"MABC" (space) message & send to 7575

نواز لیگ کا ہینڈ آئوٹ

6 جون کے نیو یارک ٹائمز میں ڈگلس شوارز مین کے لکھے گئے ایک مضمون میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان کی طاقتور فوج نے پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات پر اثر انداز ہوتے ہوئے‘ ابھی سے نواز لیگ کے حامی میڈیا اور سوشل میڈیا کے سر گرم لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا شروع کر دیا ہے ۔ ڈگلس کایہ مضمون جب نیو یارک ٹائمز میں شائع کرایا جا رہا تھا تو اِدھر پاکستان میں مشاہد حسین انگریزی اخبار میں اپنے مضمون میںکہہ رہے تھے کہ نواز لیگ کو انتخابات میں کامیابی کے بعدفوج سے تعاون کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ایسا لگتا ہے کہ نیو یارک ٹائمز میں بھی کوئی' ڈان‘ بیٹھا ہوا ہے۔ اس کی اور ڈگلس کی حماقت دیکھئے کہ وہ پاکستان آرمی پر الزام لگاتے ہیں کہ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ گل بخاری کو رات گئے لاہور چھائونی میں اس لئے ہراساں کیا گیا کہ وہ فوج کے نواز شریف اور پشتون تحفظ موومنٹ کے خلاف اقدامات پر سوشل میڈیا پرآواز بلند کرتی ہے۔ ڈگلس اور نیو یارک ٹائمز کو پاکستان کے خلاف کام کرنے والی پشتون تحفظ موومنٹ اور گل بخاری کی یاد تو آ گئی‘ لیکن ڈگلس کو یہ نہیں بتایاگیا کہ اسی رات پاکستان کے انگریزی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا سے منسلک ایک مشہور و معروف انویسٹی گیٹو صحافی اسد کھرل کو رات گئے کراچی سے لاہور پہنچنے کے بعد ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہوئے چند کار سواروں نے یہ کہتے ہوئے کسی تیز دھار شے سے گردن پر وار کرتے ہوئے سخت زخمی کر دیا کہ تم ہماری مخالفت اور فوج کی حمایت کیوں کرتے ہو ۔ تم پاکستان آرمی کے ایجنٹ ہو۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ڈگلس کے نزدیک آزادیٔ صحافت وہی ہے جو شریف فیملی کی کرپشن کے حق میں لکھے یا جو پاکستان کے اندر شہریوں اور آرمی کو نشانہ بنانے وا لے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے خلاف بولے اور لکھے؟ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ امریکہ کا صحافتی معیار اس سطح تک گر جائے گا کہاس کے نزدیک صحافی وہی ہے جو کرپٹ حکمران کو سپورٹ کرے۔کیا ڈگلس شوارز مین ثابت کر سکیں گے کہ پینٹا گان نے امریکہ میں کرپشن کے کسی ایک میگا سکینڈل کی کبھی حمایت کی ہے؟کوئی امریکی اخبار امریکہ میں کسی کرپٹ حکمران‘ کسی رکن کانگریس یا سینیٹ کے کسی کرپٹ اور ٹیکس چور ممبر کی حمایت میں سامنے آیا ہے؟میرے خیال میں نواز شریف اور مشاہد حسین گروپ‘ حسین حقانی کے ذریعے بہترین ٹائمنگ استعمال کرتے ہوئے عا لمی میڈیا کے ذریعے احتساب عدالت میں‘ جولائی میں اپنے اور فیملی کی کرپشن مقدمات کے ممکنہ فیصلوں پر شکوک ابھارنے کے لیے آرٹیکل لکھوایا۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ڈگلس کے اندازِ تحریر کو پڑھنے والوں کو ایسا لگے گا کہ دشکا سید ، حسین حقانی اور ان کی بیگم مسز فرح اصفہانی پر مشتمل میاں نواز شریف کی نئی میڈیا ٹیم نے پاکستان کے انگریزی اخبارات کے تراشوں کو ڈگلس کے نام سے شائع کرا دیا ہے۔ اسے مذاق مت سمجھئے‘ اس مضمون کے ایک ایک لفظ کو غور سے پڑھنے کے بعد معلوم ہو جائے گا کہ افواج پاکستان کو نشانہ بناتے ہوئے دشمنانِ پاکستان کے مذموم مقاصد پورے کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیا بغیر تحقیق‘ پاکستان کے بعض مخصوص انگریزی اخبارات کی خبروں کو اپنے صفحات پر ڈگلس جیسے لکھاری کے نام سے جگہ دینا مناسب ہے؟ ڈگلس کے اس آرٹیکل کا یہ پیراگراف پڑھتے ہوئے شک سا ہونے لگتا ہے کہ نواز لیگ کی الیکشن مہم کے لیے شاید فرنچائز حاصل کر لی گئی ہو۔ڈگلس شوارز مین لکھتے ہیں''ابھی کچھ روز ہوئے پاکستان کے ایک مشہور انگریزی اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں نواز شریف نے پاکستان کو 26/11 کے ممبئی حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا تھاجس پر پاکستان کی فوج اور اس کی ایجنسیوں نے طیش میں آ کر اخباری ہاکروں اور دکانداروں سے ڈان اخبار کی کاپیاں چھینتے ہوئے انہیں سختی سے اس اخبار کا سٹاک رکھنے سے منع کر دیا‘‘۔ کس قدر گھٹیا اور سستا الزام ہے ۔ بندہ میاں نواز شریف اور ان کے حقانی میڈیا گروپ سے پہلے اور ڈگلس شوارز مین سے بعد میں پوچھے کہ پاکستان میں ٹی وی دیکھنے والا ہر شخص گواہ ہے کہ جیسے ہی میاں نواز شریف نے یہ انٹر ویو دیا تو سیرل المیڈا نے اسے ترتیب دینے کے بعد ایڈیٹر کو بھجوا دیا اور اگلے دن اور پھر متواترکئی روز تک بھارت سمیت پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز پر اس انٹرویو کی ایک ایک تفصیل کی بھر مار ہو تی رہی ان میں پاکستان کے وہ ٹی وی چینلز بھی شامل تھے جو ملکی ا فواج کے خلاف نا جائز اور پلانٹڈ خبریں دینے سے اجتناب کرتے چلے آ رہے ہیں۔ فوج پر لگائے گئے غیر ملکی میڈیا کے الزامات درست ہیں تو فوج ان چینلز سے اس انٹرویو کی تفصیلات نہ بتانے کی درخواست کر سکتی تھی لیکن سب نے دیکھاکہ انٹرویو تو کیا‘ اس کی ایک ایک سطر کو روزانہ بیس تیس مرتبہ دکھانے سے کسی نے بھی منع نہیں کیا۔
مضحکہ خیز اور بے معنی قسم کے الزامات لگاتے ہوئے ڈگلس شوارز مین مزید لکھتا ہے کہ ایک ٹی وی کی نشریات فوج نے اپنے علاقوں میں بند کرا نی شروع کر دی ہیں‘ کیونکہ وہ فوج کے خلاف پروگرام کرتا ہے۔ کسی بھی ملک کی فوج ایک با قاعدہ ادارہ ہوتی ہے اور یہ کسی بھی فوج کے ڈسپلن کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی چھائونیوں میں بھارت نواز لابی کے پروگرامز اور جوانوں اور افسروں کے مورال کو کمزور کرنے والے پراپیگنڈے پر مبنی مہم چلانے والے کسی ٹی وی چینل کو دیکھنے کی اجا زت نہ دے۔کیا بھارت کی چھائونیوں میں دنیا نیوز جیسے پاکستان نواز ٹی وی چینلز دیکھنے کی اجا زت ہے؟۔ کیا ڈگلس کو علم ہے کہ سابقہ حکومت اپنی مدت پورے ہونے تک روزانہ کتنے ٹی وی چینلز کو نواز لیگی ارکان اسمبلی، پولیس اور انٹیلی جنس بیورو کے ذریعے بند کراتی رہی ہے اور اس قسم کے اقدامات فوجی نہیں بلکہ مقامی سطح کی مداخلت کے باعث ہوتے رہتے ہیں‘ جس کے مناظر کرا چی سمیت سندھ بھر میں پی پی‘ جئے سندھ ‘اے این پی ‘ ایم کیو ایم اور لیاری گینگ کی جانب سے دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔
امریکی اخبار کے مطا بق گل بخاری رات گئے ایک ٹی وی پروگرام میں شرکت کے بعد کنٹونمنٹ سے آ رہی تھی کہ وہاں ایک ملٹری چیک پوسٹ پر ان کی گاڑی کو روک کر ڈرائیور سے بد تمیزی کی گئی‘جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی گاڑی کو دوسروں کی طرح روک کرتلاشی اور کاغذات کی چیکنگ کے لیے کہا گیا‘ جس پر گل بخاری اور ان کے ڈرائیور نے دیر ہونے کا کہہ کر ملٹری پولیس والوں سے جھگڑنا شروع کر دیا‘ کیونکہ متعلقہ گاڑی کے کاغذات ان کے پاس نہیں تھے اور سب جانتے ہیں کہ ایسے معاملات پر آرمی کے جوان یہ معاملہ ساتھ کھڑی ہوئی مقامی پولیس کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اب یہ تو رات گئے کی بات کر رہے ہیں دن میں بھی لاہور چھائونی کی حدود میں داخل ہوتے ہوئے دہشت گردی کے پیش نظر پولیس کی سخت چیکنگ روزانہ کا معمول ہے ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں