہاں ایٹمی تجربات کیلئے زیر زمین سرنگیں کھودی جا سکیں.....تیسرے روز وہ ایک ایسا پہاڑی سلسلہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے‘ جو چاغی ڈویژن کے گرینائٹ پہاڑوں میں185 میٹر بلندی پر واقع تھا۔
فوج نے چاغی کے پہاڑوں میں انتہائی احتیاط اور بڑی ہی راز داری سے کام جاری رکھا۔ سائنسدان چاغی کے ان پہاڑوں اور اس کے ارد گرد کی زمین کی طاقت اور مضبوطی جانچنے کے علا وہ اس میں نمی اور پانی کے مطلوبہ تناسب کا جائزہ لینے کیلئے بے شمار ٹیسٹ بھی لیتے رہے ۔جب یہ مرحلہ خیر سے مکمل ہو گیا‘ تو ڈاکٹر اشفاق کیلئے دوسرا اہم ترین کام اس علا قے کاVertical سروے تھا ۔ان کی ٹیم کو یہ سروے مکمل کرنے میں1978ء کا پورا سال لگ گیا۔ اب ہمارے سائنسدانوں نے یہ فیصلہ کرنا تھاکہ ایسی جگہ سے سرنگ کھودی جائے‘ جس کے اوپر کم از کم700 میٹر اونچائی تک پہاڑ ہو تاکہ وہ سرنگ میں ہونے والے ایٹمی مواد کے طاقتور دھماکے کو برداشت کر سکے اور اس کیلئے اﷲ کے فضل و کرم سے پاک فوج کے مایہ ناز انجینئرز نے FISH HOOK طرز کی 3325 فٹ طویل مطلوبہ سرنگ کھودنے میں کامیابی حاصل کر لی‘ جو8 فٹ ڈایا میٹر کی تھی.....میاں صاحب !کھاران میں پاکستانی فوج L شکل میں300 اور 200 فٹ کی سرنگیں کھودنے میں کامیاب ہوئی‘ یہ تمام کام بریگیڈیئر سرفراز کی نگرانی میں جاری تھے‘ جن کی خدمات جنرل ضیاالحق نے پاکستان اٹامک انر جی کمیشن کے سپرد کرتے ہوئے سپیشل ڈویلپمنٹ ورکس کا براہ راست فوج کی نگرانی میں ایک ادارہ قائم کیا تھا‘جس کا کام ایٹمی دھماکوں کیلئے زیر زمین عمو دی اور افقی دونوں قسم کی ٹیسٹ سائٹس کو تیار کرنا تھا۔اس کیلئےFWO کو بھی ان کے ساتھ منسلک کر دیا گیا تھا۔
جنرل ضیا الحق کا بریگیڈیئر سرفراز کو واضح حکم تھا کہ تمام سرنگیں 1979ء تک ہر طرح سے تیار کر کے رکھیں جائیںتا کہ جس وقت بھی ضرورت پڑے ‘سات دن کے نوٹس پر ہمیں کسی بھی قوت کا ایٹمی دھماکا کرنے میں کوئی رکا وٹ نہ ہو۔ سپیشل ورکس ڈویلپمنٹ ‘ پاکستان اٹامک انر جی کمیشن اور جنرل ضیاء کے درمیان ہونے والی کئی میٹنگوں کے بعد فیصلہ ہوا کہ ان پہاڑوں کے علا وہ بھی تین دیگر مقامات پر ایٹمی دھماکوں کیلئے مطلوب زیر زمین سرنگیں تیار رکھی جائیں تاکہ ہنگامی صورت حال میں انہیں استعمال کیا جا سکے؛ چنانچہHorizontal Shaft سرنگ کیلئے بلوچستان کے سلسلہ راس کوہ کے شمال اور سیابان سلسلے کے جنوب میں واقع کھاران کے علاقے میں ایک صحرائی وادی کا انتخاب کیا گیا‘ لیکن کام شروع کرنے سے پہلے فوج نے پورا علاقہ ہر قسم کی نقل وحمل کیلئے مکمل طور پرSeal کر دیا‘ جس سے افواہیں پھیلنے لگیں کہ امریکی یہاں کوئی ہوائی اڈہ تعمیر کرنے لگے ہیں۔فوج کو راس کوہ اور خاران کی مطلوبہ سرنگیں کھودنے اور کسی بھی ایٹمی دھماکے کیلئے مکمل تیار کرنے میں تین سال لگے اور1980 ء میں یہ کسی بھی قوت کے ایٹمی تجربے کیلئے ہر طرح سے مکمل تھیں۔ ان بنیادی سرنگوں کے علا وہ میاں نواز شریف اور مریم صفدر جس فوج کو برا بھلا کہتے ہیں‘ اس کے سپیشل ڈویلپمنٹ ورکس نے24 کولڈ ٹیسٹ سائٹس اور46 شارٹ ٹنل اور35 زیر زمین رہائش گاہیں تعمیر کیں‘ جہاں سائنسدانوں اور ٹیسٹ سائٹس کی حفاظت گاہوں پر مامور فوجی جوانوں اور افسروں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کے علا وہ مانیٹرنگ کی سہولیات مہیا تھیں۔
اب آپ کوایک اور پہلو دکھاتے ہیں :۔ سرگودھا کے علاقے کیرانہ ہلز اور واہ گروپ کا نام شائد آپ نے سنا ہو یا کسی فائل میں دیکھا ہو.....یہ دو نام پاکستان کی ایٹمی قوت بننے میں ابھی تک گمنام سہی‘ لیکن یاد گار ضرورہیں کیونکہ 11مارچ1983ء کو پاکستان کے ایٹم بم کا پہلا COLD TEST یہاں پر ہوا تھا‘ جس میں اﷲ نے کامیابی سے ہمکنار کیا تھا اور اس وقت آپ صرف پنجاب کے ایک وزیر تھے اور یہ اولین ایٹمی تجربہ ڈاکٹر اشفاق احمد کی زیر نگرانی فوج کے سپیشل ڈویلپمنٹ ورکس نے مکمل کیا۔کیرانہ ہلز میں مطلوبہ سرنگوں کی کھدائی کا کام1979-83ء میں مکمل ہوا۔11 سے13 مئی 1998ء کو بھارت نے جب راجستھان کے علا قے پوکھران میں پانچ ایٹمی دھماکے کئے‘ تو ڈاکٹر اشفاق کو بیرون ملک سے 16 مئی کو فوری واپس بلایا گیا۔ ہمارے سائنسدانوں نے چاغی کی کوہ راس کا انتخاب کیا ‘کیونکہ وہاں6 ایٹمی دھماکے کرنے کی بہترین گنجائش تھی۔19 مئی کو اٹامک انر جی کمیشن کے140 سائنسدانوں‘ انجینئرز اور ٹیکنیشنز پر مشتمل ایک ٹیم بوئنگ737 کی دو پروازوں سے بلوچستان پہنچی ‘ان کے کچھ آلات بڑے بڑے NLC کے سپیشل ٹرالوں کے ذریعے ایس ایس جی کی زیر نگرانی چاغی پہنچائے گئے‘ جبکہ مطلوبی نیوکلیئر ڈیوائسز کو فوج کےC130 کے ذریعےCOMPLETELY KNOCKED DOWN SUB ASSEMBLY FORM میں پاکستانی حدود پرواز کرنے کے با وجود دشمن کے کسی حملے سے بچانے کیلئے چار F16 فائٹرز انکی حفاظت میں چاغی اور ایک دوسری جگہ پہنچایا گیا۔ ان کے پہنچنے سے پانچ روز قبل فوج کے انجینئرز نے چاغی اور دوسری جگہوں پر کھودی گئی سرنگوں کو ریت اور سیمنٹ کے6 ہزار تھیلوں کے ذریعےSEAL کر دیا‘ سخت گرمی کی وجہ سے یہ سیمنٹ27 مئی کو مکمل خشک ہو چکاتھا۔
میاں صاحب! آپ نے اپنی تقریر میں سرنگ کھودنے کی بات کی ہے‘ تو حضور یہ سرنگیں پہلے سے تیار تھیں۔ 28 مئی کو ایک بج کر تیس منٹ پر فائرنگ آلات کو ایک بار پھر چیک کیا گیا‘ ڈھائی بجے پاک فوج کے ایک ہیلی کاپٹرمیں ڈاکٹر اشفاق اور لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار کی سربراہی میں پاک فوج کی ایک ٹیم موقع پر پہنچی .....تین بج کر سولہ منٹ پر چیف سائنٹفک آفیسر محمد ارشد نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے بٹن دبایا اور پاکستان نے عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بننے کی سعادت حاصل کر لی..... تیس مئی کو راس کوہ سے150 کلو میٹر دور پاکستان نے چھٹا ایٹمی دھما کہ کر دیا۔
حضور !آپ کہتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے کرنے والے نواز شریف کو سزا کیوں دی .....یاد کیجئے‘ اس ملک کے ایٹمی کلب میں ذوالفقار علی بھٹو‘ غلام اسحاق خاں ‘ جنرل ضیا الحق ‘ ڈاکٹر قدیر‘ ڈاکٹر ثمر مبارک مند‘ ڈاکٹر اشفاق‘ ڈاکٹر پرویز بٹ اور وہ فوج‘ جسے باپ بیٹی مل کر برا بھلا کہہ رہے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں