عمران خان نے جیسے ہی اگلے پانچ سال کیلئے ملک کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے انتخابات کیلئے وطن عزیزکے مختلف حصوں کے انتخابی حلقوں کی مضبوط شخصیات کواپنے ساتھ شامل کرنا شروع کیا‘ تو دس سے زائد جماعتوں کی کمانوں سے برسائے جانے والے تیروں نے عمران خان کے ہوش اڑا دیئے اور ان کا ساتھ دینے کیلئے میڈیا اور مخالفین کے گروہ کی جانب سے‘ جو سب سے زیا دہ جملہ استعمال کیا جانے لگا ‘وہ یہ تھا کہ ''کیا یہ ہے تبدیلی‘‘اور پراپیگنڈے کی اس لہر سے متاثر پی ٹی آئی کے کئی ناقد کہنے لگے کہ تحریک ِانصاف ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ کیوں شامل کررہی ہے‘ جو کل تک دوسری جماعتوں میں تھے؟ عمران خان ایسے لوگوں کے ساتھ کیسے تبدیلی لائے گا؟اوراس سلسلے میں خیر سے پی پی پی کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے کچھ اینکرز حضرات نے اس ایشو کو نہایت عجب انداز میں پیش کرنا شروع کیا ہوا ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ اگر عمران سے ملنے والے سب الیکٹ ایبلز کرپٹ تھے‘ تو اُن کی سابقہ پارٹیوں نے اتنے عرصے تک انہیں اپنے ساتھ کیوں چمٹائے رکھا؟ اگر یہ کرپٹ تھے‘ تو حکومت میں ہونے کے با وجود اُن کے خلاف قانون کے مطا بق کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟کیا یہ وہی الیکٹ ایبلز نہیں‘ جنہیں میاں نواز شریف نے2013 ء کے انتخابات کے وقت ق لیگ سے اپنے ساتھ پرُ زور اصرار پر شامل کیا تھا۔ایسا کرتے وقت میاں نواز شریف کو ان میں کرپشن کی کوئی بو نہیں آئی یا پانچ سال تک اپنے ساتھ رکھتے ہوئے بھی ان سے کرپشن کی بو نہیں آئی۔پیپلز پارٹی کے قمرا لزمان کائرہ جیسے سینئر رہنما جب کہتے ہیں کہ تحریک ِانصاف لوٹوں کو اپنے ساتھ شامل کر رہی ہے‘ تو میری ان سے گذارش ہے کہ حضور! آپ اکیلے بیٹھ کر یا پی ٹی آئی کے نوآموز ورکروںکے سامنے تو یہ الزام لگا دیتے ہیں‘ لیکن کیاآپ بتانا پسند کریں گے کہ ٹھٹھہ کے شیرازی برادران کا سفر جنرل مشرف سے ق لیگ اور پھر نون لیگ سے ہوتا ہوا ابھی پانچ دن قبل پی پی پی تک کیسے پہنچا؟اخبارات کے صفحات گواہ ہیں کہ گزشتہ ایک سال سے آصف علی زداری نے ایم کیو ایم‘ پی ٹی آئی کے ناد رلغاری سمیت مسلم لیگ نون اور فنکشنل سے تعلق رکھنے والے درجنوںلوٹوںکو دھڑا دھڑ اپنی جماعت میں شامل کیا ہے۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالیں‘ تو ہمیں قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور ملائیشیا کے مہا تیر محمد بے ساختہ یاد آنے لگتے ہیں۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیا دت میں مسلم لیگ نے جب1946 ء سے پہلے ہونے والے متحدہ ہندوستان کے انتخابات میں حصہ لیا‘ تو مسلم اکثریتی علاقوں میں انہیں وہی کامیابی ملی ‘جو عمران خان کو2013 ء میں مل سکی تھی‘ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جیسے ہی1946ء کے انتخابات کا موقعہ آیا‘ تو مسلم اکثریت رکھنے والے علاقوں سے الیکٹ ایبلز خاندانوں کے بڑے بڑے لوگ مسلم لیگ میں قائد اعظمؒ کی قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے ‘اُن کے ساتھ شامل ہو گئے تھے۔ اس وقت مسلم لیگ سے برسوں کی وابستگی رکھنے والے درجنوں نظریاتی کارکن ٹکٹوں کے معاملے پر نظر انداز کئے جانے پر قائد اعظمؒ سے بد دل ہوکر اُن کی مخالفت کرنے کی بجائے ‘اُن کی قیا دت میں پہلے سے بھی زیا دہ متحرک ہو گئے تھے اور انہوں نے قیام پاکستان کیلئے جدو جہد میں اس طرح حصہ لینا شروع کیا کہ اپنے دن رات ایک کر دیئے۔اور پھر سب نے دیکھا کہ وہ مسلم لیگ‘ جو1946ء سے قبل کے انتخابات میں کانگریس اور اس کی حامی جماعتوں کے مقابلے میں سکڑ کر رہ گئی تھی‘ انہی مسلم اکثریتی علا قوں میں الیکٹ ایبلز خاندانوں کے لوگوں کی وجہ سے 75 فیصد سے زائد کامیابی حاصل کرتے ہوئے ‘ آخر کارقائد اعظم ؒکی قیا دت میں قیام پاکستان کی جنگ جیت گئی!۔
قیام پاکستان کے ساتھ بد قسمتی یہ ہوئی کہ ہندو اکثریت کے علا قوں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا‘ جس سے لاکھوں کی تعداد میں بے گھر اور زخمی مسلمان‘ نقل مقانی اور ہجرت کرتے ہوئے پاکستان پہنچنا شروع ہو گئے۔ پاکستان جیسے نوزائیدہ ملک کے پاس اس وقت تک نہ تو مالی وسائل تھے اور نہ اُن علا قوں میں کوئی انڈسٹری تھی اور نہ ہی مسلمانوں میں کوئی بڑی بڑی امیر شخصیات تھیں۔اور پھر سب نے دیکھا کہ وہی الیکٹ ایبلز‘ جنہیں قائد اعظمؒ نے اپنے ساتھ شامل کرتے ہوئے قیام پاکستان کی جنگ جیتی تھی‘ اُن کو مشنری ٹیموں میں بدل دیا گیا‘ جس سے پاکستان جلد ہی مشکلات سے نکل آیا۔ذہن نشین رہے کہ لیاقت علی خان کی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے تک پاکستان نے کہیں سے بھی کوئی بیرونی قرضہ نہیں لیا‘ بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے تباہ حال جرمنی کو50 ہزار ڈالر بطور ِقرض دیا۔قائد اعظمؒ بہت جلد دنیا سے رخصت ہو گئے اور لیاقت علی خان کو ایک قاتلانہ حملے میں شہید کر دیا گیا۔کاش! ان لیڈروں کو موقع ملتا‘تو آج پاکستان کی کی حالت کچھ اور ہوتی۔
ملائیشیا کی تقدیر سنوانے والے مہاتیر محمد کی مثال ہم سب کے سامنے ہے اور یہ کوئی بہت پرانی نہیں‘بلکہ کل کی بات ہے۔مہاتیر محمد نے ملائیشیا زمین کی گہرائیوں سے نکال کر دنیا میں ایک دمکتا ہوا ستارہ بنا دیا۔ مہاتیر محمد نے بھی اپنے ملک کے الیکٹ ایبلز سیا ستدانوں کو اپنے ساتھ ملا کر طویل عرصے تک ملائیشیا پر حکومت کرتے ہوئے قانون کی حکمرانی قائم کی اور انہی الیکٹ ایبلز کے ساتھ دیانتدارانہ نظام حکومت اور معاشرے میں انصاف قائم کیا اور اپنے ملک کو خطے کے صف اول کا ترقی یافتہ ملک بنا دیا اور یہ کسی سے کوئی ڈھکی چھپی ہوئی بات نہیں‘ بلکہ اگر آپ پاکستان کے کسی بھی ائر پورٹ پر چلے جائیں ‘تو روزانہ درجنوں کی تعداد میں پاکستانی نوجوان بہتر روزگار کیلئے ملائیشیا جانے کیلئے امیگریشن والوں کے سامنے قطار میں کھڑے ہوئے دکھائی دیں گے۔او ریہی وہ بات ہے‘ جسے عمران خان اپنے جلسے میں دہراتا ہوا کہہ رہا ہے کہ اگر عوام نے تحریک ِانصاف کو کامیابی دی‘ تو بہت جلد آپ دیکھیں گے کہ ہم ایک ایسا پاکستان بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے‘ جہاں روزگار کی تلاش میں بیرونی ممالک سے لوگ پاکستان آیا کریں گے۔کل تک یہ باتیں سنگا پور میں ایک خواب کہہ لیں یا کسی دیوانے کی بڑ سمجھی جاتی تھیں ‘لیکن آج دنیا بھرکے لوگ سنگا پور کا رخ کر رہے ہیں‘ بلکہ دنیا کے طاقتور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا کے صدر سے بات چیت کیلئے سنگا پور کا انتخاب کرتے ہیں۔ اور وہی ملائیشیا‘ جسے مہاتیر محمد نے ایک ترقی یافتہ اور مصروف صنعتی ملک میں تبدیل کر کے دکھا دیا ‘ اُن کے جانے کے بعد اسی طرح لوٹ مار کا شکار ہو گیا‘ جیسے قائد اعظم ؒ کی رحلت کے بعد پاکستان کا حال کر دیا گیا ۔
اب ایک مرتبہ الیکٹ ایبلز سیا ستدانوں کو اپنے ساتھ ملا کر 92 برس کی عمرمیں ملائیشیا کے مرد ِآہن مہاتیر محمد نے کرپٹ ترین ٹولے کو بہت بڑی لیڈسے انتخاب میں شکست دے کر اپنے ایک بار پھر تیز رفتار معیشت کی جانب لے جا نا شروع کر دیا ہے ۔مہاتیر محمد کی حکومت بنتے ہی پہلے ہی دن سابق وزیر اعظم ابراہیم کے گھر چھاپہ مار کر کرپشن کے کروڑوں ڈالر زاورسونا بر آمد کر لیاگیا ۔میرے سامنے2013ء کے انتخابات میں عمران خان کی جانب سے تحریک ِانصاف کے پرانے کارکنوں کو دی جانے والی ٹکٹوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ بد قسمتی کہہ لیجئے کہ آج کے پاکستان کی انتخابی سیا ست میں ان کے حاصل کر دہ ووٹوں کی تعداد وہ کارکن مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ اب بتایئے رانا ثناء اﷲ‘ جیسے شخص کا مقابلہ نثار جٹ کی بجائے کوئی عام ورکر کر سکتا ہے؟۔