2019 ء میں بھارت کے عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں‘ اس تناظر میں نریندرمودی کے قتل کے منصوبے کا ڈرامہ رچاتے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس مبینہ قتل کی سازش کو نا کام بنانے پر پونا پولیس کو شاباش دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت ایک مہان لیڈر کے سائے سے محروم ہونے سے بچ گیا ہے۔ راج ناتھ سنگھ کے مطا بق‘ نئی دہلی سے رونا ولسن نامی گرفتار کئے جانے والے ایک مبینہ مائونواز کے گھر سے ملنے والے ایک خط سے پولیس کو پتا چلا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اسی انداز میں مارا جا نا تھا‘ جس طرح راجیو گاندھی کومارا گیا ‘یعنی تامل ٹائیگرز کی طرز پر مائونوازوں نے بھی نریندرمودی کو بالکل اسی طرح نشانہ بنانے کی سازش مکمل کر لی تھی‘ لیکن ان کے ایک ساتھی کی گرفتاری نے نریندر مودی کو قتل کرنے کیلئے تیار کی جانے والی سازش کو نا کام بنا دیا ہے۔
پونا پولیس کے مطا بق بھارتی پردھان منتری نریندر مودی کو کسی سڑک کنارے گزرتے ہوئے یا کسی عوامی اجتماع میں داخل ہو تے ہوئے بم دھماکے یا راجیو گاندھی کو قتل کیے جانے کی طرز کے خود کش حملے کے ذریعے مارنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا‘ جبکہ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کا یہ کہنا کہ پونا پولیس کی رپورٹ کے مطابق‘ انہوں نے ایک مائونواز دہشت گرد کو پکڑا ‘تو اس سے ایک خط بر آمد ہوا‘ جس سے نریندر مودی کے قتل کی سازش کا منصوبہ سامنے آیا ‘جسے فوری طور پر ناکام بنادیا گیا۔وہ خط جسے پونا پولیس اور بھارت کی تمام خفیہ ایجنسیاں اور سکیورٹی ادارے بنیاد بنا کر مودی کے قتل کاڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں‘ اس وقت میرے سامنے ہے‘ جس میں کسی کامریڈ پرکاش کو سرخ سلام پیش کیا گیا ہے ۔
اس خط کی تحریر کے آخر میںR لکھا گیا ہے اور اس پر 18 اپریل 2017ء کی تاریخ درج ہے‘ یعنی یہ ایک سال پرانا خط ہے۔ اس خط کے مطا بق کسی سے8 کروڑ روپے، چار لاکھ رائونڈز اور M4 امریکن رائفلز کی فراہمی کی درخواست کی گئی ہے‘ جسے رونا ولسن نے پولیس کے بقول ‘ایک سال سے اپنے پاس سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ زیر زمین کام کرنے والی مائونواز یا نیکسلائٹ تنظیمیں اپنے ساتھ اس قسم کے خط لئے پھرتی رہیں ؟اگراس خط کے ایک ایک لفظ کو غور سے پڑھیں‘ جس میں صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ ہم بھارت سے ہندو فاشزم کے خاتمے کیلئے ہر ممکن جدو جہد کریں گے۔ ہندو فاشزم کوانتہا تک پہنچانے کیلئے یوپی کا وزیر اعلیٰ یوگی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی دن رات ایک کئے جا رہے ہیں اور یہ بھارت کی سلامتی اور امن کیلئے کسی طور بھی اچھا نہیں۔ واضح رہے کہ اس خط کے یہ مندرجات‘ مائونوازوں کا نظریہ ہی نہیں‘ بلکہ بھارت کے تعلیم یافتہ لوگ دیش سے مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے اور دیش میں سب کو مساوی حقوق دیئے جانے کے حامی ہیں ۔ خط میں لکھا ہوا ہے کہ بہار اور مغربی بنگال میں شکست کھانے کے با وجود مودی پندرہ کے قریب ریا ستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتیں بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے‘ جو بھارت کی اقلیتوں کیلئے کسی طرح بھی اچھا نہیں۔کانگریس کے مرکزی لیڈر سنجے نروپم نے اس خط پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا '' تاریخ گواہ ہے کہ مودی جب گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا‘ تو جیسے ہی اس کی مقبولیت میں کمی آنے لگتی ‘تو کبھی وہ اپنی ‘تو کبھی ہندو پنڈتوں کے قتل کی سازش سامنے لا کر ہندو ئوں کی نظروں میںخود کو دوبارہ مظلوم بناکر پیش کر تا رہا ہے‘‘۔
پونا پولیس کے پراسیکیوٹر نے ملزمان کے خلاف سیشن کورٹ میں جو چارج شیٹ عدالت کو پیش کی ہے‘ اس میں گرفتار کئے جانے والوں کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ سب دلت ہیں‘ جو نسلی تعصب پر مبنی ہنگاموں کے اہم کردار ہیں‘یعنی لیکن کہانی یہ نہیں‘ جو پونا پولیس اور بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ میڈیا کو سنا رہے ہیں‘ بلکہ یہ سب 39 افراد کو ایک قطار میں فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے بے رحمی سے کی جانے والی اس سرکاری دہشت گردی کے خلاف مقامی رد عمل سے بچنے کیلئے تراشا گیا ایک ڈرامہ ہے‘ جس کے خلاف بھارت کی متعدد ہیومن رائٹس تنظیموں نے احتجاج کرتے ہوئے جنیوا میں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کونسل کو اپنے نمائندوں کو بھارت بھیج کر معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی درخواست کر رکھی ہے۔واضح رہے کہ 39 افراد 22 اور23 اپریل2018 ء کی رات بھارتی فوج نے بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔ نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ جنہیں مائونوازوں کا نام دیا جا رہا ہے‘ اصل میں کھیت مزدور اور مچھلیاں پکڑنے والے تھے‘ جن پر تشدد کرتے ہوئے ان سے ان مبینہ ساتھیوں کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا‘ جو بھارتی فوج کے بقول اس رات ان کے گائوں میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اب پونا پولیس اور بھارت کی خفیہ ایجنسیاں جس قسم کی چاہے کہانیاں گھڑ لیں‘لوگ ماننے والے نہیں۔
پونا پولیس کے چند افسروں نے کچھ صحافیوں سے آف دی ریکارڈ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں گرفتار کئے گئے ‘ان لوگوں پر شبہ ہے کہ جنوری میں Koregaon-Bhima میں ذات پات کے نام پر ہونے والے خون ریز ہنگاموں میں تو ملوث نہیں ؟کہیں ان ہنگاموں کے پیچھے مائونوازوں کا ہاتھ تو نہیں تھا ؟ پونا پولیس اپنی کار کردگی دکھانے کیلئے یہ ثابت کر رہی ہے کہ اگر نچلی ذات کے ہنگاموں سے متاثرہ علا قوں کا دورہ کرنے کیلئے وزیر اعظم مودی یا مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیوندر فرناوس‘ وہاں پہنچتے تو ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک کو مائونواز نے آنجہانی راجیو گاندھی کی طرح خود کش حملے یا بم دھماکے کا نشانہ بنا نا تھا۔ مہاراشٹر اور چھتیس گڑھ کی حدود کو تقسیم کرنے والے دریائے اند روتی کے شمالی کنارے 39 دیہاتیوں کی بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاکت نے نہ صرف بھارت‘ بلکہ اس کے خلاف اٹھنے والے بھر پور احتجاج نے دنیا بھر کے میڈیا کو اس قتل عام کی جانب متوجہ کر دیا ہے ۔
انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں ما ما قدیر کے بھانجے جو بلوچستان میں اپنے گھر والوں سے ناراض ہو کر بھاگ جانے والے کو بھی‘ لاپتہ یا مسنگ پرسن کے نام سے اپنے ملک کی سکیورٹی فورسز کے خلاف آئے دن آسمان سر پر اٹھا ئے رکھتے ہیں‘ لیکن بھارت میں ان39 افراد، جنہیں مائونوازوں کا نام دیتے ہوئے بھارتی فوج نے بے رحمی سے قتل کر دیا تھا‘ ان کے بارے میں ہماری کسی تنظیم نے ایک ہلکی سی آواز بھی نہیں اٹھائی ؟اس کیلئے کسی خاص ادارے کی بات نہیں کی جا رہی‘ بلکہ ہم سب نے دیکھا ہے کہ پاکستان میں کسی فوجی جیپ سے ہلکی سی رگڑ کھا کر گرنے والوں کے حق میں بنیادی حقوق کے راگ الاپنے والے اچھل ا چھل کر لیکچر دینا شروع کر دیتے ہیں۔ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ دنیا کی کسی بھی گوریلا تنظیم کے پانچ دس نہیں‘ بلکہ اکٹھے39 فائٹر بھارتی فوج کے بقول گوریلا جنگ کے ماہر ہوں اور یہ سب مشہور زمانہ مائونواز، بطخوںکی طرح دریا کے کنارے مار دیئے جائیں اور ان کے مقابل فورس کے کسی ایک جوان تک کو ہلکی سے خراش تک نہ آئے؟ یہ بالی وڈ کی فلموں میں تو ہو سکتا ہے‘ لیکن گوریلا جھڑپوں میں نہیں۔ دُور نہ جائیں‘ پاکستان کی بہترین تربیت یافتہ لڑاکا فوج اور سکیورٹی فورسز کا آئے دن بلوچستان سمیت وزیر ستان وغیرہ میں دہشت گردوں سے سامنا ہوتا رہتاہے اوراکثر مخبری ہونے پر ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کئے جاتے ہیں‘ جن میں دہشت گردوں کے ساتھ پاکستان کی فورسز کے لوگ بھی نشانہ بنتے ہیں۔
لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت میں 39 افراد کے ہاتھوں اور پائوں کو رسیوں سے باندھ کر انہیں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے ۔ان نہتے دیہاتیوںکے ہاتھوں اور پاؤں پررسیوں اور تشدد کے نشانات پوری دنیا کو نظر آ جاتے ہیں‘ سوائے بھارتی میڈیا کے ‘ جو انہیں ماوٗنواز ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔